ٹوٹے لہجے ۔۔۔ بے ربط جملے لیے آج وہ خود کےسامنے کھڑا
تھا۔۔ اپنے وجود کے بکھرے ہوئے ذرات آئینہ دل پر صاف نظر آرہے تھے۔ کیا میں
ہار گیا ہوں خود سے ۔۔۔ سب تو ہے میرے پاس پھر ؟؟ خود سے سوال کرتے کرتے وہ
کھڑکی سے باہر گرتی برف کو دیکھنے لگا۔۔ سگریٹ سلگانے ہی لگا تھا تو اندر
جلنے والی آگ کی تپش محسوس ہونے لگی، کہ جھرجری کے عالم میں جلتی ہوئی
سیگریٹ زمین بوس ہوگئی ۔۔۔ میں خود سے فرار چاہتا ہوں ؟ مگر کیوں؟ میرے پاس
کیا نہیں ہے ؟ دولت شہرت ۔۔۔ اردگرد لوگوں کا ہجوم ۔۔۔ پھر ایسا کیا ہے جو
دل کو جکڑے ہوئے ہے۔۔ انہی سوالات کی تپش سے اسکا جسم پگھلتا جارہا تھا ۔۔
وہ ہارے ہوئے شخص کی طرح دو زانو بیٹھ کر زار و قطار رو رہا تھا۔ اسی اثنا
میں کب خود سے دور بھاگنے کے لیے گھر سے نکل گیا تھا اسے اندازہ نہ ہوسکا
۔۔۔ میں کہاں ہوں ؟؟ میں کیا ہوں ؟ میں کیوں ہوں۔۔۔ میرا انجام کیا ہے ۔۔۔خود
کلامی کے عالم میں کیے گئے یہ وہ سوالات تھے جو اسے اندر ہی اندر کھائے جا
رہے تھے۔۔۔ وہ تھک گیا تھا وہ تھک چکا تھا وہ تھک کر زمین پر بیٹھ گیا اپنے
اردگرد کی روشنیوں کو تاریکی میں ڈھلتا ہوا دیکھ رہا تھا یہ روشنیاں کبھی
بھلی معلوم ہوتی تھیں آج ان سے وحشت ٹپک رہی ہے۔۔ اسکے اندر کی وحشت اب
باہر نکل رہی تھی۔۔ جو ماہ و سال اس نے لہو لعاب میں گزار دیے آج پچھتاوا
بنے سامنے کھڑے ہیں ۔۔۔ اب کہاں جاؤں نجات کا کوئی راستہ ہے؟اس کا بس چلتا
کہ وہ اتنا تیز بھاگتا کہ خود سے فرار پالیتا۔۔ دور سے ایک بزرگ لاٹھی
ٹیکتے ہوئے آئے اور اس نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا جس نے زندگی کی
ساری رعنائیوں کی وحشت کو جان لیا تھا لیکن آئینہ دل میں صورت دیکھنے کی
ہمت نہیں جتا پا رہا تھا۔۔
جب بزرگ کے ہاتھ کی نرمی کو اپنے کندھے پرمحسوس کیا تو نوجوان حیرت کے عالم
میں انہیں تکنے لگا۔۔ حال دریافت کرنے پر وہ تخیلاتی دنیا سے باہر نکل آیا
اور کہا کہ "ایک مجرم کیسا ہوتا ہے؟ بس ویسا ہی ہوں"۔
بزرگ نے کہا: " ایک مجرم وہ ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے جرم پر نادم ہو کر تائب
ہوجائے تو اللہ اسکو اپنے سایہء رحمت میں چھپا لیتا ہے اور وہ محبوب ہوجاتا
ہے ۔۔ اور ایک مجرم وہ ہوتا ہے جو گناہ کرتا ہے توبہ کرتا ہے پھر گناہ کرتا
ہے پھر توبہ کرتا ہے۔ وہ بھی اللہ کا مقرب ہوتا ہے اللہ اسکی توبہ پسند
ہوتی ہے۔ تم کونسے مجرم ہو؟ "۔
نوجوان کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا اور بزرگ کے نورانی چہرے کے خدوخال میں
گم ہوکر کہنے لگا : " میں وہ مجرم ہوں جس نے آج تک توبہ کے لیے ہاتھ نہیں
اٹھائے، میں وہ مجرم ہوں کہ جس نے ماہ و سال دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر
گزار دی۔ میں نے وقت کو برباد کر دیا"۔
بزرگ نے شفقت سے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:" تمہاری روح زخمی ضرور ہے لیکن
مردہ نہیں، یہ روح کی تڑپ ہی ہے جو تمہیں توبہ کی طرف مائل کر رہی ہے ، پلٹ
جانے کا اشارہ دے رہی ہے ، ایک لمحے کی سچی توبہ ساری زندگی کے گناہوں کا
کفارہ بن جاتی ہے۔۔ آنکھ سے گرنے والا ایک قطرہ جہنم کی آگ کو بجھانے کے
لیے کافی ہے۔پلٹنے کے لیے سال نہیں ایک لمحہ درکار ہوتا ہے۔۔یہ جان لو تم
ہو تو اللہ کے لیے ہو، تم کیا ہو بس اسی کے بندے ہو۔ بندے بن جاؤ۔۔ پھر
آنکھ سے بہنے والا ہر آنسو گواہی دے گا اللہ نے توبہ قبول کر لی۔۔ پھر
سجدوں کی توفیق بھی مل جائے اور روح کو طمانیت، توبہ کا وقت آخری سانس تک
باقی رہتا ہے"۔
وہ نوجوان سر جھکائے بیٹھا تمام باتوں کی گہرائی میں ڈوبا ہوا تھا اس کو ہر
سوال کا جواب مل گیا تھا کہ فجر کی اذان اس کے کانوں میں پڑی۔ اس نے نظر
اٹھا کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔۔ وہ اٹھا اور مسجد کی طرف قدم بڑھانے
لگا ایسے جیسے کوئی بوجھ اٹھائے لیے جارہا ہو۔۔ پہلی بار اس نے قدم مسجد کی
چوکھٹ پر رکھا تھا وضو خانے سے دوسروں کی دیکھا دیکھی وضو کرنے لگا ۔۔ نماز
کے لیے صفیں منظم رکھنے کے لیے امام صاحب ہدایت دے رہے تھے جونہی امام صاحب
پر نظر پڑی وہ نوجوان ٹھٹک کر رہ گیا یہ تو وہی بزرگ ہیں جن سے روح و دل کی
گفتگو رہی ۔۔ امام صاحب دیکھ کر مسکرائے اور نماز پڑھانے کے لیے قبلہ رخ
کھڑے ہوگئے۔۔ نوجوان کی زندگی کی پہلی نماز ۔۔ وہ مجرم بنا آج اللہ کے حضور
حاضر تھا خوشوع و خضوع سے ادا کی جانے والی نماز اسکے بوجھ کو آہستہ آہستہ
ہلکا کر رہی تھیں۔ نماز کی آخری رکعات ۔۔ سجدہ میں سر رکھا ہی تھا کہ وقت
اجل آن پہنچا۔۔ جان جان آفریں کے سپرد کردی۔۔
تو آئیے آج سے اپنے رب کو اسی موجودہ وقت میں توبہ کر کے منا لیں تاکہ دم
واپسی بس شوق ملاقات ہو ۔۔ روح کو خوشبوؤں میں لپیٹ کر لے جایا جائے ۔۔ نہ
وقت رخصت پشیمانی ہو نہ کوئی اوع غم۔۔ ہم انسان ہیں گناہ ہوجاتے ہیں لیکن
توبہ کرنے میں دیر مت کیجیے ۔۔ اللہ ہم سب کا خاتمہ بالخیر فرمائے آمین
|