لیا جائیگا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

پچھلے کچھ سالوں سے ہندوستان میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں ، سیاسی اعتبار سے کئی لوگوں نے اقتدار حاصل کیا ہے تو کئی لوگوں اقتدار سےدور ہوئے ہیں ، کئی لوگوںنے ہندوستان میں قیادت کا جھنڈا لہرایا ہے تو کئی لوگ سیاسی میدان سے دور ہوئے ہیں ، ہندوستان کی کئی مایہ ناز شخصیات اس دنیا سے دور ہوئے ہیں تو کئی لوگ کچھ ہی سالوں میں ہر دلعزیز ، مشہور و معروف ہوئے ہیں ۔ اٹل بہاری واجپائی ، اننت کمار ہیگڈے ، مولانا اسرار الحق قاسمی سمیت مسلمانوں کے درجنوں علماء اس دارفانی سے کوچ کرگئے ہیں۔لیکن ہم مسلمان پچھلے پچاس سالوں سے جہاں تھے وہیں ہیں ، نہ ہماری سیاسی قیادت ابھر کر آئی ہے ، نہ سماجی حالت بدلی ہے ۔ کنہیاکمار ، ہاردک پٹیل ، جگنیش میوانی ، چندرشیکھر آزادراون جیسے نوجوانوںنے محض پانچ سالوں میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے اور وہ ملک کے سیاسی حلقے میں آج طاقتور لیڈروں میں شمار ہونے لگے ۔ ہاردک پٹیل کی عمر 25، جگنیش میوانی کی عمر 38 سال ، کنہیاکمار 32سال ، چندشیکھر آزاد کی عمر ہے ۔ اس کم عمری میں ہی انہوںنے اپنے اپنے سماج کی قیادت کاجو بیڑا اٹھا یا ہے وہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک مثال ہے ۔ دوسری جانب مسلمانوں کی بات کی جائے تو مسلمانوں نے پچھلے سالوں میں ہندوستان کی سالمیت ، ہندوستان کی سیاست اور ہندوستان کی معیشت میں ایسا ایک بھی اہم رول ادا نہیں کیا ہے جو مثال بن سکے ۔ مسلمانوں کا اکثر رونا ہوتاہے کہ ہمارے درمیان سیاسی قائدین کی کمی ہے اور ہماری نسلوں کے پاس سیاست میں اپنا لوہا منوانے کی سکت نہیں ہے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان قوم اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی طرح کی پیش رفت کرنے کے بجائے ایسے کاموں میں مصروف ہے جنہیں قوم کی ضرورت ہے ۔ ہمارا وقت اب تک مشاعروں ، قوالیوں اور جلسوں میں گزر رہا تھا لیکن اب ہم ایک قدم اور آگے آگئے ہیں ، ہماری قوم میں اب کوئی عالم دین اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو انکے لئے ایک دو نہیں بلکہ درجنوں تہنیتی پروگرام منعقد کئے جارہے ہیں ، انکے تہنیتی جلسوں میں فاتحہ خوانی و اوصاف بیان کرنے کے لئے چند گھنٹے صرف کیا کرتے تھے لیکن اب کچھ ماڈرنائزیشن اختیار کی جارہی ہے ، اب مرحومین کو یا دکرنے کے لئے باقاعدہ سمینار اور کانفرنسوں کا انعقاد کیاجارہاہے ۔ ان کانفرنسوں اور سمیناروں میں مرحومین کے اوصاف بیان کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جارہاہے۔ ہماری نوجوان نسلوں کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ چیز دینے سے تو ہم رہ گئے مگر جن باتو ں کی ضرورت نہیں ہے اس پر پوری قوت ڈالی جارہی ہے۔ جہاں تک ہمارے علم کی بات ہے تہنیتی جلسوں کا اہتمام نہ پیغمبر رسول ﷺ کے دور میں ہوا نہ صحابہ کے دور میں ، صحابہ کے بعد تابعین نے اس رواج کو شروع کیا نہ تب تابعین نے اس پر عمل کیا لیکن یہ کونسا نظریہ ہے جو ہمارے اسلاف کو یاد کرنے اور انکے اوصاف کو بیان کرنے کے لئے جلسوں ، سمیناروں اور کانفرنسوں کی قطار لگائی جارہی ہے ۔ ہر انسان کو اس دنیاسے جانا ہی اور جانے والے کے اوصاف بیان کرنا بھی نیکی ہے لیکن اسے ہی مخصوص شکل دینا کونسا اسلام ہے یہ مجھے سمجھ میں نہیں آیا ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد وہ تمام قومیں آج اقتدار یا کامیابی کی جانب گامزن ہوئی ہیں جنہوںنے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائی ، جنہوںنے تحریکیں چلائیں اور جنہوںنے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا ، لیکن مسلمانوں نے کیا کیا یہ خود سوچیں ، مسلمانوںنے مسلک مسلک کا کھیل کھیلا، اپنے اپنے عقائد کو برتر ثابت کرنے کے لئے جلسوں و پروگراموں کا اہتمام کیا، قوالیوں اور مشاعروں میں وقت گزار ا، ان قوالیوں اور مشاعروں کو مسلمانوں کی تہذیب و روایت قرار دی ، ہمارے مسائل کو حکومتوں تک پہنچانے کے بجائے حکومتوں کی چاپلوسی کی ، اپنے سیاسی لیڈروں کو تیار کرنے کے بجائے دوسرے سیاسی لیڈروں کی دلالی کی ۔ ہم نے قوالیوں ، مشاعروں کو تو اپنے آباء و اجداد سے جڑا لیکن حق کے لئے آواز اٹھانے والے محمد بن قاسم ، صلاح الدین ایوبی ، ٹیپو سلطان جیسے شہنشاہوں کی حیات سے کوئی سبق نہیں لیا ۔ ہمیں میر ، غالب اور فیض پر سمینار منعقد کرنے کی باتیں یاد رہیں لیکن قوم کے حالا ت پر کسی نے مذاکرہ نہیں کیا ، نہ ہی سمینار منعقد کئے ، دینی حلقوں میں علماء پر سمینار اور ادبی حلقوں میں شاعروں و افسانہ نگاروں پر سمینار منعقد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔اس سے کیا حاصل ہورہاہے اور کس طرح سے ہم اپنی ذمہ داریوں کو انجام دے رہے ہیں یہ سوچنے کی بات ہے ۔ اگر ہم اسی طرح سے اپنے وجود کو بحال رکھنے میں کوتاہیاں برتے رہیں تو یقینََا مسلمان آنے والے عرصے میں بھی مظلوم قوم ہی رہے گی ۔ ہمارے دانشوروں ، اہل علم حضرات اور مفکرین کو اپنے سوچ میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے ، جب تک سوچ نہیں بدلے گی اس وقت تک قوم کی حالت نہیں بدلے گی ۔قوم کے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اہل علم طبقہ بھی سویا ہواہے اس لئے انہیں جگانے کے لئے ہارن بجانے کی اشد ضرورت ہے۔
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197660 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.