عبدالرحمٰن پریشان حال بینچ پہ بیٹھا دونوں ہاتھو ں سے
بالوں کو جکڑے ہوئے نیچے زمین پہ پڑی مٹی کو گھور رہا تھا،غصہ دکھ سبھی
کیفیت نے مل جل کے اسکا عجیب حال کر دیا تھا،اچانک وہ غصے کی تپش سے جل
بیٹھا، اندر مستقل ایک ہلچل مچی ہوئی تھی۔ وہ اب اندر کی گھٹن سے تنگ آچکا
تھا۔ایک دم کھڑا ہوا اور اپنا ہاتھ پوری قوت سے بینچ پہ دے مارا۔تھوڑی سی
دیر میں اسکے ہاتھ میں درر کی ٹھسیں اٹھنے لگیں ۔ایک جگہ سے ہاتھ اسقدر
چھیل گیا کہ خون بہنے لگا اور وہ کلملا کے رہ گیا۔ اسنے اپنا ہاتھ دیکھنے
کے بعد بینچ کو دیکھا ۔وہ ویسی ہی تھی اسے ذرا بھی فرق نہ پڑا تھا۔اسکے
اندر سے ہنسنے کی آواز آئی،سرگوشی سی سنائی دی ،جیسے کوئی کہہ رہا ہو"
عبدالرحمٰن! تو تو بڑا بزدل نکلا ،ذرا سی چوٹ سے یوں گھبرا گیا، وہ جو تو
خودکشی کرنے کے بڑے بڑے دعوے کرکے نکلاتھا اسکا کیا بنا؟؟"
وہ اس سرگوشی کی تاب نہ لاسکا اور زور سے چیخا۔پاس سے گزرتے لوگ ذرا لمحے
کو ٹھہرے اس پہ ایک اچٹتی نگاہ ڈالی اور کمر تھپتھپاتے گزر گئے جیسے کہہ
رہا ہوں "جاری رکھو،ہم تمھیں ڈسٹرب نہیں کرینگے"!
وہ ٹکٹکی باندھے ہر گزرتے آدمی کو دیکھ رہا تھا اس وقت ہر بندہ اسے خود سے
بہتر حال میں لگ رہا تھا۔
اب اسکے آنسو بہنے لگے تھے اللہ سے پھر شکوے جاری ہوچکے تھے، یا اللہ میں
ہی کیوں؟؟ ۔۔آخر کیوں؟؟؟۔"کتنا اچھا ہوتا تو 24 گھنٹوں کے بجائے 48 گھنٹے
بناتا"۔ میں وقت کے ساتھ بلکہ اس سے بھی تیز چل پاتا، سب سے پیچھے ایک
ناکام شخص نہ بن کے رہ جاتا۔"
سوائے خود کو ختم کرنے کے مجھے اور کوئی حل نظر نہ آتا،پر میں تو یہ بھی نہ
کرسکا ذرا سی چوٹ نےمجھے ڈرا کے رکھدیا!
اسکی بھیگی آنکھیں ،اسکی چوٹ کی شدت، تکلیف سے مزید بھیگ چکی تھیں!!
اب یہ ایک اور مصیبت آگئی آخر کیوں میری زندگی ،ہموار نہییں ہوپاتی، ہر پل
کچھ نہ کچھ ہو ہی جاتا ہے!!
اپنی سوچوں میں گم بیٹھے وہ بددلی سے سوچتا رہا
اسے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی اسنے سر اٹھاکے جو دیکھا عبدالرحیم اسکے
پاس پہنچ چکا تھا وہ ٹھٹھک کے رہ گیا۔وہ ہمیشہ عبد الرحیم سے بھاگا کرتا
تھا پتہ نہیں اس میں ایسا کیا تھا جو اسے احساس کمتری میں مبتلا کر دیا
کرتا تھا حالانکہ زندگی میں اسکے پاس کبھی بھی اتنا کچھ میسر نہیں تھا کہ
اچھی زندگی گزار سکے ۔ حلیہ زیادہ تر اسکا مولوی جیسا تھا مگر اسکے چہرہ کا
اطمینان اور ہر وقت اللہ کے شکر سے رطب السان رہنا عبدالرحمٰن کیلئے حیران
کن تھا۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھنے لگا تو عبدالرحیم نے بڑے پیار سے اسکا بازو پکڑ کر
بیٹھا دیا اور اسکے زخمی ہاتھ کی مرحم پٹی کرنے لگا۔
عبد الرحیم نے خود ہی بات شروع کردی
"اصل میں میرے دوست میں یہاں قریب کی مسجد میں ظہر کی نماز ادا کرنے آیا
تھا اور تمہیں دیکھ چکا تھا ساتھ تمھاری حالت بھی۔
چونکہ نماز کا وقت بالکل قریب تھا تو لہذا پہلے نماز ادا کی اور اب تمھارے
لئے حاضر!!
میں جانتا ہوں تم مجھ سے کتراتے ہو مجھے نظر انداز کرتے ہو میں نہیں جانتا
میری کونسی بات تم پہ ایسی گراہ گزری کہ تم میرے ساتھ اسطرح کرجاتے ہو۔۔مگر
میں پھر بھی تم سے معافی مانگتا ہوں"!!
عبدالرحمٰن اندرہی اندر شرمندہ ہونے لگا
اس نے محبت سے عبدالرحمٰن کا ہاتھ دبایا ۔ وہ اب خود کو روک نہ سکا اور
پھوٹ پھوٹ کے رونا شروع کردیا۔
"ایسی کوئی بات نہیں!! بس میں اپنی زندگی اور حالات سے تنگ آچکا ہوں!"
عبدالرحیم نے فوراً اپنائیت سے کہا:
"میرے دوست مجھ سے اپنا دل ہلکا کرسکتے ہو!!"
عبدالرحمٰن کوعبدالرحیم کی یہ بات بہت بھلی لگی اور اسوقت واقعی اسے کسی
ہمدرد،دوست کی شدید ضرورت تھی ۔
اسنے عبدالرحیم کو سب تفصیلاً بتانا شروع کردیا۔
بات یہ ہے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا میری یہی خواہش رہی وقت کی رفتار سے
تیز دوڑوں اور کامیاب بھی ہوا اور ہر بار میں کامیاب سے کامیاب ترین بنتا
گیا لوگ مجھے دیکھکر رشک کرتے تھے میرا بہتر سے بہترین لائف اسٹائل بن چکا
تھا۔ سوسائٹی میں ایک خاص مقام تھا اور پھر میری شادی ہوگئ ۔ میری بیوی بھی
میری طرح اچھی شکل صورت اور کامیاب عورت تھی ۔ شادی کے ابتدائی سال بہت
اچھے سے گزرے گویا وقت جیسے میری مٹھی میں بند ہوگیا ہو اور میر ے تابع
بھی۔ میری رفتار روز بہ روز تیز ہوتی جارہی تھی میں نے زندگی کے چند ہی
سالوں میں وہ سب پالیا تھا جنھیں پانے میں لوگوں کی آدھی عمر گزر جاتی
ہے۔کیا کچھ نہیں تھا میرے پاس کامیاب بزنس، بہترین شریک حیات اور میری
کامیابی پہ خوش ہونے والے ،حوصلہ بڑھانے والے میرے ماں باپ!!
پھر اللہ نے مزید کرم کردیا ، مجھے جڑواں بچوں سے نوازا ،بیٹااور بیٹی
۔گویا یوں لگا وقت بھی میرے آگے ہار مان چکا ہو اور میرے آگے سر جھکائے
کھڑا ہو۔ خاندان ،آفس جہاں کہیں بھی گیا لوگ میری تعریف کرتے نہ تھکتے تھے
بلکہ مجھ سے بڑے بڑے بزنس مین بھی پوچھتے کہ "اتنی کامیابی کا آخر راز کیا
ہے؟کسطرح وقت کو اپنے حساب سے چلاتے ہو، واقعی تمھیں دیکھر فخر محسوس ہوتا
ہےکہ اتنی سی عمر میں تم بلندیوں پہ پہنچنے کی شروعات کر چکے!!"
میں مسکراکے کے کہتا!" میں بس وقت سے تیز بھاگنا جانتا ہوں اور یہی میری
اصل جیت ہے۔"
میں روز انہی سب باتوں کے سننا کا عادی بن چکا تھا۔تعریفیں ،پذیرائی …بس
یہی سب مجھے اچھا لگتا تھا۔
سب ٹھیک چل رہا تھا مگر پچھلے دو سال سے آہستہ آہستہ سب بدلتا گیا۔وقت کی
گرفت میرے ہاتھوں میں کمزور پڑتی گئی ،وقت مجھ سے آگے ہوتا گیا اور میں
پیچھے !
یہاں تک کہ میں بہت پیچھے رہ گیا!!
پہلے ماں باپ مجھ سے خوش رہتے تھے اب وہ اکھڑے کھڑے رہنے لگے تھے ۔بیوی روز
مجھ سے کسی نہ کسی بات پہ خفا ہوجاتی تھی۔بچے اپنی فرمائش نہ پوری ہونے پہ
مجھے سے ڈھنگ سے بات بھی کرنا گواراہ نہیں کرتے تھے۔
میرے بزنس میں جب سے نقصان ہوا ،میری ساخت کمزور ہوتی گئی۔لوگوں نے روابط
کم کردیئے۔ یہاں تک کہ مجھے اپنا بزنس ختم کرنا پڑا اور تنگی سے دوچار
زندگی گزرانی پڑی جوکہ میرا طرزِ زندگی کبھی رہا نہیں۔ اب لوگ میری حالت
دیکھکر ترس کھاتے ،میرا مذاق اڑاتے ہیں اور مجھے نو لیفٹ کا بورڈ دکھاکے
گزر جاتے ہیں ۔ نوکری بھی بڑی مشکل سے ملی جس سے بس گزر بسر ہی ہو پارہا
تھا۔ مجبوراً مجھے دو دو نوکری کرنی پڑی کیونکہ بچے کسی طور سے اپنا اسکول
بدلنے کو تیار نہ تھے اور بیوی اپنے رہن سہن پہ سمجھوتا نہیں کرسکتی تھی
اور ماں باپ بھی کچھ سننے سمجھنے کو تیار نہ تھے۔ میں خود بھی گھٹ رہاتھا
لہذا سب قربانیاں میرے ہی نصیب میں آئیں۔ میرے پاس اپنے لیے بھی وقت نکالنا
مشکل ہونے لگا تھا۔ بیوی روز کہیں نہ کہیں جانے کے لیے تیا ر بیٹھی ہوتی
اور ساتھ بچے بھی گھومنے کی ضد کرنے لگتے۔ میں تھکن سے چور دن بھر کا غصہ
نکالتا اور صاف کہ دیتا!
جیب اجازت نہیں دیتی تو بیوی !کہتی بہتر ہے،
میں میکے ہی چلی جاؤں یہاں کمپرسی کی زندگی گزراتے تنگ آچکی ہوں۔بچے کہتے!
بابا ،ہمارے دوست کے بابا تو خوب گھماتے پھیراتے ہیں اور آپ ہمیں اب بلکل
نہ وقت دیتے ہیں نہ کہیں گھمانے کے لیے لیکے جاتے ہیں آپ ہمیں اب اچھے نہیں
لگتے۔ !!
اور میں یہ سب سن کے مزید ٹوٹ جاتا پھر اللہ سے خوب شکوے کرنے بیٹھ جاتا۔
اور ہر روز کی اسی چک چک سے اسقدر تھگ گیا تھا کہ فیصلہ کیا کہ خود کو ختم
کرکے سبکی اور خود اپنی مشکل بھی آسان کرلونگا۔ مگر مجھ سے یہ بھی نہ
ہوسکا۔ تھک ہار کے ما یوس بیٹھا ہوں سمجھ نہیں پارہا مجھے کیا کرنا چاہیئے
د ماغ جیسے دل سے الجھتے الجھتے تھگ گیا ہو۔
وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا۔
عبد الرحیم نے فوراً اسے کندھے سے پکڑا اور گلے لگالیا ،تسلی دی اور چپ
کروایا۔پھر اپنی بات اسے کہنے شروع کی۔
میرے پیارے دوست اتنی مایوسی اچھی نہیں ۔بلکہ اس ذاتِ اقدس نے تمھیں اسلئے
توڑا ہے تاکہ تم اس سے جوڑ سکو۔
عبدالرحمٰن نے اپنی بھیگی آنکھوں کو رومال سے صاف کرتے ہوئےحیرت سے اسے
دیکھا
کیا مطلب میں سمجھا نہیں؟؟
عبدالرحیم نے پیاربھری نگاہوں سے اپنی دوست کی طرف دیکھا اور اسے کے اور
قریب ہوکے بیٹھ گیا
دیکھو دوست! بات بالکل صاف اور آسان سی ہے،ہم اس دنیا میں جیسے ہی کچھ بن
جاتے ہیں، کامیاب ہونے لگتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے خالق کو بھول جاتے
ہیں۔وقت کی رفتار کو تھامنے کیلئے ہم ہر سیڑھی چڑھتے جاتے ہیں چاہے وہ
ہمارے اعمال کو کالا کیو ں نہ کرتی جائے پر ہمیں صرف چڑھنے سے مطلب ہوتا
ہے۔نتیجاً ہمیں وہ کامیابی ہمارے گمان کے مطابق دے دی جاتی ہے پر ہم سے دین
دور کردیا جاتا ہے۔اب ہوتا یہ ہے کہ ہماری تیزی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ
ہم لڑکھڑاکے گر پڑتے ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو بجائے اسے حوصلہ سے سامنا
کرنے کے ہم حالات کو غرض ہر چیز جو ہماری مخلافت کرتی ہو، لعن طعن شروع
کردیتے ہیں اور جب ان سب سے تھک جاتے ہیں تو مایوس ہو کر بیٹھ جاتے ہیں
یہاں تک کہ خو د کو ختم کرنے سے بھی نہیں چونکتے کیونکہ اپنے سب مسائل کا
حل صرف یہی دیکھائی دیتا ہے۔اور رب سے بس گلے شکوے شروع ہوجاتے ہیں ،اسکی
کرم نوازیاں نہ دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔
کچھ ایسا حال آپکا بھی ہے میرے دوست!اللہ نے آپکو گرایا ضرور ہے مگر اٹھانے
کیلئے یہ بتانے کیلئے دنیا اسلئے نہیں بنائی گئ کہ یہاں آکے ہم اسکے غلام
بنتے جائیں اور یہی خواہش کرتے رہیں کہ سب ہماری منشاء کے مطابق چلتا رہے
بلکہ اسکا مقصد کچھ اور ہے اوروہ ہے اللہ کو پہچاننا ،اسے تعلق کو اس حد تک
مضبوط کرلینا کہ وقت کی مخلافت بھی تمھیں توڑ نہ سکے۔اپنی طرزِ زندگی کو
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کے مطابق ڈھالنا کہ اسی میں
کامیابی ہے اور وقت کی برکت بھی
جو شخص بھی اپنی زندگی کا رخ اسطرف موڑ دیتا ہے وہ کامیابی اور سرفرازی کی
بلندیوں کی چوٹی کو چھونے لگتا ہے۔وقت اسکا مشکل میں بھی کچھ نہیں بگاڑ
پاتا بلکہ اسے فولاد بنا دیتا ہے۔
میرے دوست آؤ! اٹھو چلو اپنی زندگی کا رخ بھی اسطرف موڑ دو پھر دیکھو پہلے
سے زیادہ کامیاب ہوگے۔منادی نےبھی آواز لگادی ہے چلو نماز ادا کرنے چلتے
ہیں۔
عبد الرحمٰن کو لگا اسکا بوجھ بہت کم ہوگیا ہےجیسے اسے نئی راہ مل گئ
ہو۔اسنے یاد کرنے کی کوشش کی پر ٹھیک سے یاد نہ آسکا کہ اسنے کب نماز پڑھی
تھی وہ ندامت سے سر جھکائے مسجد میں داخل ہوچکا تھا عبدالرحیم کو دیکھکر
وضو بنایا، نماز ادا کی اور پھر وہی بیٹھ کر اللہ کے سامنے رونے لگا۔ الفاظ
ادا نہیں ہورہے تھے بس جذبات واضح تھے اسکا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اور دعا
کیلئے ہاتھ بلند جو باربار منہ کو شرمندگی کے باعث چھپاتے تھے اسنے ایک ایک
بات اپنی اللہ کے سامنے رکھ دی تھی خوب معافیا ں مانگی تھیں دل تھا کہ بے
قرار بہت ۔آہستہ آہستہ اسے قرار آنے لگا تھا۔وہ سکون محسوس کرنے لگا تھا
۔ایک نئ شروعات کا آغاز ہوچکا تھا۔اسکے ارد گرد جو دھند لپٹی تھی وہ ہٹ چکی
تھی۔ اب سب کچھ صاف تھا۔ ایک نئے وقت کا آغاز ہوگیا تھا۔!!
#حیا _مسکان
|