وہ روتا رہا لیکن ۔۔۔۔۔۔

بہت سنجیدہ باتیں کیں ۔آپ تک اقتباسی مواد ،تحقیقی باتیں کرتارہا۔میں نے شدت سے محسوس کیا کہ کہانیاں ،کہاوتیں ،قصے انسان کی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں ۔انسان جلدی واقعہ سے سبق سیکھتاہے ۔میں اپنے پیارے قارئین اور ان کے بچوں کے لیے ایک کہانی لایاہوں ۔
کہانی کچھ اس طرح ہے کہ کہتے ہیں کہ کسی شخص کا ایک پالتو کتاتھا۔۔جس کو وہ بہت پیار کرتا تھا ۔۔۔بہت دیکھ بھال کرتا ۔۔۔
وہ کتا بھی اپنے مالک سے بہت پیار کرتا تھا۔۔۔ہوا کچھ اسطر ح کہ ایک دن کتے کی طبیعت اچانک ناساز ہوگئی اور اس کی حالت غیر ہونے لگی۔۔۔۔ ۔۔۔ تڑپنے لگا ۔۔۔ اس کا مالک پاس بیٹھ کر۔۔۔آنسو بہانے لگا۔۔۔۔۔۔ غم کی شدت سے ہچکیاں لینے لگا ۔۔۔۔بس ۔۔ روتا جاتا او رکہتاجاتا کہ ہائے! مجھ پر تو غم کا آسمان ٹوٹ پڑا۔۔۔ ہائے میں تو مارا گیا۔۔۔۔۔ کیا کروں۔۔۔کہاں جائوں۔۔۔۔کون سا حیلہ کروں۔۔۔۔ جس سے میرے کتے کی جان بچ جائے۔۔۔۔
بس اسی طرح اونچی آواز سے روتا جاتا اور کہتا جا تا ۔۔۔۔ اتنے میں ایک فقیر کا وہاں سے گزر ہو ا ۔۔۔۔ اس نے کتے کے مالک کو یوں بے حال دیکھا تو پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی خیر تو ہے؟ اس قدر کیوں رو رہے ہو؟خیریت ؟؟۔۔۔
کتے کے مالک نے بڑی حسرت سے فقیر کی طرف دیکھا ۔۔۔
اور کہا!!!: ہائے! کیا بتاؤں تمہیں۔۔۔۔ کون ہے میری فریاد سننے والا۔۔۔
یہ میراپالتو کتا ہے۔۔۔ جس کو تم یوں۔۔۔بے بسی اور تڑپتے دیکھ رہے ہو۔۔۔۔
اب یہ مرنے والا ہے۔۔۔اس کے بارے میں تمہیں کیاکیابتاوں مت پوچھو۔۔(کتے کی تعریفیں کرتے ہوئے)
یہ ایسا کتا ہے۔۔۔ جس کو تم چراغ لے کر بھی ڈھونڈ نے نکلو گے تو کہیں نہ ملے۔۔۔۔
ایسا چوکنا۔۔۔ کہ رات بھر میرے مکان کی نگرانی؍ چو کیداری کرتا ہے۔۔۔۔
مجال ہے۔۔۔ کوئی پرندہ بھی یہاں پَر مارے۔۔۔۔ کتا کیا اسے شیر کہو شیر۔۔۔۔
یہ بڑی بڑی روشن آنکھیں ۔۔۔ ہیبت ناک اونچا قد ۔۔۔دوڑنے کا تو پو چھو مت ۔۔۔
ہرن کو بھی مات دے دے ہرن کی ہے اس کے سامنے ۔۔۔۔ اور جب شکارکرنے نکلے۔۔۔ تو اپنے ہدف کی طرف ایسے بڑھتا ہے جیسے تیر نشانے کی طرف۔۔۔ ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ۔۔۔۔بڑا ہی صابر۔۔۔ شاکر۔۔۔ اور وفادار بھی۔۔۔
فقیر مالک کی گفتگو سن کر بہت متاثر ہوا ۔۔۔ اور پوچھنے لگا۔۔۔
آخرتمہارے کتے کو کیا تکلیف ہوئی۔۔۔۔۔ کیا اس کو کوئی جان لیوا مرض یا کو ئی زخم اور ہے۔۔۔
مالک نے فقیر کی بات سن کر جواب دیا۔۔۔نہیں۔۔ کوئی بیماری نہیں ہے۔۔۔
کئی دن ہوگئے اسے کھانے کو کچھ نہیں ملا۔۔۔ بس اسی بھوک کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہے ۔یہ مرنے کو آگیاہے ۔۔
‘‘ فقیر نے یہ سن کر جواب دیا ۔۔۔۔۔بھائی اب کیا کر سکتے ہیں ۔۔۔ صبر کرو ۔۔۔۔ صبر۔۔۔
ااس کے سوا اور چارہ ہی کیا ہے ۔۔۔۔خدا کے ہاں تو کسی چیز کی کمی نہیں۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ صبر کا پھل دیتا ہے۔۔۔
‘‘ اتنے میں فقیر کی نظر رونے والے شخص کی پیٹھ پر پڑی جہاں کپڑے میں کوئی چیز بندھی ہوئی لٹک رہی تھی۔۔۔
اس نے پوچھا: ’’میاں! اس کپڑے میں کیا لپٹا ہوا ہے؟ اس نے جواب دیا۔۔۔
یہ کل کے لئے چند روٹیاں اور کھانے پینے کا سامان ہے ۔۔۔۔یہ سُن کر فقیر کو سخت تعجب ؍ حیرت ہوئی ۔
اور کہنے لگا۔۔۔ ارے او!!! ظالم شخص۔۔۔۔ یہ کیا احمقانہ حرکت ہے ۔۔۔
اس تھیلے میں سے اپنے کتے کو کچھ کھانے کو کیوں نہیں دیتے ۔۔۔کہ جس سے اس کی جان بچ جائے ۔۔۔
اس نے(مالک) جواب دیا ۔۔۔۔لو بھئی ۔۔۔ اب اتنی بھی محبت نہیں ہے ۔۔۔ کہ اپنی روٹی بھی اسے کھلادو ں۔۔۔
روٹیاں مفت میں نہیں ملتیں۔۔۔۔ اور ہاں یہ جو آنسواس کے غم میں بہا رہا ہوں نا۔۔۔۔
یہ میرے پاس فالتو اور بے کار ہیں۔۔۔۔ کیونکہ آنسو بہانے پرکو ئی خرچہ نہیں ہوتا۔۔۔۔
بس اسی لئے آنسوں ہی بہارہاہوں ۔۔۔۔۔فقیر نے جب یہ سنا تو غصے میں کہا۔۔۔
تف ہے ایسی عقل اور محبت پر۔۔۔۔۔خاک پڑے تیرے سر پر۔۔۔۔۔بے وقوفی کی بھی حد ہوتی ہے ۔۔۔۔
تیرے نزدیک روٹی کا ایک ٹکڑا آنسو سے زیادہ قیمتی ہے۔۔۔۔ ارے او۔۔۔ نامراد! خون کی قیمت خاک کے برابر کیسے ہوسکتی ہے۔ ارے بدبخت ۔۔۔۔ تو اس قیمتی خون کو خاک سے بھی کم تر سمجھ کر یوںبہائے جارہا ہے ۔۔۔
حالانکہ ان کی قیمت تو پوری کائنات میں کہیں نہیں۔۔۔۔یہ کہتے ہی وہ فقیر چلتا بنا۔۔۔
میرے پیارے قارئین۔کہانی سمجھ تو آہی گئی ہوگی۔۔۔اگر آپ کسی ضرورت مند ،کسی لاچار ،کسی بے بس ،کسی پریشان حال کی مدد ،اس کی معاونت ،اس کے دکھ ،غم دور کرنے اس کی مشکل آسان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو زبانی جمع خرچ پر گزاراخدارمت کریں بلکہ۔۔۔اس کی مدد کر نے کی بھی کو شش کر نی چاہئے۔پوری ایمانداری اور پوری طاقت کے ساتھ اس کی مدد کریں یعنی آپ کے ہمدردی کے بول عمل کی تصویر نظر آئیں !!!!!!!!
نوٹ:ہم آپ کی توجہ چاہتے ہیں ۔دوسروں کی مدد اور تعاون کا ایک علم ہم بھی اُٹھائے ہوئے ہیں ۔مندرہ گوجرخان میں ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ پسماندہ علاقوں کے غریب بچوں کے لیے جدید طرز کا ادارہ قائم کرسکیں ۔ہم چونکہ بجائے فند ریزنگ کے حمیت اور خوداری کے ساتھ کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔ہماری نیت اچھی اور ارادہ اچھاتو اللہ عزوجل ہماری مدد کرے گا۔چنانچہ ہم آن لائن پروڈکٹ سیل کررہے ہیں تاکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ہم اس ادارے لیے صرف کرسکیں ۔آپ پروڈکٹ خرید کرنہ صرف اپنی ضرورت پوری کرسکتے ہیں بلکہ نیکی اور شعور و آگاہی کے اس مشن کا حصہ بھی بن سکتے ہیں ۔
 

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 536230 views i am scholar.serve the humainbeing... View More