انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈی(IPS) کے زیر اہتمام،کشمیر
لبریشن سیل کے تعاون سے اسلام آباد کے ایک اعلی ہوٹل میں کشمیر سیمینار
،بعنوان'' کشمیراشو، گلوبل ڈائنا مکس اینڈ پالیسی امپیراٹیوز''منعقد ہوا جس
میں مختلف ملکوں سے بھی سکالرزبھی شریک ہوئے۔وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ
فاروق حیدر خان نے سیمینارسے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کیا جبکہ مقررین
میںسید فخر امام، خالد رحمان، پروفیسر ڈاکٹرراجرزواننبرگ، پروفیسر ڈاکٹر
یشپال امر چند ٹنڈن، جاوید جبار، پروفیسر ڈاکٹراکس کالٹزڈدس، پروفیسر ڈاکٹر
حالل ٹوکر، ایمبسڈر(ر)ضمیر اکرم، سید افتخار گیلانی، ڈاکٹر عاصمہ شاکر
خواجہ، پروفیسر ڈاکٹر نزیر حسین، پروفیسرڈاکٹرفضل الہادی وزین، ڈاکٹرسید
محمد انور،ایئرکموڈور(ر)خالد اقبال، ڈاکٹر سلمی ملک اور فرزانہ یعقوب شامل
تھے۔تقریب میں کشمیر سے متعلق کئی شخصیات سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے
والے افراد کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔
'IPS' کے صدر خالد رحمان نے ابتدائی کلمات میں کشمیر کے حوالے سے ادارے کی
کاوشوں کا ذکر کیا اور کہا کہ کشمیر کے حوالے سے ادارے کی ذمہ داریاں پانچ
حوالوں ، کشمیر گلوبل کمیونٹی کا حصہ ہے جو ایک بڑی آبادی بھی رکتھی ہے ،حق
خود ارادیت سے متعلق عالمی قوانین بنیادی ضرورت کے طور پر ہیں،پاکستانی
حیثیت سے کشمیر تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے اور نمبر پانچ یہ کہ مسلم
کے طور پر۔خالد رحمان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے علاقائی اور عالمی اثرات
ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا سب سے پرانا مسئلہ
ہے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی صورتحال کے دو پہلو ہیں،چار ماہ سے وہاں
کرفیو اور پابندیاں ہیں،انڈیا مسئلہ کشمیر کے حل سے انکار کررہا
ہے،کشمیریوں کی جدوجہد کئی نسلوں سے جاری ہے،مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق
کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا؟ کشمیریوں نے ثابت
کیا ہے کہ وہ بنیادی حقوق سے دستبردار نہیں ہو ں گے۔مودی حکومت کشمیر کے
حوالے سے اپنا آخری حربہ استعمال کررہی ہے۔انڈیا کی طر ف سے کشمیریوں کو
دبانے کی کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔اس صورتحال میں کشمیر کے حوالے سے
عالمی کردار کیا ہے؟ 5اگست کے انڈیا کے اقدام کے بعد عالمی ردعمل کیا ہے؟
کشمیر کے حوالے سے چین کی کوشش سے سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا،اقوام متحدہ
کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا تذکرہ ہوا،چین، ترکی،ملائیشیا سمیت چند ملکوں
کے کشمیریوں کے حق میں بیانات دیئے گئے،امریکی کانگریس کی کمیٹی کی کشمیر
پر دو '' ہیئرنگ'' ہوئیں،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا بیان سامنے
آیا،اقوام متحدہ کی طرف سے حق خود ارادیت کی حمایت میں قرار داد ہوئی،ہیومن
رائٹس کونسل نے کشمیر کے مسئلے پر توجہ دی۔ لیکن یہ سب کافی نہیں ہے۔مسئلے
کا حل ضروری ہے۔خالد حسن نے اس ضرورت پر زور دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو
ختم کرنے،قیدیوں کو رہا کرنے،موصلات وغیرہ پر پابندی ختم کرنے،انڈین فوجیوں
کو واپس بیرکوں میں بھیجنے کے مطالبے سے ساتھ یہ مطالبہ بھی ہے کہ انڈیا
کشمیر میں ڈیمو گرافک تبدیلیوں کی کاروائیاں نہ کرے۔کشمیریوں کو اقوام
متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے۔عالمی تناظر میں
مسئلہ کشمیر اہمیت اختیار کر چکا ہے اور دنیا میں امن اورحقوق انسانی کے
چیمپئن ہونے کے دعویداروں کے لئے مسئلہ کشمیر اور کشمیر کی موجودہ صورتحال
ایک امتحان ہے ۔
سابق سینٹر جاوید جبار نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ 70سال سے لوگوں کو درپیش
ہے۔کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوجیوں کی تعداد والا خطہ ہے۔5اگست سے وہاں
انڈیا کے سات ،آٹھ لاکھ فوجی متعین ہیں،بڑی تعداد میں عصمت دری کے
واقعات،سینکڑوں پیلٹ گنوں سے نابینا ہو چکے ہیں۔کشمیری اپنی شناخت کے لئے
جدوجہد کر رہے ہیں۔آزاد کشمیر کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا نہیں ہے جس
طرح انڈیا مقبوضہ کشمیر میں ظالمانہ کاروائیاں کر رہا ہے۔کشمیر کے حوالے سے
پاکستان کی سوشل ذمہ داری بھی ہے۔5اگست کے بعد وزیر اعظم پاکستان نے اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا،وزیر خارجہ و دیگر نے مختلف ملکوں سے
رابطے کئے اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو قائم رکھا اور مضبوط
بنایا۔ہم تو کہتے ہیں کہ سات سال میں ہو جائے لیکن لگتا ہے کہ کشمیر کا
مسئلہ آئندہ بھی ستر سال جاری رہ سکتا ہے۔ پاکستان کشمیر کاز کا کسٹوڈین
ہے۔ہماری حکمت عملی میں اندرونی یکجہتی بھی ہونی چاہئے۔جاوید جبار نے کہا
کہ ملک میں آزادی کے نام سے حکومت ہٹانے کی کوشش کی گئی ،آزادی تو مقبوضہ
کشمیر کا نعرہ ہے۔جماعتی سیاست ملک میں سیاست کے لئے زہر ہے۔انہوں نے کہا
کہ دنیا میں '' مائٹ از رائٹ'' کا رواج ہے۔ جس طرح اسرائیل کے کم آبادی
والے ملک نے اپنے سے بہت بڑی آبادی والے عرب ملکوں کے خلاف ہر شعبے میں
نمایاں برتری اور ترقی قائم کی ہوئی ہے، پاکستان کو بھی اپنے خطے میں اسی
طریقہ کار کو اپنانے پر توجہ دینا چاہئے۔پاکستان کو اسی ماڈل کی پیروی کرنا
چاہئے۔انڈیا کو جنگ کے بغیر چیلنج کرنا چاہئے۔انڈیا سے تعلقات ختم نہیںکرنے
چاہئیں،ہم یہ '' افورڈ'' نہیں کر سکتے۔انڈیا کے ساتھ تعلقات اچھے طریقے سے
ہونے چاہئیں۔کشمیر پر کمپرومائیز نہیں کرنا چاہئے،تاہم لچکداری کا مظاہرہ
کرنا چاہئے جو کمپرو مائیز کرنا نہیں ہے۔چار نکاتی فارمولے سے یہ بھی معلوم
ہوتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر آگے بڑہنے پر اتفاق ہے۔ہمیں انڈیا کے لوگوں
تک رسائی کرنا چاہئے۔گزشتہ سال کے الیکشن میں انڈیا کے 64فیصد ووٹروں نے بی
جے پی کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ یعنی64فیصد نے ہندوانتہا پسندی کو مسترد
کیاہے۔انہوں نے کہا کہ انڈیا ''نیوٹرل سارک'' کے لئے کوشش کر رہا ہے۔بنگلہ
دیش کے ساتھ تعلقات میں بدقسمتی سے شکوک و شبہات ہیں۔ہمیں دیگر ملکوں کے
علاوہ سری لنکا،نیپال ،سارک ممالک سے بھی کشمیر کے حوالے سے بات کرنا چاہئے
کہ وہ بھی علاقے کے ملک ہیں۔
جاوید جبار نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں8ملین لوگ چار مہینے سے قید میں
ہیں۔اس حوالے سے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔نان میڈیا اور میڈیا حکمت عملی
اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔عالمی میڈیا میں کشمیر سے متعلق اشتہارات کے لئے
بڑی رقم مختص کی جانی چاہئے،نیویارک ٹائمز میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے
بارے میں تصویری اشتہار دیں،سی این این سے تیس سیکنڈ،بی بی سی سے بیس سیکنڈ
کے کشمیر پر اشہار چلوائیں، 'مائینڈ سیٹ ' کو 'کنورٹ ' کریں۔دنیا میں ہمارا
بہت منفی ،برا تاثر ہے اور انڈیا کا عالمی تاثر اچھا ہے۔دہشت گردی وغیرہ کی
طرح کا عالمی سطح پہ ہمارا تاثر ہے۔1.5بلین آبادی والا ملک انڈیا نظر انداز
نہیں ہو سکتا۔اب انڈیا اپنی علاقائی وسعت کی کوشش کر رہا ہے۔کیا انڈیا
کشمیر کو نگل سکتا ہے؟ اقوام متحدہ میں پانچ ملک ویٹو پاور ہیں جو188ملکوں
کی رائے پر حاوی ہو سکتے ہیں۔چین ،روس ایک طرف جبکہ فرانس ،برطانیہ اور
امریکہ کی حکومتیںجمہوریت پر یقین رکھتی ہیںلیکن اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل میں یہ تینوں ملک جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔
سیمینار کے مہمان خصوصی وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے
انگریزی میں تقریر کے بعد اردو میں کھل کر باتیں کیں ۔ان کی تقریر کے دوران
کئی بار حال شرکاء کی تالیوں سے گونج اٹھا۔وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ محمد
فاروق حیدر خان نے کشمیر کاز اور آزاد کشمیر کے لئے پاکستان کی خدمات کا
شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کئی دہائیوں سے متنازعہ
خطہ ہے،اس بارے میں نہ تو عالمی موقف تبدیل ہو ا ہے اور نہ ہی کشمیر کے
لوگوں نے موجودہ سٹیٹس کو اپنی قسمت تسلیم کیا ہے۔مودی کی انہتا پسند حکومت
5اگست کا اقدام کرتے ہوئے عالمی قوانین کی روسے بھی اقوام متحدہ کے سامنے
بے نقاب ہو ئی ہے۔چار مہینے سے انڈیا کی فوج نے کشمیریوں کا محاصرہ کیا ہوا
ہے،کرفیو مسلسل جاری ہے،انسانی حقوق اور تمام عالمی و علاقائی سمجھوتوں کی
کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے،سیاسی رہنمائوں سمیت ہزاروں نوجوانوں کو
گرفتار کیا گیا ہے۔نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی ستمبر2019کی فیکٹ
فائنڈنگ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرفتار نوجوانوں میں بڑی تعداد14سال کے
لڑکوں کی ہے، 5اگست کے بعد13ہزارو نوجوانوں کو گرفتار کر کے قید میں رکھا
گیا ہے۔ایک دوسری رپورٹ کے مطابق انڈیا کی فوج کشمیری خواتین،لڑکیوں کی
عصمت دری،ہلاک کرنے اور گھروں کو تباہ و برباد کرنے کی کاروائیاں ایک
پالیسی کے طور پر اپنائے ہوئے ہے۔ کشمیریوں کو کبھی شکست نہیں دی جا
سکتی۔کشمیری ختم ہو جائیں گے لیکن مزاحمت ختم نہیں کریں گے۔کشمیری مٹ جائیں
گے لیکن انڈیا کو کشمیر سے نکالنے کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔کشمیریوں پر
انڈیا کے اس طرح کے مظالم1947سے جاری ہیں۔
انڈیا کی فوج کومقبوضہ کشمیر میں اپنی ظالمانہ کاروائیوں کے لئے انڈیا کے
قانونی، سرکاری، سیاسی اور اخلاقی تحفظ حاصل ہے۔انڈین فوج مقبوضہ کشمیر میں
وحشیانہ تشدد،ہلاکتوں،جبری گمشدگی،ریپ،پیلٹ گنز،ہیومن شیلڈ کی طرح کے
بدترین مظالم پالیسی کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ستمبر تک مقبوضہ کشمیر
میں 1.4 بلین امریکی ڈالر کا اقتصادی نقصان ہو چکا ہے۔الجزیرہ ٹی وی نے
دکھایا کہ انڈیا کا ایک ٹیچر سکول کے بچوں کو پڑھا رہا ہے کہ اکھنڈ بھارت
میں پاکستان،بنگلہ دیش،نیپال،سری لنکا، بھوٹان اور افغانستان بھی شامل
ہیں۔انڈیا 5اگست کے اقدام سے مقبوضہ کشمیر کی ڈیمو گرافک حیثیت تبدیل کرنے
کی کوشش کر رہا ہے جو کہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے
بھی منافی ہے۔کشمیریوں کو آرٹیکل370کی نہیں بلکہ35-Aکی فکر ہے۔مودی کشمیر
کے حوالے سے جو کر رہا ہے اور جو کرنا چاہتا ہے ،اس کے پیش نظر دس سال بعد
آج والا کشمیر نہیں ہوگا،یہ بات پاکستان کو ذہن میں رکھنی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی قوانین،جنیوا کنونشن کے تحت بھی انڈیا کشمیر میں
'وار کرائمز' کا مرتکب ہو رہا ہے۔اس پر عالمی مجرمانہ خاموشی ہے۔ان کو
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سخت نوٹس لینا چاہئے،انڈیاپر دبائو میں
اضافہ کرنا چاہئے۔اگر عالمی برادری کشمیر کا مسئلہ،پرامن،منصفانہ،کشمیری
لوگوں کی خواہشات کے مطابق رائے شماری سے حل نہیں کراتی تو کشمیری بندوق
اٹھانے پر مجبور ہوں گے جس انڈیا کے لئے بھی تباہ کن ہو گا۔عالمی برادری،
اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر آج بھی ایک حقیقت ہے اور وہ اس مسئلے سے
آنکھیں نہیں چرا سکتے۔خطے میں اس مسئلے کی وجہ سے جنگ کے گہرے بادل چھائے
ہوئے ہیں۔انڈین فوج لائین آف کنٹرول سے فائرنگ کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے
شہریوں کو ہلاک کر رہی ہے۔لائین آف کنٹرول سے ملحقہ آزاد کشمیر کے علاقوں
میں میں معاشی سرگرمیاں معطل ہیں۔انڈیا کی فوج خاص طور پر شہریوں کو نشانہ
بناتی ہے اور گھروں ، شہری عمارات کو نشانہ بناتے ہوئے تباہ کر رہی
ہے۔انڈین فوج گولہ باری میں کلسٹر بموں کا استعمال بھی کر رہی ہے اور یہ
روز کا معمول بن چکا ہے۔
وزیر اعظم راجہ فاروق حید رخان نے کہا کہ کشمیری آزادی کے لئے جدوجہد کر
رہے ہیں کشمیریوں کو عالمی کمیونٹی کے خاندان کا یتیم بچہ نہ تصور کیا
جائے،کشمیریوں کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے،ان کو سیلف ڈیفنس کا حق حاصل
ہے،ان کو آزادی کا حق حاصل ہے،ان کو زندگی کا حق حاصل ہے۔
وزیر اعظم راجہ فاروق حید رخان نے اس کے بعد اردو میں خطاب میں پاکستان کو
مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک آپ کشمیریوں کو اپنا کیس انٹرنیشنل فورم پہ
پیش کرنے کا موقع نہیں دیں گے،آپ کو کچھ نہیں ملے گا، کچھ حاصل نہ کر سکیں
گے۔کشمیریوں پر اعتماد کریں،ان پر یقین کریں انہیں آگے رکھیں۔ آزاد کشمیر
حکومت کے کردار کا تعین نہیں کریں گے تو کچھ نہیں ملے گا۔یہ پاکستان اور
ہندوستان کے درمیان علاقے کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے
حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ کو دنیا کی حقیقتوں کو ماننا
پڑے گا،انڈیا کی اکانامی،اس کا سائیز اور وہ امریکہ کا نظریاتی حلیف
ہے،ہمارا نہیں ہے امریکہ۔یورپی یونین،امریکہ اور دوسرے ملکوں کے دالحکومتوں
میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کشمیری کبھی انڈیا کے سامنے اپنی گردن نہیں جھکائیں گے۔انڈیا کشمیریوں کو
ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔آپ (پاکستان ) بچ نہیں سکتے،اس
کا ہدف پاکستان ہے۔مودی کو آر ایس ایس والے چلا رہے ہیں،وہ انڈیا کے
جغرافیئے میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان والے خود کو کمتر کیوں سمجھتے
ہیں؟ میری لئے نہ سہی اپنے لئے تو کھڑے ہوں!اپنی آزادی کا تو تحفظ کریں۔آپ
جغرافیئے کی بنیاد پر جبکہ میں نظریاتی پاکستانی ہوں،کیوں آپس میں لڑتے
ہیں، پارلیمنٹ میں کشمیر پر کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی،ملک کے پالیسی سازوں
کو بتانا چاہئے کہ تم ہی عقل کل نہیں،یہاں اور بھی لوگ ہیں۔کشمیری اپنی جگہ
قائم ہیں جان و مال کی قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں اور وہ کیا کریں؟میں
دکھی ہو جاتا ہوں،پاکستان ہماری امیدوں کا مرکز ہے،سب چیزیں موجود ہیں بس
اس کو راستہ دکھانے والا کوئی نہیں ہے،خطے میں انڈیا کی بالادستی روکنے کے
لئے۔قائد اعظم نے کہا تھا کہ تم نے گورا سامراج دیکھا ہے،کالا سامراج نہیں
دیکھا۔
|