صابری
مجھے میرا حق چاہیے ، بھیک نہیں، یہ کہتے ہوئے صابری آگ بگولہ ہو گیا۔
دراصل صابری کے مالک نواب سمیر خان نے برسوں پہلے ایک مکان اسے انعام کے
طور پر دیا تھا۔مکان پر صابری کے چھوٹے بھائی سلمان کی رال ٹپکٹی تھی۔ وہ
ایک غنڈہ صفت آدمی تھا۔آپس میں بات خراب نہ ہو، اس لیے والدین نے مکان
میں تالا لگوا دیا اور دونوں کو یک جا اپنے ساتھ رہنے کا حکم دیا۔ کچھ
سالوں بعد جب والدین کا انتقال ہو گیا تو سلمان نے ایک رات سناٹے میں کچھ
غنڈوں کی مدد سے مکان پر دھاوا بول دیا، اور اس پر قبضہ کر لیا۔ صابری نے
معاملہ پنچایت میں رکھا۔ تمام ثبوت اور گواہ صابری کے حق میں تھے ۔ ہر شخص
سمجھ رہا تھا کہ فیصلہ اسی کے حق میں آئے گا۔ لیکن سرپنچ کے بیٹے سے سلمان
کی یاری تھی۔ سلمان نے سرپنچ کو ایک ہزار گز زمین کے بدلے میں خرید لیا ۔
سرپنچ ویسے بھی اس جیسے غنڈوں سے دشمنی مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ پنچایت
میں فیصلہ ہوا کہ سلمان نے صابری کے مکان پر حملہ کرکے اچھا نہیں کیا۔ لیکن
چوں کہ مکان پر قبضہ سلمان کا ہے اور صابری اس میں ایک عرصے سے رہتا بھی
نہیں، اس لیے وہ مکان سلمان کو دیا جاتا ہے ۔ پنچایت کی طرف سے پانچ سو گز
کا ایک پلاٹ صابری کو اسی گاؤں میں کسی اور جگہ مکان تعمیر کرنے کے لیے
دیا جائے گا۔ گاؤں والے یہ عجیب و غریب فیصلہ سن کر بغلیں جھانکنے لگے ۔
پاوتی
نیلیش نے ٹکٹ لیا اور ٹرین میں آکر بیٹھ گیا۔ پتہ نہیں کیوں اس نے موبائل
سے اس ٹکٹ کا فوٹو کلک کیا اور پھر بے خیالی میں اس کے ہاتھ سے ٹکٹ کہیں گر
گیا۔ اتفاق یہ ہوا کہ ٹی سی نے اسے دیکھتے ہی ٹکت طلب کر لیا۔ ٹکٹ تو نیلیش
کے پاس تھا نہیں، اس نے فوٹو دکھا کر بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ سر دیکھو
آج کی تاریخ کا ہی ٹکٹ ہے ۔ پر وہ نہ مانا۔ اسے ریلوے پولس چوکی لایا
گیااور پاوتی بنانے کے بجائے دو سو روپے دے کر رہائی کی بات کی گئی۔ نیلیش
چِڑ چکا تھا۔پاوتی تو دو، میں دو سو نہیں پورے دو سو اسی روپے دوں گا! پیسہ
جانا ہے تو گورنمنٹ کے کھاتے میں تو جائے ! تجھے کیوں دوں میں! اس نے ریلوے
پولس آفسر کو سخت لہجے میں جواب دیا۔ پولس والے نے رسید بُک اٹھائی اور
اسے گھورنے لگا۔
ایکسپریس
ارمان اکھڑ مزاج کا لڑکا ہے ۔ اپنے والدین سے تمیز سے بات کرتا ہے نہ
اساتذہ سے ۔ نعیم سر نے اسے گزشتہ ہفتے تین کام کرنے کے لیے دیے ، ان میں
کوئی ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں کیا۔ وہ اکثر ایسا ہی کرتا ہے ۔ نعیم سر کو
غصہ تو بہت آیا، لیکن معمولی سی ڈانٹ پلا کر خاموش ہو گئے ۔ ارمان نے
سامنے تو کچھ نہیں کہا، رات میں قریب تین بجے واٹس ایپ پر نعیم سر کو کئی
گز لمبا میسیج کیا، جس میں کرختگی کے ساتھ یہ بھی لکھاکہ آپ نے میرے ساتھ
صحیح نہیں کیا۔ مجھے آیندہ کوئی کام کرنے کو نہ کہیں۔ جس چیز کو میں درست
نہیں سمجھتا، اسے آپ کے سمجھانے کے بعد بھی درست نہیں سمجھوں گا۔ کلاس میں
اس پر ڈسکشں نہ کریں تو اچھا ہوگا۔ پتہ ہے استاذ کا بڑا مقام ہے ، لیکن میں
بنا ایکسپریس کیے نہیں رہ سکتا۔
تربیت
اسعد کے ابا کو ایک عرصے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے پڑوسی مولانا یامین
صاحب کے یہاں تعلیم بالغان کا نظام بڑی کامیابی کے ساتھ چلتا ہے ۔انھوں نے
اپنے بیٹے کو پڑھانے کی درخواست کرتے ہوئے مولانا سے کہا کہ اگر آپ اسعد
کو بھی پڑھائیں تو آپ کا شکر گذار ہوں گا۔ مجھے اپنے بیٹے کی تربیت کی بڑی
فکر ہے ۔ میں اسے اچھی سے اچھی تعلیم دلوانا چاہتا ہوں۔ مولانا نے اپنے
نظام اور اسعد سے متعلق کچھ باتیں کیں اور آیندہ ہفتے سے داخلہ لینے کے
لیے کہہ دیا۔ وہ شام کے وقت اپنے گھر میں کسی کام میں تھے کہ اسعد کے یہاں
سے زور زور سے آوازیں آنے لگیں۔ اسعد کے ابا گندی گالیاں دیتے ہوئے اپنی
بیوی سے مخاطب تھے : سمجھا لے اپنے لڑکے کو۔ ہر ٹائم اسے بائک منگتا ہے ۔
جب دیکھو ادھر ادھر کھالی پیلی پھرتا رہتا ہے ۔ میں آج مولانا سے بات کیا
ہوں۔ کل سے اس کو ادھر بھیج پڑھنے کو۔ میکو کوئی ناٹک نئیں منگتا اس
کا۔مولانا دل ہی دل میں سوچنے لگے، جو بچّہ اس طرح کے ماحول میں رات دن
رہتا ہو، اس کی ایک آڈھ گھنٹے میں کیا تربیت کی جا سکتی ہے؟ |