لوٹ آؤ جاناں

”آج میں نے ایک عجیب کام کیا۔“

اپنا نمبر تمہارے نام سے
موبائل میں سیو کیا۔۔“

جیسے کبھی تم مجھے پکارتے تھے۔“
ویسے ہی جیسے تم مجھے میسج کرتے تھے۔“

آج اُسی طرح تمہارے پرانے میسج دیکھتے۔
اپنے دوسرے نمبر سے خود کو میسج کیا۔“

موبائل کی بیل بجی۔“
دل کی دھڑکن ایک دم دھڑک اٹھی۔“

دیکھا تو تمہارا ہی نام سکرین پر چمک رہا تھا۔“
میسج اوپن کیا۔“
اور پڑھا۔“

پہلے تو خود پر بہت ہنسی آئی۔“
پھر خوب ہنسی۔“
لیکن!!!

اس ہنسی میں آنسوؤں کہ نمی تھی۔“
اور بہت روئی میں
ٹوٹ کر بکھر گئی۔“

روتے روتے پھر
خود ہی خود کو جواب دیا۔“

تکیہ آنسوؤں سے تر ہوگیا۔“
آنکھیں سرخ انگارے جیسی ہو گئیں۔“

درد ہونے لگا تھا سینے میں
پر!!!
آنسو تھے کہ رک ہی نہیں رہے تھے۔“

وہ پانچ اپریل دو ہزار پندرہ کا دن تھا۔“
جب چھ بج کر چالیس منٹ پر تمہارا فون کال آیا مجھے۔“

آج تیس نومبر دو ہزار انیس ہے۔“
تقریباً پانچ سال گزر گئے۔“

تمہاری آواز نہیں سن سکی۔“
تمہارا چہرہ آج بھی آنکھوں میں بستا ہے۔“

تمہارا چہرہ،
اور چہرے کی وہ
مسکراہٹ نہیں دیکھی۔“

تمہاری انگلیوں سے ٹائپ ہوا ایک میسج تک نہیں دیکھ سکی میں_“

وہ جو تم واٹس ایپ،
فیس بک پر میرے لیے سٹیٹس لگاتے تھے۔“

وہ جو تم اپنی آئی ڈی میں
میرے لیے ہزاروں پوسٹیں کیا کرتے تھے۔“

وہ سٹیٹس،
وہ پوسٹیں کچھ بھی نہیں دیکھ سکی میں۔۔۔“

تمہاری آواز سنے
ایک عرصہ بیت گیا۔“
تمہارے لبوں سے اپنا نام نہیں سنا۔“

تمہیں یاد ہے۔“
جب ایک دن تمہارا نمبر
دس دن کے لیے آف ہوا تھا؟۔“

اور میری جان پہ بن گئی تھی۔؟؟“
سولی پر لٹکتے وہ دن رات میں نے گزارے تھے۔“

اور آج پانچ سال ہوگئے۔“
اور کوئی پروا تک نہیں تم کو؟؟۔“
اب تو پلیز لوٹ آؤ۔“

یاد ہے نہ
ایک بار جب تم ناراض ہوئے تھے۔“

تمہاری ناراضگی،
تمہاری بےرخی،
دیکھتے میں برداشت نہ کرپائی تھی۔“

اور تب تم نے مجھے ڈانٹا تھا_؟؟“
اور وہ چند دن،
چند لمحوں کی جدائی میں خود کو کتنی اذیت دی تھی میں نے_؟؟“

وہ ٹوٹتی بکھرتی سانسوں سے
تمہیں یاد کرتے میں تڑپ گئی تھی۔“

تم کہتے تھے۔“
تم میرے علاوہ کسی اور کا سوچ بھی نہیں سکتے۔“
لیکن!!!

تمہاری زندگی میں اب کوئی اور ہے۔“
جس پہ کوئی حق نہیں ہے میرا۔“

لیکن!!!
میری تو آج بھی سوچ تم سے تم تک ہے۔“

پلیز لوٹ آؤ نہ۔“
سنبھال لو نہ مجھے
تم بن بکھررہی ہوں۔“
سسک رہی ہوں۔“

پر آج بھی مجھے یہاں تمہارے علاوہ سمجھنے والا کوئی نہیں ہے۔“
کچھ بھی کہو سب واہ واہ کرتے ہیں۔“

وہ سب سمجھتے ہیں میں درد نہیں بس الفاظ لکھتی ہوں۔“
انکو یہ نہیں پتا چلتا کس حال میں کچھ لکھا ہے میں نے۔؟؟“

مجھے سب کہتے ہیں۔؟؟“
دکھی آتما کا ٹائٹل دیا جاتا ہے۔“
کبھی جھلی،
کبھی پاگل،
کبھی سرپھری کہتے ہیں۔“

پر تم ہو کہ کچھ بھی نہیں سن رہے۔“
انہیں روکتے بھی نہیں ہو۔؟؟“

اب تو لوٹ آؤ نہ۔“
پلیز۔۔۔!!!
مجھے تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔“
مجھے تمہارے سنگ جینا ہے۔“
تمہارے ساتھ ہمقدم ہوکر چلنا ہے۔“

سب کہتے ہیں تم اتنا درد کیسے لکھ لیتی ہو۔“
پر انکو کیا پتا یہ سب تو جذبات ہیں۔“
یہ تم ہی سمجھ سکتے ہو۔“
اور کون ہے جاناں جو ان لفظوں کو سمجھے گا۔“

مجھے سنبھال لو نہ آکر
اک بار
پلیز۔۔!!
لوٹ آؤ نہ جاناں۔۔۔“
 

ماہ گل
About the Author: ماہ گل Read More Articles by ماہ گل: 4 Articles with 8343 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.