حیا گھر آنے کے بعد سو گئی ۔۔۔بہت تھک چکی تھی ۔۔اٹھ کر
ہوم ورک بھی کرنا تھا ۔۔کل دوبارہ سے اسکول بھی جانا تھا ۔۔۔۔۔۔
اور یہاں سر ہادی کو نیند نہیں آرہی تھی کے کل حیا کا آخری دن ہے وہ اسے
اپنے دل کی بات کیسے کہے ۔۔۔
کافی سوچنے کے بعد وہ اٹھا اور ٹیبل پر پڑی نوٹ بک اٹھائی ۔۔ایک کاغذ نکالا
۔۔۔۔کچھ سوچنے کے بعد لکھنے لگا اس نے خط کا آغاز ایک خوبصورت غزل کے ساتھ
کیا ۔۔۔
( احساس محبت کا میری ذات پہ رکھ دو
تم ایسا کرو ہاتھ میرے ہاتھ پہ رکھ دو
معلوم ہے ، دھڑکن کا تقاضا بهی ہے لیکن
یہ بات کسی خاص ملاقات پہ رکھ دو
یوں پیار سے ملنا بهی مناسب نہیں لگتا
یہ خواب کا قصہ ہے اسے رات پہ رکھ دو
اظہار ضروری ہے تو پھر کہہ دو زباں سے
یہ دل کی کہانی ہے روایات پہ رکھ دو
یہ پیار کی خوشبو میں نیا رنگ بھرے گا
اک پھول اٹھا کر مرے جذبات پہ رکھ دو
ہر وقت تمہارے ہی تصور میں رہوں میں
جادو سا کوئی میرے خیالات پہ رکھ دو
اک میں کہ میرے شہر میں بارش نہیں ہوتی
اک تم کہ ملاقات کو برسات پہ رکھ دو
مانوں گی سحر تب ہی کہ جب بات بنے گی
اس بار مری جیت میری مات میں رکھ دو۔۔۔۔۔۔)
میں نے جب سے تمہیں دیکھا ہے میں باقی سب بھول سا گیا ہوں تمہاری آنکھوں
میں دیکھتا ہوں تو کھو جاتا ہوں مجھے نہیں پتہ کب کیسے لکین میں تم سے بہت
پیار کرنے لگا ہوں اور اپنی پوری زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں
۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ تم میرے بارے میں کیا سوچتی ہو لکین میں اب تمہارے بغیر
جینے کا سوچ بھی نہیں سکتا تمہارے جواب کا انتظار رہے گا اور مجھے امید ہے
تم مجھے مایوس نہیں کروگی ۔۔۔۔
سر ہادی نے اپنی ہر بات اس خط میں لکھ دی لیکن اسے اس بات کا ڈر تھا کے حیا
کا ری ایکشن کیا ہوگا کیا وہ بھی مجھ سے پیار کرتی ہے کہ نہیں۔۔۔
ہادی کو ان سوالوں نے پریشان کیا ہوا تھا جس کی وجہہ سے وہ پوری رات نہ سو
سکا۔۔۔۔۔
( ناول :- جاری ہے )
آپ کو کیا لگتا ہے حیا کا کیا ری ایکشن ہوگا کیا وہ ہادی کو اکسپٹ کریگی
۔۔۔؟؟
|