بچے کے ’اسکول کا پہلا دن‘

بہادر بن کر پہلے دن کا سامنا کریں

بچے کے ’اسکول کا پہلا دن‘

چاہے آپ کا ڈیڑھ، دو یا ڈھائی سال کا بچہ پہلے ہی اسکول جانا شروع ہوچکا ہے یا پھر جانا شروع کرنے والا ہے، دونوں صورتوں میں یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بیشتر والدین خصوصاً مائیں انزائٹی کا بہت زیادہ شکار ہوجاتی ہیں۔

اگر آپ بھی ایک ایسی ماں ہیں، جو اپنے بچے کے اسکول شروع ہونے پر دباؤ محسوس کررہی ہیں تو آپ تنہا نہیں ہیں۔ درحقیقت، آپ ان دنوں جو جذبات محسوس کررہی ہیں، وہ آجکل کی ماؤں میں بہت عام ہیں، خصوصاً اس صورت میں اگر آپ کا بچہ بہت چھوٹا ہے اور پہلی بار اسکول جارہا ہے یا آپ اسے بھیجنے کی تیاری کررہی ہیں۔

برطانیہ کی ’کِڈی اکیڈمی‘ کی جانب سے کیے جانے والے سروے کے مطابق، جب ایک خاندان کے تمام افراد سے انٹرویو کیا گیا تو 63فیصد کا خیال تھا کہ بچے کے اسکول جانے کے پہلے دن کے حوالے سے سب سے زیادہ ماں کو ہی دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں 27فیصد کا خیال تھا کہ دراصل سب سے زیادہ دباؤ کا سامنا بذات خود پہلی بار اسکول جانے والے بچے کو ہوتا ہے۔

اس سروے سے متعلق برطانیہ میں کام کرنے والے ادارے ’بلیو پرنٹ مینٹل ہیلتھ‘ کی فیملی تھراپسٹ مشیل لیوین کہتی ہیں، ’اس سروے میں کوئی حیران کن بات سامنے نہیں آئی۔ جب بچے پہلی بار اسکول جانا شروع کرتے ہیں تو تبدیلی کے اس عمل سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے سب سے زیادہ والدین کو ہی مشکل پیش آتی ہے‘۔

لیوین کے مطابق، ہرچندکہ والدین خصوصاً ماؤں کا دباؤ محسوس کرنا عمومی بات ہے لیکن کئی والدین کو اس تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے زیادہ سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ والدین بالخصوص مائیں اس نئی صورتِ حال میں اپنے دباؤ پر کس طرح بہتر طور پر قابو پاسکتی ہیں، آئیے جانتے ہیں۔

کولاچی کراچی معیشت نصف سے زیادہ ماحولیات بیوٹی اینڈ اسکن کیئر گھر پیارا گھر فیشن اینڈ شوبز کھانا خزانہ خواتین کا جنگ تعمیرات تعلیم زراعت کامرس فنانشل ٹائمز جنگ فیشن میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی جنگ فورم اسپیشل ایڈیشن جرم و سزا نوجوان بچوں کا جنگ تجزیے اور تبصرے صحت ٹیلی گراف آرائش خانہ وادی مہران قرطاسِ ادب عالمی منظر نامہ سنڈے میگزین مڈ ویک میگزین بلادی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فن و فنکار اقراء اسپورٹس بچے کے ’اسکول کا پہلا دن‘ چاہے آپ کا ڈیڑھ، دو یا ڈھائی سال کا بچہ پہلے ہی اسکول جانا شروع ہوچکا ہے یا پھر جانا شروع کرنے والا ہے، دونوں صورتوں میں یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بیشتر والدین خصوصاً مائیں انزائٹی کا بہت زیادہ شکار ہوجاتی ہیں۔

اگر آپ بھی ایک ایسی ماں ہیں، جو اپنے بچے کے اسکول شروع ہونے پر دباؤ محسوس کررہی ہیں تو آپ تنہا نہیں ہیں۔ درحقیقت، آپ ان دنوں جو جذبات محسوس کررہی ہیں، وہ آجکل کی ماؤں میں بہت عام ہیں، خصوصاً اس صورت میں اگر آپ کا بچہ بہت چھوٹا ہے اور پہلی بار اسکول جارہا ہے یا آپ اسے بھیجنے کی تیاری کررہی ہیں۔

برطانیہ کی ’کِڈی اکیڈمی‘ کی جانب سے کیے جانے والے سروے کے مطابق، جب ایک خاندان کے تمام افراد سے انٹرویو کیا گیا تو 63فیصد کا خیال تھا کہ بچے کے اسکول جانے کے پہلے دن کے حوالے سے سب سے زیادہ ماں کو ہی دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں 27فیصد کا خیال تھا کہ دراصل سب سے زیادہ دباؤ کا سامنا بذات خود پہلی بار اسکول جانے والے بچے کو ہوتا ہے۔

اس سروے سے متعلق برطانیہ میں کام کرنے والے ادارے ’بلیو پرنٹ مینٹل ہیلتھ‘ کی فیملی تھراپسٹ مشیل لیوین کہتی ہیں، ’اس سروے میں کوئی حیران کن بات سامنے نہیں آئی۔ جب بچے پہلی بار اسکول جانا شروع کرتے ہیں تو تبدیلی کے اس عمل سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے سب سے زیادہ والدین کو ہی مشکل پیش آتی ہے‘۔

لیوین کے مطابق، ہرچندکہ والدین خصوصاً ماؤں کا دباؤ محسوس کرنا عمومی بات ہے لیکن کئی والدین کو اس تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے زیادہ سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ والدین بالخصوص مائیں اس نئی صورتِ حال میں اپنے دباؤ پر کس طرح بہتر طور پر قابو پاسکتی ہیں، آئیے جانتے ہیں۔

تجربہ بہت کچھ سکھاتا ہے

ڈاکٹر سارا بوڈ، امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کی ترجمان اور پرائمری کیئر پیڈیاٹریشن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مائیں جو اپنے بچے کے اسکول جانے کے ابتدائی چند یا کئی دن تک انزائٹی محسوس کرتی ہیں، انھیں اس کی بنیادی وجہ معلوم کرنے اور اس کا ازالہ کرنے کے طریقوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ’وہ بچے کے اسکول جانے سے قبل ہی ٹیچر یا ایڈمنسٹریٹر سے اپنے تحفظات کا اظہار کرسکتی ہیں، ا س طرح وہ ذہنی طور پر بہتر محسوس کریں گی۔ بچے کے اسکول کا آغاز کرنا ایسا ہے جیسے آ پ کسی خاص موقع کے لیے پیشگی تیاری کرتی ہیں، ایسے میں پیشگی تجربہ حاصل کرنے سے ان ماؤں کی طبیعت میں بہتری آجائے گی‘۔

مزید برآں، ماؤں کو بچے کے اسکول شروع کرنے سے کئی روز قبل نئے معمولات اپنانے پر کام کرنا چاہیے۔ نئے معمولات میں بچے کو صبح جلدی جگانے، ان کے پہننے کے کپڑوں کی تیاری اور مخصوص وقت پر ناشتہ وغیرہ شامل ہوسکتا ہے۔

بیشتر والدین کے لیے بچے کے اسکول شروع کرنے کے حوالے سے ایک بڑی پریشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کا بچہ اسکول کے نئے ماحول میں کیسا محسوس کرے گا اور کیا وہ اس میں ذہنی مطابقت پیدا کرپائیں گے یا نہیں؟ اس سلسلے میں لیوین کہتی ہیں، ’والدین کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے بچے کے تجربات پر قابو نہیں رکھ سکتے، تاہم وہ اس پر کام ضرور کرسکتے ہیں کہ وہ کس طرح ردِ عمل دیں گے‘۔ ایسے میں والدین کو تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کے لیے اور خصوصاً اپنے بچے کے لیے حالات کو معمول پر رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بچوں کی مدد کریں

بچے کے اسکول شروع ہونے پر صرف والدین ہی اضافی دباؤ محسوس نہیں کرتے۔ یہ دباؤ بچے بھی محسوس کرسکتے ہیں، جس کے لیے والدین کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر سارا بوڈ کہتی ہیں، ’اگر آپ بچوں کے ساتھ ایک یا ایک سے زائد مرتبہ پیشگی اسکول کا دورہ کرنے چلی جائیں اور بچوں کو تحمل سے یہ بتائیں کہ انھیں اسکول میں کس طرح کے ماحول کا سامنا ہوگا تو یہ باتیں بچوں کے لیے بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہیں‘۔

اس کی وجہ وہ یہ بتاتی ہیں کہ بچے روزمرہ معمولات کے عادی ہوتے ہیں اور انھیں ’توقعات لگانا‘ بہت پسند ہوتا ہے۔ مزید برآں، والدین کو اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کے ساتھ بھی بچوں کے ذہنی دباؤ کے مسائل پر بات کرنی چاہیے، جو انھیں اپنے تجربے اور وسائل سے بہتر معاونت فراہم کرسکیں گے۔

بہادر بن کر پہلے دن کا سامنا کریں

اسکول کے پہلے دن چھوٹے بچوں کا اپنے والدین سے چمٹنا، رونا اور نئی صورتِ حال میں مشکل محسوس کرنا حیران کن بات نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں، وہ والدین جو پہلے ہی انزائٹی محسوس کررہے ہیں، اپنے بچے کے ساتھ اسکول میں وقت کو بڑھا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر سارا بوڈ کہتی ہیں، ’تاہم، ہم والدین کو یہی بتاتے ہیں کہ بچے کو اسکول میں اکیلا چھوڑ آنے کے لمحے کو تاخیر میں ڈالنا زیادہ فائدے مند ثابت نہیں ہوتا، بلکہ اس سے صورتِ حال مزید خراب ہوجاتی ہے۔

اگر آپ کا بچہ انزائٹی ڈس آرڈر کا شکار نہیں ہے یا کوئی ایسا پسِ منظر نہیں رکھتا، جو اس کے لیے صورتِ حال کو زیادہ مشکل بنادے تو بہتر یہی ہے کہ بچے کو اس کے نئے شیڈول کے مطابق چھوڑ دیا جائے۔ ٹیچرز اس معاملے میں ماہر ہوتی ہیں اور وہ آپ کو یہی بتائیں گی کہ آپ کے جانے کے 10منٹ بعد ہی بچہ نارمل ہوگیا تھا۔ ایسے میں بچے کو چھوڑتے وقت والدین کو اپنے ضبط پر قابو رکھنا چاہیے اور بچے کو ہنسی خوشی اور دلاسے کے الفاظ ادا کرتے ہوئے خدا حافظ کہنا چاہیے‘۔
 

M Usman
About the Author: M Usman Read More Articles by M Usman: 18 Articles with 46851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.