ارے سانولی تم؟
حامد کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا
سانولی گاؤں چلی گئی تھی ۔ اس کی شادی طے ہو چکی تھی ۔ نکاح پہلے ہو چکا
تھا ، رخصتی باقی تھی ۔
مبارک ہو
شادی ہو گئی
جی
سانولی نے شرماتے اور مسکراتے ہوے جواب دیا ۔
لیکن جس سے نکاح ہوا تھا ، اس سے نہیں
حامد چونکا !!
تو پھر کس سے ہوئ
سانولی نے کہا
اپنے کزن سے جس سے ہر وقت لڑائ ہوتی رہتی تھی اور اس سے منگنی ٹوٹنے کے بعد
نفرت ہو گئی تھی
حامد کو اندازہ تھا کہ وہ محبت کرتا ہے اور اپنے کئیے پر نادم ہے اور اس کا
ازالہ کرنا چاہتا ہے ۔ شائد کچھ غلط فہمیاں درمیان میں حائل ہو گئی تھیں
اور امی اس کی قائل ہو گئی تھیں کہ اب منگنی توڑ دیں۔ اور ٹوٹ گئی ۔ کئی دل
ٹوٹ جاتے ہیں ، کئی ساتھ چھوٹ جاتے ہیں ۔ رشتوں کے مٹکے بیچ چوراہے پھوٹ
جاتے ہیں ، رشتہ دار روٹھ جاتے ہیں۔
اس کے بعد جلد بازی میں سانولی کا نہ صرف دوسری جگہ رشتہ طے کر دیا گیا
بلکہ خوف میں نکاح بھی کر دیا گیا ۔
خوف اور جزبات میں کئیے فیصلے اکثر غلط ہوتے ہیں ۔
سانولی کے والد کو بہت دیر سے علم ہوا کہ لڑکا نشہ کرتا ہے۔
جب سانولی حامد کے گھر سے اپنے گاؤں پہنچی تو اسے اس خبر سے دھچکہ تو ضرور
پہنچا لیکن اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ
بچ گئیے
بڑی مشکل سے طلاق لی ، رخصتی تو ہوئ نہیں تھی۔
اب سانولی خوش لگ رہی تھی ۔ وہ پرانے منگیتر کے ساتھ شادی کر کے ایک طرف ہو
گئی تھی ۔
حامد بھی اسے خوش دیکھ کر خوش ہو گیا ۔
وہ بھی ایک طرف ہو گیا ۔
|