اردو ادب میں گاندھیائی فکریات

دنیا کی سبھی زبانوں کی طرح اردو ادب بھی مہاتما گاندھی جی کی تعلیمات اور ان کے فلسفیانہ خیالات و تصورات سے متاثر ہوا ہے۔گاندھی جی نے اپنی اخلاقی زندگی کے ذریعہ سادگی،صداقت، دوستی،رواداری،بھائی چارہ،اخوت ،عدم تشدد اور امن و آشتی کا پیغام دے کر عوام کے سامنے انسانیت کی جو نظیر پیش کی ہے وہ اپنے آپ میں یکتا اور بے مثال ہے۔موہن داس کرم چند گاندھی صداقت اور روحانیت سے لبریز مذہبی انسان تھے لیکن ان کا مذہبی رجحان صرف سچائی کی تلاش تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ وہ اپنی سیاسی ،سماجی اور اخلاقی زندگی کو صداقت و عدم تشدد کے تناظر میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ گاندھی جی عام انسان کے دکھ درد اور رنج و الم کو کائنات کی سب سے بڑی سچائی تسلیم کرتے تھے اور اس کا جواز تلاش کرنا اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔ وہ تشدد اور ظلم و ستم کے ہمیشہ خلاف تھے۔ یہی وجہ ے کہ گاندھی جی ہندوستان سماج سے تشدداور ظلم و ستم کا خاتمہ کرکے ہندوستانی سماج میں ایک روشن مثال قائم کرنا چاہتے تھے، جسے وہ ’رام راجیہ‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ ان کی نظر میں رام راجیہ کو حاصل کرنے کے لیے ملک میں ستیہ گرہ اور سماجی برابری کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ انھیں خصوصیات نے موہن داس کرم چند گاندھی کو ایک سیاست داں سے زیادہ ایک عظیم الشان روحانیات و عملیات کا راۂ نمابنا دیا اور عوام کی نظر میں وہ ’مہاتما‘ بن گئے اور ساتھ ہی ساتھ وہ ملک کی قومی یکجہتی،ہندو مسلم اتحاد، اخوت، بھائی چارہ،وطن دوستی اور امن و آشتی کے بنیاد گزار بھی بنے۔ وہ دلتوں کے مسیحا اور عدم و تشدد کے پجاری کہلائے۔ ان کے ذریعہ قائم کردہ مہم ہندو مسلم اتحاد کی نظر سے ’ہندوستانی‘ کی تبلیغ ، کھادی کی مہم، سوچچھ بھارت اور نمک ستیا گرہ جیسے اعمال اور تحریکات کا تعلق صرف تحریکِ آزادی تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ پورے ہندوستان سے اور اس ملک کے صدہا انسانوں کے مستقبل سے منسلک ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی تمام زبانوں اور ادب پر ان کی شخصیت اور فن کی جھلک صاف طور پر دکھائی پڑتی ہے۔

اردو ادب بھی گاندھی جی کے عالمانہ اورفلفسیانہ خیالات و تصورات اور نظریات سے متاثر ہوا ہے۔عابد حسین کی کتاب ’’گاندھی اور نہرو کی راہ‘‘ میں گاندھیائی فلسفہ اور نقطۂ نظر کو پیش کیا گیا ہے۔ اردو ناول اور افسانے کا سب سے اہم نام منشی پریم چند جی کا ہے۔ ان کے ناول ’’گوشۂ عافیت‘‘،’’میدانِ عمل‘‘،’’چوگانِ ہستی‘‘،’’پردۂ مجاز‘‘ ،’’گودان‘‘ اور’’ منگل سوتر‘‘ میں گاندھی جی کے فلسفیانہ خیالات و نظریات کی جھلک خاص طور سے دیکھی جا سکتی ہے۔پریم چند نے اپنے تمام ناولوں اور افسانوں کے ذریعہ انسان دوستی کے پیغام کو پھیلانے کی مستحسن کوشش کی ہے، جس میں وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے تمام ناولوں کے ذریعہ گاندھی کے نظریات چھوت چھات، سماجی نا برابری، تشدد ،اونچ نیچ ، مذہب اور رنگ و نسل کی تفریق کو مٹانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ پریم چند کے تمام ناولوں اور افسانوں کے مطالعہ سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے گاندھی جی کے مسلک کو اپنانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ان کے اصولوں عدم تشدد اور صداقت کو واضح طور پر اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔ پریم چند نے کہا ہے:
’’دنیا میں مَیں مہاتما گاندھی کو سب سے بڑا مانتا ہوں۔ ان کا بھی یہی نصب العین ہے
کہ مزدور اور کسان سکھی ہوں اور وہ ان کو آگے بڑھانے کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں
اور مَیں لکھ کر ان کی ہمت بڑھا رہا ہوں۔‘‘

اردو ڈراموں میں رونق دکنی کا ’’رَکت دان‘‘، اظہر افسر کا ’’شمعِ محفل‘‘ اور ابراہیم یوسف کا ’’انگلستان میں ایک رات ‘‘خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں، جن میں گاندھی جی کے فلسفیانہ خیالات اور جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ شعرا حضرات نے بھی گاندھی جی کی یاد کو گیتوں،دوہوں،نظموں اور مراثی کی شکل میں محبت اور عقیدت کے جو پھول چڑھائے ہیں ان کی خوشبو آج بھی ترو تازہ ہے اور آئندہ بھی تازہ رہے گی۔ گاندھی جی کوعقیدت کے پھول چڑھانے والوں میں آنند نرائن ملّا، سلام مچھلی شہری، روش صدیقی، ساگر نظامی، مجاز ؔلکھنوی، تلوک چند مرحومؔ، سیمابؔ اکبرابادی، اعجاز صدیقی، مخمور سعیدی، حرمت الاکرام، ضیا فتح آبادی، پنڈت بال مکند عرش ملسیانی،سراج لکھنوی، مظہر امام،رام پرکاش راہیؔ، حفیظ بنارسی، زیب بریلوی، جمیل مظہری،جوش ملیح آبادی ،جاں نثار اختر،نثار اٹاوی،اعظم حسین ،جینت پرمار اور چندربھان خیال خاص طور سے قابلِ فکر ہیں۔شمیم کرہانی کی نظم ’’جگاؤ نہ باپو کو نیند آ رہی ہے‘‘ گاندھی جی کی شہادت پر لکھی گئی دردو غم میں ڈوبی ہوئی نظم ہے۔اس نظم میں گاندھی جی کی ابتدائی زندگی سے لے کر شہادت تک کے اہم واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔جس میں ان کی جدو جہد، دوستی، امن و آشتی، بھائی چارگی اور شرافت کو نہایت چابکدستی سے ہیش کیا گیا ہے، جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ شمیم کرہانی کی نظم کا ایک بند خاطر نشیں ہوں:
نرم گفتار سے فولاد کے دل موم کیے
کھینچ لی ابر سیہ سے کرن آزادی کی
چھین لی مشعل رنگیں سحر ظلمت سے
خواب کی مانگ میں تعبیر کی افشاں بھر دی

موہن داس کرم چند گاندھی نے اپنی سیاسی زندگی کا سفر 1893 میں جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف شروع کیا تھا۔ 1894 میں انھوں نے نٹال انڈین کانگریس کی بنیاد ڈالی۔ 1896 میں گاندھی جی ہندوستان واپس آئے۔ 1903 میں انھوں نے’’ انڈین اوپینین ‘‘جاری کیا۔ 1905 میں تقسیم بنگال کی مخالفت کی اور بدیسی مال کے بائیکاٹ کرنے کا اہم فیصلہ کیا اور یہ تحریک 1906میں ’’سلف گورنمنٹ‘‘ کے مطالبہ کے ساتھ پروان چڑھی اور پھر انھوں نے 12مئی 1906 میں ’’ہوم رول‘‘ کا بگل پھونکا۔ ’’ہوم رول‘‘ تحریک نے اردو شاعری کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ اس تحریک کو پروان چڑھانے میں اردو شاعری نے ایک اہم رول ادا کیا ہے۔پنڈت برج نرائن چکبستؔ نے گاندھی جی کے ’’ہوم رول‘‘ کی اہمیت اورضرورت کو تسلیم کیا ہے ۔ اس ضمن میں اپنے معنی خیز خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ جوش پاک زمانہ دبا نہیں سکتا
رگوں میں خوں کی حرارت مٹا نہیں سکتا
یہ آگ وہ ہے جو پانی بجھا نہیں سکتا
دلوں میں آ کے یہ ارمان جا نہیں سکتا
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

گاندھی جی نے10جون 1908 کو ’’ستیہ گرہ‘‘ تحریک کی شروعات کی اور انھوں نے ٹرانسوال نہ چھوڑنے کا ارادہ کیا۔ جس کے جرم میں گاندھی جی دو ماہ کے لیے قید کر لیے گئے۔ کچھ ماہ بعد ان کی رہائی ہوئی لیکن وہ دوبارہ 15اکٹوبرکوگرفتار کر لیے گئے۔ ان تمام پیش بندیوں کے باوجود گاندھی جی کی تحریک زور پکڑتی جا رہی تھی۔ گاندھی جی کی اخلاقی، سماجی اور سیاسی تحریک نے پورے ہندوستان میں ایک نئی لہر دوڑا دی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے ہر شخص کے دل میں وطن پرستی کی خوشبو رچ بس گئی تھی۔ گاندھی جی کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے ظفر علی خاں،سلام مچھلی شہری اوراکبر الہ آبادی وغیرہ دیگر شاعروں نے اپنی شعری کاوش کے ذریعہ کامیاب ترین کوشش کی۔ ظفر علی خاں نے آزادی کی تحریک، ہندو مسلم اتحاد ، اخوت، بھائی چارہ ، ہمدردی اور وطن پرستی کے جذبات و خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
گاندھی جی نے آج جنگ کا اعلان کر دیا
باطل سے حق کو دست گریبان کر دیا
ہندوستان میں ایک نئی روح پھونک کر
آزادئی حیات کا سامان کر دیا
دشمن اور دوست میں ہونے لگی تمیز
کتنا بڑا یہ ملک پہ احسان کر دیا
دے کر وطن کو ترک موالات کا سبق
ملّت کی مشکلات کو آسان کر دیا

اکبرؔ الہ آبادی کی شاعری میں گاندھی جی کے فلسفیانہ خیالات و تصورات کی جھلک صاف طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اکبرؔ الہ آبادی نے اپنی زندگی کے آخری وقت میں جو شاعری کی تھی، ان میں سے زیادہ تر شاعری میں گاندھی جی کی تحریک کا اثر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ اکبرؔ الہ آبادی کی وفات کے بعد ان شعری تخلیقات کو یکجا کرکے شائع کیا گیا ہے اور اس کا نام ’’گاندھی نامہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ اکبر الہ آبادی کا خیال تھا کہ اب شاہ نامہ کا دور ختم ہو چکا ہے ، اب گاندھی جی کا زمانہ ہے، گاندھی جی کی وطن پرستی، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ان کی جدو جہد اور ان کے جادوئی شخصیت کو شاعری کے ذریعہ پیش کرنا گاندھی سے سچی خراجِ عقیدت ہوگی۔ اکبرؔ الہ آبادی فرماتے ہیں:
انقلاب آیا نئی دنیا نیا ہنگامہ ہے
شاہنامہ ہو چکا اب دورِ گاندھی نامہ ہے

بدھّو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں
گو مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں

اکبر الہ آبادی نے کم پڑھے لکھے انگریز پرست مسلم بھائیوں کے لیے جس طرح ’’بدھّو میاں‘‘ لفظ کا استعمال کیا ہے، اسی طرح انھوں نے انگریزی تہذیب سے متاثر مسلمانوں کے لیے ’’شیخ‘‘ لفظ کا استعمال کیا ہے۔ جس وقت مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے الگ لیڈر شپ کی بات کرنے لگی تھی اور انگریز ’’بندر بانٹ‘‘ کی پالیسی کو اپناکر ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے، اس وقت اکبر ؔ الہ آبادی نے یہ شعر کہا:
گاندھی تو ہمارا بھولا ہے اور شیخ نے بدلا چولا ہے
دیکھو تو خدا کیا کرتا ہے صاحب نے بھی دفتر کھولا ہے

گاندھی جی نے 28 فروری 1919کو ’’رولٹ ایکٹ‘‘ کے خلاف تمام ہندوستانیوں کو منظم کیا۔ اس ایکٹ کے خلاف اعتدال پسند جماعیتیں بھی شامل ہوئیں۔ اس طرح ہندوستان کے گوشے گوشے میں اس ایکٹ کی مخالفت شروع ہو گئی اور6 اپریل1919 کو آل انڈیا ستیہ گرہ تحریک کاافتتاح گاندھی جی نے کیا۔ہندو ؤں اور مسلمانوں کے درمیان تفریق کی کھائی کو مٹانے اور ہندو مسلم اتحاد کو پیدا کرنے میں ’’خِلافت‘‘ تحریک نے ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ مولانا محمد علی جوہر اور مہاتما گاندھی جی نے اس تحریک کو 1920 میں چلایا، اس تحریک نے پورے ہندوستان کو یکجہتی کے دھاگے میں باندھ کر انگریزی حکومت کے خلاف ایک سیلاب کا روپ دے دیا تھا۔ اس ضمن میں اکبر الہ آبادی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے:
نہ مولانا میں لغزش ہے نہ سازش کی ہے گاندھی نے
چلایا ایک رخ ان کو فقط مغرب کی آندھی نے

سلام مچھلی شہری گاندھیائی فلسفہ سے متاثر نظر آتے ہیں۔ گاندھی جی کی تعلیمات کو انھوں نے نظمیہ پیکر میں ڈھال کرہندوستانی عوام تک پہنچانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ان کے نظمیہ اشعار قابلِ ذکر و فکر ہیں۔ سلام مچھلی شہری کے نظمیہ اشعار خاطر نشان ہوں:
گاندھی کیا تھے
’’بھارت ماں کے‘‘ سپنوں کا کومل پرتیک
ان کی بدولت جاگی، پہنچی منزل تک اپنی تحریک
گاندھی کیا تھے
بھوکی پیاسی دھرتی کے ذی ہوش فقیر
ان کی بدولت بے شک ٹوٹی اپنے پیروں کی زنجیز
گاندھی کیا تھے
خواب ِدلِ جمہور کا دلکش ردِّ عمل
’’مادر ہند‘‘ کے ویراں چہرے پر اک نورانی آنچل

گاندھی جی کی وفات کا اسرارالحق مجازؔ پر گہرا اثر پڑا۔ گاندھی جی کی یاد میں میں انھوں نے ’’تاجِ وطن کا لال درخشاں چلا گیا‘‘ نظم کی تخلیق کی ہے۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
درد و غمِ حیات کا درماں چلا گیا
وہ خضرِ عصر و عیسئی دوراں چلا گیا
ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا
انسان کی جستجو میں اک انساں چلا گیا
اب سنگ و خشت و خاک و خذف سر بلند ہیں
تاجِ وطن کا لال درخشاں چلا گیا

گاندھی جی صداقت اور عدم تشدد کے حقیقی عبادت گزار تھے۔ چھواچھوت کے وہ زبردست مخالف تھے۔ ’’ہریجنوں ‘‘ کی فلاح اور بہبود کے لیے گاندھی جی نے کئی اہم کام کیے۔انھیں خیالات و نظریات اور مقصد کوانجام دینے کے لیے انھوں نے 11 فروری 1932 کو ہفتہ وار اخبار ’’ہریجن‘‘ نکالنا شروع کیا۔ گاندھی جی کے انھیں خیالات و نظریات سے متاثر ہو کر تلوک چند مرحومؔ نے نظم ’’چھوا چھوت‘‘ کی تخلیق کی۔ اس نظم کے چند اشعار خاطر نشیں ہوں:
یہ چھوت چھات کیسی تونے روا رکھی ہے
ناراض تجھ سے تیرا اخلاق زندگی ہے
جو پاک ذات تجھ میں ہے ان میں بھی وہی ہے
ہرگز تجھے نہ یوں تو عزت نصیب ہوگی

گاندھی جی نے قومی یکجہتی، وطن پرستی،ہندو مسلم اتحاد اور انسانیت کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ضیا فتح آبادی نے گاندھی جی کے فلسفہ سے متاثر ہو کر جس نظم کی تخلیق کی ہے وہ اس کا بہترین نمونہ ہے۔ جس میں وطن دوستی اور انسانیت کی حقیقی تصویر کو بیان کیا گیا ہے۔ اس نظم کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
میں ہندو ہوں
تم ہو مسلماں
میں گجراتی
تم مدراسی
یہ باتیں ساری بے معنی
خوش فہمی، کوتہ نظری کی
آؤ بھلا دیں ان باتوں کو
آؤ مٹا دیں
میں اور میرا کا احساس
ابھریں تو مل کر ابھریں ہم
ڈوبیں تو مل کر ڈوبیں ہم

مہاتما گاندھی جی کی شہادت پر اردو شاعری میں پنڈت بال مکند عرش ملسیانی نے بھی خراجِ عقیدت کے پھول چڑھائے ہیں۔ انھوں نے اپنی نظم ’’شہیدِ اعظم‘‘ میں گاندھی جی کی عظمت کو پیش کیا ہے۔ اس نظم کو اردو شاعری میں گاندھی جی کی شہادت پر لکھی گئی سب سے عمدہ تخلیق کہی جا سکتی ہے۔ جس میں شاعر نے فرشتہ صفت انسان گاندھی جی کے قتل کے دردناک اور الم ناک سانحہ پر اپنے دلی جذبات و احساسات کی ترجمانی بڑی ہی تخلیقی بصیرت اور فنی لطافت کے ساتھ کی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے مہاتما گاندھی جی کی شہادت پر غم کے آنسو بہائے ہیں اوربے رحم ہندوستانی سماج پر طنز بھی کیا ہے، جو ہمارے ہندوستانی سماج کا المیہ ہے۔’’شہیدِ اعظم‘‘ نظم کے چند اشعار خاطر نشیں ہوں:
زمینِ ہند تھرّائی مچا کہرام عالم میں
کہا جس دم جواہر لال نے باپو نہیں ہم میں
فلک کانپا ستاروں کی ضیا میں بھی کمی آئی
زمانہ رو اٹھا دنیا کی آنکھوں میں نمی آئی
کمر ٹوٹی وطن والوں کی اہلِ دل کے دل ٹوٹے
ہوئے افسردہ باغِ نیکی و خوبی کے گل بوٹے
ہمیں کیا ہو گیا تھا ہائے یہ کیا ٹھان لی ہم نے
خلوص و آشتی کے دیوتا کی جان لی ہم نے
یہ اچھی قوم ہے جو قوم کے سردار کو مارے
یہ اچھا دھرم ہے جو دھرم کے اوتار کو مارے

انسانیت،وطنیت اور قومیت کے علمبردارمہاتما گاندھی جی نے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے اور قوم کو متحد کرنے کے لیے جو قربانی دی ہے، اس کی عظمت اور اہمیت کی داستان کو پنڈت آنند نرائن ملّا نے اپنے پر مغز عالمانہ خیالات و نظریات کے ساتھ نظمیہ پیرائے میں بڑے ہی فنکارانہ اور چابکدستی کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ ’’مہاتما گاندھی کا قتل‘‘ نظم میں پنڈت آنند نرائن ملّا نے اپنے دلی جذبات و احساسات کی ترجمانی بڑی کامیابی سے کی ہے۔ ’’مہاتما گاندھی کا قتل‘‘ نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
مشرق کا دیا گُل ہوتا ہے مغرب پہ سیاہی چھاتی ہے
ہر دل سنّ سا ہو جاتا ہے ہر سانس کی لو تھرّاتی ہے
آکاش کے تارے بجھتے ہیں دھرتی سے دھواں سا اٹھتا ہے
تہذیب جہاں تھرّاتی ہے تاریخِ بشر شرماتی ہے
موت اپنے کیے پر خود جیسے دل ہی دل میں پچھتاتی ہے
انساں وہ اٹھا جس کا ثانی صدیوں میں بھی دنیا چن نہ سکی
مورت وہ مٹیّ نقّاش سے بھی جو بن کے دوبارہ بن نہ سکی

آنند نرائن ملاّ مہاتما گاندھی جی کے مہم اور اصولوں پر چلنے کی ہندوستانی عوام کو تلقین کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ گاندھی جی کے مہم اور اصولوں پر چل کر ہی ہماری قوم ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکتی ہے۔ اسی لیے آنند نرائن ملاّ نے کہا ہے:
ابھی ابھی تو تم کھڑے ہوئے ہو اپنے پیر پر
ابھی تو راہ سخت ہے ابھی ہے دور کا سفر
نگاہِ پاک بیں و ہمت جواں رہی اگر
تمھیں بنو گے میر کاروانِ ایشیا مگر
ابھی تو گردِ کارواں ہے گماں بڑھے چلو
علم لیے شہیدِ قوم کا نشاں بڑھے چلو

’’بوڑھا مالی‘‘ نظم میں عمر انصاری نے مہاتما گاندھی جی کے عدمِ تشدد،قومی یکجہتی، ہندو مسلم اتحاد، حب الوطنی اور بھائی چارے کے پیغام کو اپنی نظمیہ شاعری کے ذریعہ ہندوستانی عوام تک پہنچانے کی مستحسن کوشش کی ہے۔ اس نظم کو عمر انصاری نے بڑے ہی تخلیقی بصیرت اور فنی لطافت سے پیش کیا ہے۔ ’’بوڑھا مالی‘‘ نظم کے چند اشعار خاطر نشیں ہو:
یہ بیج اسی نے بویا تھا کیا پوچھنا اس کی ہمت کا
آزادی جس کو کہتے ہیں یہ پھل ہے اسی کی محنت کا
یہ باغ نظر آتا ہے ہمیں جو آج نمونہ جنّت کا
یہ باغ ابھی کچھ روز ہوئے تصویر تھا اک پامالی کی
ہر بات ہے اب تک یا دہمیں اس باغ کے بوڑھے مالی کی

ہے بادل اس کی اہنسا کا، برسا ہے جو ساری دنیا پر
اک ہاتھ میں اس کے قران تھا اک ہاتھ تھا اس کا گیتا پر
کچھ رام رحیم کے ناموں میں تھا فرق نہ اس کی مالا پر
سب دن تھے، عید ملن کے دن، سب راتیں تھی دیوالی کی
ہر بات ہے اب تک یا ہمیں اس باغ کے بوڑھے مالی کی

سراج لکھنوی نے گاندھی جی کے عزم، اخوت،صداقت اور انسانیت کی تصویر کشی بڑی کامیابی اور فنکاری کے ساتھ پیش کی ہے ، جس میں گاندھی جی کی شخصیت کی تصویر ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے۔سراج لکھنوی اس ضمن میں اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کائناتِ حسن و صورت تیری سیرت پر نثار
جان و دل ،تیری اخوت اور صداقت پر نثار
آبِ گنگا کا تقدس، پاک وطنیت پر نثار
ہے ہمالہ کی بلندی،تیری عظمت پر نثار
ایک لُنگی، زیبِ جسم اور ایک چپّل پاؤں میں
دھوپ میں بھی یوں ہی دیکھا تجھ کو یوں ہی چھاؤں میں

رام پرکاش راہیؔ نے بھی مہاتما گاندھی جی کی عظمت کا اعتراف کیا ہے، انھوں نے گاندھی جی کی حیات و خدمات کا بیان اپنی نظم ’’کالا دھبّہ‘‘ میں بڑی کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
رام رحیم کا نیک پجاری، ہندو اور مسلماں پورا
گوتم روپ، اہنسا دھاری، مردِ مجاہد،انساں پورا
سچا ساتھی، سچا مرشد، سچا پیروکار تھا وہ
سانچ پہ آنچ نہیں آنے دی، سانچ کا پہرے دار تھا وہ
اہلِ وطن کی ہر الجھن پر اس نے سوچ وچار کیا
منجھدھاروں کو جھیل کے قوم کا بیڑا پار کیا
آزادی کے تٹ پر پہنچا، کاٹ غلامی کی زنجیریں
لیکن من ہی من میں رہ گئیں،’’رام راج‘‘ کی سب تصویریں
من مانی کرنے کی خاطر، ہم نے اس پر ہاتھ اٹھایا
آہ ! کپوت ہوئے ہم کیسے، باپو کو بھی مار گرایا

مظہر امام نے مہاتما گاندھی جی کی شہادت کے تیسرے دن ایک نظم ’’ 30 جنوری 1948‘‘ کے نام سے لکھی تھی۔ اس نظم میں شاعر نے گاندھی جی کو خراجِ عقیدت کے پھول چڑھائے ہیں۔ اس نظم کا اقتباس خاطر نشان ہو:
سوادِ غم میں
مہیب ظلمت کا تحلیل ہو رہا ہے
فضا میں پتجھڑ کے خشک پتّوں کی بو تسلّط جما رہی ہے
کہاں ابھی دولتِ بہاراں؟
کہ دشت پُر خار میں ہی رہبر کو
منزلِ گل کے راستے سے ہٹا دیا ہے !
ابھی کہاں ساحل تمناّ ؟
کہ اہل کشتی نے ناخدا کو
خود اپنے ہاتھوں سے تند طوفان کی لحد میں سلا دیا ہے !

چندر بھان خیالؔ نے اپنے دلی جذبات و احساسات کا اظہار گاندھی جی کی 150ویں یوم ولادت کے موقع پر وہ اپنی نظم ’’ مہاتما گاندھی کی سمادھی پر‘‘نہایت جذبات انگیز انداز سے کرتے ہیں:
اسلام علیکُم !
محترم بابائے قوم و وطن
عرض ہے..........
کان کھول کر سن لیجیے
جاگ اٹھوں گا ایک دن
جوالامکھی کی مانند
سچ مچ جاگ اٹھوں گا
سن کر آپ کے افکار

بھاوناؤں کی افیم
کب تک سلائے رکھے گی
بے وجہ جوشیلا راگ
کب تک بہلائے رکھے گا مجھے ؟
جھوٹھے وعدوں اور مہمل وعدوں کا محل ڈھہ جائے گا
ریت کی دیوار کی مانند
بہہ جائے گا اسنتوش کے سیلاب میں
اس اسکی من مانیوں کا پہاڑ

زخموں کو چھپائے رکھنا
آواز کو دبائے رکھنا
کیا ممکن ہے؟
پھٹ پڑوں گا اچانک میں
حق کے پجاری کو
حق بات گوش گزار کرنا تھا
سو کر دی
اب آپ جانیں
ایک سو پچاسواں جنم دن مبارک ہو

اس بات سے انکار نہیں کیاجا سکتا ہے کہ مہاتما گاندھی جی کے ذریعہ چلائی گئی تحریکں، مہم اور ان کے اصولوں کا اثر ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی پر بہت گہرا پڑا۔ جس نے ہندوستان کی سیاسی ، سماجی اور ادبی زندگی کی سمت و رفتار تیز کرنے اور بڑھانے میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ ان تحریکوں کا اثر اردو زبان کے ادیبوں اور شاعروں پر خاص طور سے پڑا۔ انھوں نے اپنے لوح و قلم کے ذریعہ گاندھی جی کے بیش قیمتی اصولوں، فلسفیانہ خیالات و تصورات کو عوام تک پہنچانے میں اہم کردار عطا کیا ہے۔ آج بھی اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کے منظرنامہ میں گاندھیائی فلسفیانہ خیالات و تصورات ہندوستانیوں کے لیے خصوصی طور پر مشعلِ راہ ہیں۔ گاندھیائی فکر اور نقطۂ نظر پر عمل کر کے ہی ہندوستان صحیح معنوں میں ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے ۔گاندھیائی فلسفہ کل بھی اہمیت و معنویت کا حامل تھا، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔
٭٭٭٭٭

Ajai Malviya
About the Author: Ajai Malviya Read More Articles by Ajai Malviya: 34 Articles with 71978 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.