طاقچوں میں چراغ

کس نے کہہ دیا کہ چراغ طاقچوں میں ہی سجتا یے

ارے ماتم کدے کے دربانو

چراغ کا اصل امتحان ہی ہوا کے دوش پر اپنی تاب کو برقرار رکھنا اور اپنا آپ منوانا ہوتا ہے

کشتی بھنور میں ہی آزمائی جاتی ہے
اور

شہ سوار کی کامرانی کارزاروں سے مربوط

یہ بھی کیا دانائی کہ ہوا کے دوش پر ہوا کا ہم نوا ہو لیا

کہو تو اس قدم بوسی کو منافقت کا نام دے لوں ؟
یار کی عظمت کو تو غار میں پہچانا جاتا ہے
غار میں ساتھ ہو تو عظمتیں اور سعادتیں وحی کی صورت اترتی ہیں
اور غار کے دھانے پر ہو تو تا قیامت متبرک ذکر کے طور پر

اپنے قافلہ نشینوں پر غور کی جیے
نیزہ برداروں پر دھیان دیا جائے

وگرنہ صاحب یہ آندھیاں ابھی رخ بدل دیں تو ریت کے ٹیلوں پر کب تک ماتم ہو سکتا

اور سراب میں بے سامان چلنا کہاں آسان ہے؟
یہ پھولوں کی سیج کے دیوانے

چوری کے عادی مجنوں
نہ نہر کھود سکتے ہیں
نہ
ہجر کی سختیاں سہہ سکتے ہیں

جس کی حاکمیت ابدی ہے اسی کی رضا مقدم رکھو

اسے نائب چاہیے ہے

کوئی اور کیوں تم ہی کیوں نہیں ؟
خطا کس سے نہیں ہوتی

توبہ کی توفیق چھن جائے یہ خسارہ ہے

دلی دعا ہے کہ بنی آدم اس خسارے کا شکار نہ ہو

Abid Hussain Anwar
About the Author: Abid Hussain Anwar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.