روزِ اول سے ہماری بدقسمتی رہی ،تعلیم کبھی بھی ہماری
قومی ترجیحات میں نہیں رہی۔ بلکہ ماضی میں اس بے قدراور بے وقعت وزارت
تعلیم کا قلمدان کبھی بھی کسی کا پسندیدہ نہیں رہا۔ ہمارے علمی ادارے ،
یونیورسٹیز،علمی اور تحقیقی میدانوں میں کوئی بھی نماں کارنامہ انجام دینے
سے محروم ہوچُکی ہیں۔ پاکستان آج بھی،جہاں سکول جانے کی عمر کے بچے تعلیم
سے محروم ہیں دُنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ تعلیم وتدریس کی یہ حالت من حیث
القوم ہم سب کے لئے شرم اور غیرت کا باعث ہے۔
تعلیم ایک ایسی بنیا د ہے ۔ جو کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی اور سلامتی کی
ضامن ہے ۔ چین کے ماؤ نے تعلیم کو پہلی ترجیح دی اور گزشتہ دو دہائیوں میں
چین نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں جو ترقی کی ہے دُنیا میں اس کی مثال نہیں
ملتی۔چین کی ترقی کا راز تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم ہے اور یہی
وجہ ہے کہ آج امریکہ جیسی پاور بھی چین کی قدرکرنے اورہرمعاملے میں چین کو
اہمیت دینے پر مجبور ہے،اپنی مصنوعات کی بنیادپرچین کوعالمی تجارت میں
نمایاں مقام حاصل ہے اورپوری دُنیا چین کی اُبھرتی ہو ئی طاقت کی معترف
ہے۔چین کے لوگوں کوزندگی بسرکرنے کے بہترین مواقع مل رہے ہیں۔1981میں10میں
سے9چینی غربت اورشدیدافلاس کا شکار تھے ،آج حالات اس قدربدل چکے ہیں کہ
10میں سے صرف ایک چینی کوغربت کاسامنا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ جس ریاست اور
معاشرے نے علم کی ترویج کو اپنا مقصد بنایا۔اُس نے ہمیشہ ہرمیدان میں
کامیابی حاصل کی ہے۔ علم نے ہمیشہ معاشرے اور قوم کو نئی قوت و توانائی
بخشی ہے۔
دوسری بات اسلام اس دُنیاوی زندگی کو دارالاعمل قراردیتا ہے۔صرف مدرسہ کالج
اور یونیورسٹی آنے جانے سے علم حاصل نہیں ہوتا یا صرف تعلیمی ڈگریوں اور
اعلیٰ تعلیمی اداروں سے سندیں حاصل کرکے لوگ ملکی حالت بہتر نہیں بنا سکتے۔
اس کے لئے ذوق اورلگن کی ضرورت ہوتی ہے۔ علم اور عمل میں اگر فرق ہو تو یہ
ایک طرح کی منافقت ہے۔ علم سکھاتا ہے اﷲ سے ڈرو۔ علم مزاج میں انکساری اور
بُردباری پیدا کرتا ہے۔امریکہ کے سابق صدر کیلوِن کُولج نے کہا تھا۔ ـ"ذہین
و عقل مند ہونا زندگی میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ
جوعلم آپ حاصل کریں ا س کا عملی استعمال کریں"
علم دھوکے اور ریاکاری سے روکتا ہے۔ حضرت عکرمہؓ فرماتے ہیں کہ__نیت ہمیشہ
نیک رکھو ! دکھاوا یا ریا کاری نیت میں داخل نہیں ہوتی۔ جس کی نیت نیک ہوگی
اُس کا عمل بھی ویسا ہوگا۔ علم وہ جوہر ہے جو نیت کو نیک اورعمل کو بہتر
بناتا ہے۔
جوصاحب ِ علم ہوتا ہے اس کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہے۔پیغمبروں کی ذمہ
داریاں اس لئے زیادہ ہوتی تھیں ۔ کہ انھیں علم دیا گیا تھا۔ کوئی پیغمبر
ایسا نہیں جس نے اپنے علم پرعمل کر کے نہ دکھلایا ہو۔ اس لئے علم حاصل کرو
تواُس پر عمل کرو۔ اگر علم حاصل کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو ایسے علم کا
کیا فائدہ؟انسان کا اصلی زیور مال و دولت کی بجائے علم ،عمل اور اعلیٰ
کردار ہے۔ قانون ضابطے اور اصول عمل کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے
کہ ہم یا تو اصول ضابطے ہی ایسے بنائیں گے جو ہمارے اغراض ومقاصدپورے کریں
یا پھربنے بنائے ضابطوں میں ردوبدل کی کوشش کریں گے۔ تاکہ اپنا مطلب نکال
لیں۔ اسی منفی سوچ اورخود غرضی کے سبب بُری اور گھٹیا تعلیم دے کر ایک
پُوری نسل کو تباہ کردیا ہے۔
انسان کی منفی سوچ اجتماعیت ، اتفاق واتحاد ختم کرکے نفاق نفرت اور شدت
پسندی کی طرف لے جاتی ہے اور بالآخر معاشرے کی تباہی کاسبب بنتی ہے۔یہی سوچ
خواص میں پیدا ہوجائے تو پھرتباہی بربادی کا دائرہ کار بھی اسی اعتبار سے
وسیع اورزیادہ نقصان دہ ہوجاتاہے، جو معاشرے سے بڑھتا ہوا ملکوں اورقوموں
کی تقدیرکے بگاڑاورتباہی تک جاپہنچتاہے۔
جب قوم اور معاشرہ بے ضابطگیوں پراُترآئے ۔ ترقی کا معیاردولت و ثروت بن
جائے ۔علم وعمل زندگیوں سے نکل جائے تو ذلت اور رسوائی اُس قوم اور معاشرہ
کا مقدر بن جاتی ہے۔پروفیسر ٹائن بی نے کہا تھا۔" قوموں کی تباہی اور زوال
میں سب سے پہلے ان کے ادارے تباہ ہوتے ہیں۔انتظامی اور علمی ادارے ختم ہونے
سے اس معاشرے کی روح نکل جاتی ہے۔ پھرجسد ِخاکی کو بھربھرا ہوکر ڈھیرہوتے
دیرنہیں لگتی۔
|