کہا جاتا ہے کہ عورت اور مرد زندگی کی گاڑی کے دو پہیے
ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں (جسے مردوں کا معاشرہ کہا جاتا ہے)بعض صورتوں
میں عورت وہ پچھلا پہیہ ہے جسے سارا زور لگا کر زندگی کی گاڑی کو رواں دواں
رکھنا ہے اور مرد وہ اگلا پہیہ ہے جو صرف اپنی ناک اور شان و شوکت قائم
رکھنے کے لیے آگے رہنا پسند کرتا ہے
ہمارے اس مردوں کے معاشرے میں عورت کے حقوق کو دبا کے مرد اپنی مونچھ کو
تاو دیتا ہے اور اسی کو اپنی مردانگی سمجھتا ہے!
اقوام متحدہ کے زیراہتمام پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے
خاتمہ کا عالمی دن 25 نومبر کو منایا جاتاہے اس دن کو منانے کا مقصد خواتین
پر گھریلو تشدد، جسمانی تشدد، جنسی طور پر ہراساں کرنے، دفاتر، نیم سرکاری،
صنعتی، کاروباری، تجارتی و دیگر اداروں میں کام کے دوران صعوبتوں سے نجات
اور خواتین کے مسائل کے متعلق آگاہی اور شعور بیدار کرنا ہے
عورتوں پر تشدد ہمارے معاشرے کا انتہاء درد ناک المیہ ہے اس سے درد ناک بات
یہ ہے کہ اس تشدد کا آغاز گھر کے ہی منفی رویوں سے ہوتا ہے
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تشدد کا مطلب جسم کو زخمی کرنا ہے،تشدد صرف
جسمانی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہوتا ہے
عورت جو ماں، بہن، بیوی، بیٹی ہے، اس کے وجود کو بے بنیاد نظریات کی بنا پر
ظلم کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے عورتوں کے ساتھ مار پیٹ گالی گلوچ، بے جا
پابندیاں، ذہنی دباو?، بنیادی ضروریات کی غیر فراہمی، بیٹویں کی زبردستی
شادی، گھریلو تشدد کے زمرے میں آتی ہیں آج کل تقریباً ہر گھر میں عورت
گھریلو تشدد کا شکار ہو رہی ہے جس کی بنیادی وجہ معاشی پریشانی ہے اس کے
علاوہ غربت اور تعلیم کی کمی بھی اس کی شرح میں اضافہ کرنے میں اہم کردار
ادا کر رہی ہے
گھریلو تشدد ایسے جرثومے کی مانند ہے جو ختم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جارہا
ہے عورت پر تشدد نہ صرف ایک ظلم بلکہ جرم کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف
ورزی بھی ہے اگر اسلامی رو سے دیکھیں تو اسلام نے عورت کے حقوق ایک مرد کے
مساوی کیے اور عورت کو یہ مقام عطا کیا کہ اگر وہ بیٹی ہے تو رحمت، اگر
بیوی ہے تو شوہر کے نصف ایمان کی وارث اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے
جنت لیکن ان تمام رتبوں کے باوجود کہیں اس پر تیزاب پھینکا جا رہا ہے تو
کہیں اس کی عزت کو اچھالا جا رہا ہے کہیں وہ غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہے
تو کہیں اسے سرِعام تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے
تاریخ گواہ ہے کہ ظہور اسلام سے قبل جہاں انسان میں بہت ساری برائیاں تھیں،
ان میں سب سے نمایاں اور شرمناک بات یہ تھی کہ عورت کا معاشرے میں کوئی
مقام نہ تھا وہ صرف ایک زرخرید لونڈی اور خواہشات نفسانی کے پورا کرنے کا
ذریعہ سمجھی جاتی تھی سماج میں اس کا کوئی مقام نہ تھا یہاں تک کہ لڑکی کی
پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا تھا اور اسے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا
تھا!
لیکن پیغمبر آخر الزماں دنیا میں رونق افروز ہوئے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی تو آپ ﷺ نے سب سے پہلے عورت کے
اصلاح کی جانب خاص توجہ مبذول فرمائی اور عورت کو دنیا کے سامنے ایک مثالی
نمونہ بناکر پیش کرکے معاشرے میں اعلیٰ مقام عطا کیا
انہیں امّہات المومنین، صحابیات جیسے خطابات سے نوازا خصوصاً عورت کو ماں
کا درجہ دے کرکہ اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے اﷲ تبارک تعالیٰ نے اپنے کلام
پاک میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی واضح طور پر ذکر فرمایا اور
مردوں کے برابر عورتوں کے خقوق عطا کیے ہیں
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
'' عورتوں کے مردوں پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر اچھے سلوک
کے ''
ساتھ ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ
''اور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرو''
(سورہ النساء)
عورت پر تشدد کم ظرفی کی نشانی ہے عورت پر ہاتھ اٹھانا مردانگی نہیں بلکہ
ذہنی بیماری ہے یا تو وہ ایسے ہی ماحول میں بڑے ہوتے ہیں یا کوئی نفسیاتی
مسئلہ ہوتا ہے عورت ماں بھی ہے بہن بھی بیٹی بھی اور بیوی بھی
یقیناً ہر روپ میں عورت قابل احترام ہے جس گھر میں عورت کی عزت نہ کی جاتی
ہو عورت تکلیف میں ہو وہاں برکت نہیں ہوتی!
اس بدبودار معاشرے میں عورت کی بے قدری کا اندازہ اس بات سے ہی بخوبی کیا
جا سکتا ہے کہ مرد جب بھی دوسرے مرد کو گالی دیتا ہے تو ماں، بہن، بیوی،
بیٹی کی گالی دیتا ہے مرد کو عورت پر فضیلت اس لیے دی گئی ہے کیونکہ مرد
سارا دن باہر کی کٹھن دنیا سے خون پسینہ بہا کر روزی کما کے لاتا ہے اور
بیوی بچوں کی پیٹ کی آگ بجھاتا ہے لیکن دورِ حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہی
نازک طبع عورت کھیتوں کھلیانوں میں پسینہ بہا رہی ہوتی ہے یہی عورت سڑک بنا
رہی ہے یہی عورت پہاڑ کاٹ رہی ہے یہی عورت سکولوں دفتروں اور دیگر اداروں
میں آٹھ آٹھ گھنٹے کام میں جُتی رہتی ہے
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں خواتین پر تشدد کے
واقعات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے اور ایک تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال
ماضی کے چار برسوں کی نسبت ایسے واقعات کی تعداد زیادہ رہی
'پنجاب کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن' کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق 2016ء میں
صوبے میں خواتین کے خلاف تشدد کے 7313 واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ 2015ء میں
یہ تعداد 6505 اور 2014ء میں 5967 تھی
لیکن رپورٹ میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ اصل واقعات کی تعداد اس سے
کہیں زیادہ ہو سکتی ہے
اس تعداد کو سامنے رکھتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پر
تشدد میں 12.4 فی صد جب کہ جنسی تشدد کے واقعات میں 17 فی صد اضافہ ہوا
حالیہ برسوں میں حقوقِ نسواں کے تحفظ سے متعلق ملک میں مو?ثر قانون سازی
ہوئی ہے جب کہ پنجاب میں اس ضمن میں بنائے جانے والے قوانین کو بین
الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا لیکن اس کے باوجود خواتین کو تشدد کا نشانہ
بنانے کے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں
کسی دردِ مند انسان کا قول ہے کہ
''اگر مرد چِلا سکتا ہے تو عورت کو بھی کم از کم آہ بھرنے کی آزادی ہونی
چاہئے''
یہ سچ ہے کہ عورت چھپکلی سے ڈرتی ہے لیکن وقت پڑنے پر یہی عورت شیر کے منہ
میں ہاتھ ڈالنے سے زرا نہیں کتراتی!
سوچو! اگر عورت نہ ہوتی تو کہاں سے لاتے ماں کی ممتا، بہن کے جیسا نرم دل،
بیوی کے جیسی نرم و نازک صنف، اس عالمِ رنگ و بو کی رعنائی اسی کے دم سے!
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر صرف لفاظیوں، ریلیوں اور سیمیناروں سے کوئی
تبدیلی نہیں آئے گی، معاشرے میں خواتین کے مقام کی اہمیت کو کھلے دل، کھلے
ذہن سے تسلیم کرنا ہوگا، ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جو خواتین پر تشدد کرتے
ہیں، ان جاہلانہ رسم و رواج کیخلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا جس سے نا صرف ہمارا
ملک بلکہ اسلام بھی بدنام ہورہا ہے، حکومت کو سنجیدگی سے قانون بنانے ہوں
گے اور خواتین کو تحفظ دینا ہوگا! |