لمحہ فکریہ

تحریر ۔۔۔فیصل جاوید
منشیات ایک لعنت ہے اس کے معاشرے پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں شروع میں منشیات فروش خاص لوگوں کو مفت بھی منشیات دیتے ہیں تاکہ یہ لوگ عادی ہوجائیں اور بعد میں گھر کا تمام سامان وغیرہ تک بیچ کر ہمیں دیں اور منشیات ہم سے خریدیں تحصیل کبیروالا کے نواحی علاقہ عبدالحکیم میں کافی عرصہ پہلے منشیات کا مکروہ دھندہ شروع ہوا اس وقت چند لوگوں نے یہ کام شروع کیا لیکن آہستہ آہستہ اس آگ نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا پھر تو یوں ہوا کہ اس عبدالحکیم سے پورے پنجاب میں منشیات سپلائی ہونے لگی منشیات فروش مختلف روپوں میں منشیات سپلائی کرتے تھے اس سے منشیات فروش ککھ سے لکھ پتی اور،کنگلوں سے بنگلوں،کے مالک بن بیٹھے منشیات جب عام ہوگئی تو ہر گھر میں ایک یا دو افراد نشہ کے عادی ہوگئے اور نشہ کی عادت کو پورا کرنے کے لیے اپنے گھروں کے برتن تک بیچ دیے، منشیات فروشوں نے نشہ کے عادی افراد کی رقم سے کوٹھیاں بنا لیں، جب کبھی انتظامیہ نے ریٹ کرنا ہوتا تو پولیس میں موجود کچھ منتھلی والے ملازمین منشیات فروشوں کو پہلے ہی اطلاع کردیتے یوں پولیس کا ریڈ بھی ناکام ہوتا اور منشیات فروش بھی اپنی متعلقہ جگہوں سے بھاگ جانے میں کامیاب ہوجاتینشہ کے عادی افراد تقریبا پچاس سے زیادہ اپنی جان کی بازی ہار چکے اور متعدد گھروں سے جنازے بھی نکلے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے علاقہ کے چند معزز لوگ ان منشیات فروشوں کی سرپرستی کرتے دیکھائی دیتے ہیں اور منشیات فروشوں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں جب ان معززین کے گھروں سے جنازے نکلے تب ان کو ہوش آیا لیکن یہ ہوش بھی چند دن کے لیے آیا،منشیات فروشوں سے سرکل کبیروالا کی پولیس اپنا حصہ وصول کرتی ہے ہر آنے والے ڈی ایس پی سے منشیات فروشوں کی ملاقات کروانے کے لیے چند ٹاؤٹ ہر وقت سرگرم رہتے ہیں نیشنل ایکشن پلان یا آپریشن ضرب عضب میں منشیات فروشوں کے خلاف سخت ایکشن لیا گیا لیکن اب پھر پوری تحصیل کبیروالا میں منشیات فروشی عام ہے اور ہفتہ میں کوئی نہ کوئی جنازہ منشیات کی وجہ سے اٹھتا دیکھائی دیتا ہے پولیس منشیات فروشی کے عادی افراد پر مقدمات درج کرتی ہے مگر مچھوں سے ماہانہ لاکھوں روپے منتھلی وصول کی جاتی ہے منشیات کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثر پالیسی بنائی جانی چاہیے منشیات فروش کو سزائے موت جیسی سزا دینی چاہیے تاکہ کوئی بعد میں ایسا مکروہ دھندہ نہ سکیآخر میں یہی بات کہوں گا کہ جب تک جان میں جان ہے اور جب تک زندہ ہوں ان معاشرے کے مکروہ چہروں،انسانیت کے قاتلوں منشیات فروشوں کے خلاف لکھتا رہوں گا، مجھے منشیات فروشوں کی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی ملیں اور میرے خلاف سازشیں بھی کی گئیں لیکن میرا خدا پر یقین ہے میں کبھی ان کے سامنے نہیں جھکوں گا نہ کبھی میرے قدم ڈگمگائیں گے میں آخری سانس تک منشیات کی وجہ سے تباہ و برباد ہونے والے گھروں کے ورثاء کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہوں اور مزید تباہ و برباد ہونے والے گھروں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کروں اگر کوئی شخص مجھے منشیات فروشوں کے ٹھکانوں بارے اور منشیات فروشوں کے نام بتانا چاہیے تو اس کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا اگر انتظامیہ نے منشیات فروشی کی روک تھام کے کوئی اقدامات نہ کیے تو اب عوام روڈز پر نکل کر احتجاج ریکارڈ کروائے گی بہت نقصان ہوچکا اب مزید لاشیں نہیں اٹھائی جاتیں منشیات ایک لعنت ہے اس کے معاشرے پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں شروع میں منشیات فروش خاص لوگوں کو مفت بھی منشیات دیتے ہیں تاکہ یہ لوگ عادی ہوجائیں اور بعد میں گھر کا تمام سامان وغیرہ تک بیچ کر ہمیں دیں اور منشیات ہم سے خریدیں تحصیل کبیروالا کے نواحی علاقہ عبدالحکیم میں کافی عرصہ پہلے منشیات کا مکروہ دھندہ شروع ہوا اس وقت چند لوگوں نے یہ کام شروع کیا لیکن آہستہ آہستہ اس آگ نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا پھر تو یوں ہوا کہ اس عبدالحکیم سے پورے پنجاب میں منشیات سپلائی ہونے لگی منشیات فروش مختلف روپوں میں منشیات سپلائی کرتے تھے اس سے منشیات فروش ککھ سے لکھ پتی اور،کنگلوں سے بنگلوں،کے مالک بن بیٹھے منشیات جب عام ہوگئی تو ہر گھر میں ایک یا دو افراد نشہ کے عادی ہوگئے اور نشہ کی عادت کو پورا کرنے کے لیے اپنے گھروں کے برتن تک بیچ دیے، منشیات فروشوں نے نشہ کے عادی افراد کی رقم سے کوٹھیاں بنا لیں، جب کبھی انتظامیہ نے ریٹ کرنا ہوتا تو پولیس میں موجود کچھ منتھلی والے ملازمین منشیات فروشوں کو پہلے ہی اطلاع کردیتے یوں پولیس کا ریڈ بھی ناکام ہوتا اور منشیات فروش بھی اپنی متعلقہ جگہوں سے بھاگ جانے میں کامیاب ہوجاتینشہ کے عادی افراد تقریبا پچاس سے زیادہ اپنی جان کی بازی ہار چکے اور متعدد گھروں سے جنازے بھی نکلے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے علاقہ کے چند معزز لوگ ان منشیات فروشوں کی سرپرستی کرتے دیکھائی دیتے ہیں اور منشیات فروشوں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں جب ان معززین کے گھروں سے جنازے نکلے تب ان کو ہوش آیا لیکن یہ ہوش بھی چند دن کے لیے آیا،منشیات فروشوں سے سرکل کبیروالا کی پولیس اپنا حصہ وصول کرتی ہے ہر آنے والے ڈی ایس پی سے منشیات فروشوں کی ملاقات کروانے کے لیے چند ٹاؤٹ ہر وقت سرگرم رہتے ہیں نیشنل ایکشن پلان یا آپریشن ضرب عضب میں منشیات فروشوں کے خلاف سخت ایکشن لیا گیا لیکن اب پھر پوری تحصیل کبیروالا میں منشیات فروشی عام ہے اور ہفتہ میں کوئی نہ کوئی جنازہ منشیات کی وجہ سے اٹھتا دیکھائی دیتا ہے پولیس منشیات فروشی کے عادی افراد پر مقدمات درج کرتی ہے مگر مچھوں سے ماہانہ لاکھوں روپے منتھلی وصول کی جاتی ہے منشیات کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثر پالیسی بنائی جانی چاہیے منشیات فروش کو سزائے موت جیسی سزا دینی چاہیے تاکہ کوئی بعد میں ایسا مکروہ دھندہ نہ سکیآخر میں یہی بات کہوں گا کہ جب تک جان میں جان ہے اور جب تک زندہ ہوں ان معاشرے کے مکروہ چہروں،انسانیت کے قاتلوں منشیات فروشوں کے خلاف لکھتا رہوں گا، مجھے منشیات فروشوں کی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی ملیں اور میرے خلاف سازشیں بھی کی گئیں لیکن میرا خدا پر یقین ہے میں کبھی ان کے سامنے نہیں جھکوں گا نہ کبھی میرے قدم ڈگمگائیں گے میں آخری سانس تک منشیات کی وجہ سے تباہ و برباد ہونے والے گھروں کے ورثاء کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہوں اور مزید تباہ و برباد ہونے والے گھروں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کروں اگر کوئی شخص مجھے منشیات فروشوں کے ٹھکانوں بارے اور منشیات فروشوں کے نام بتانا چاہیے تو اس کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا اگر انتظامیہ نے منشیات فروشی کی روک تھام کے کوئی اقدامات نہ کیے تو اب عوام روڈز پر نکل کر احتجاج ریکارڈ کروائے گی بہت نقصان ہوچکا اب مزید لاشیں نہیں اٹھائی جاتیں-

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 470412 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.