تحریر: ناصر محمود بیگ
زمانہ قدیم سے ہی گھوڑا ایک قیمتی اور کارآمد جانور کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ڈاک کا نظام ہو یا جنگ میں سپاہیوں کی سواری ہو،مال برداری ہو یا ذرائع
آمدو رفت کی بات ہو گھوڑا ہر جگہ ہی استعمال ہوتا رہاہے۔دور جدید میں سائنس
اور ٹیکنالوجی نے جہاں ہماری زندگی میں انقلاب آیا وہاں اس نے انسان کی
آمدورفت کا ذریعہ بھی بدل کر رکھ دیا ہے ۔گھوڑے کی جگہ آج اس سواری نے لے
لی ہے جو گھاس کھانے کی بجائے پیٹرول پیتی ہے۔چار ٹانگوں کی بجائے دو
ٹائروں پر دوڑتی ہے ․․․․․کیا سمجھے ․․؟․․․جی ہاں ․․․درست سمجھے ہیں آپ․․․․موٹر
سائیکل یا مو ٹربائیک کو دور جدید کا گھوڑا کہیں تویہ کچھ غلط نہ ہو گا۔
موٹر سائیکل کو ہم اگر تاریخ کے آئینے میں دیکھیں تو سب سے پہلے1884 میں
انگلینڈ کے ایڈورڈ بٹلر نے بٹلر پیٹرول سائیکل کا ڈیزائن تیار کیا اور اس
کہ نمائش میں پیش کیا۔پھر1885میں جرمنی میں ڈیملر نے ایک چھکڑا گاڑی
بنائی۔یہ تین پہیوں والی چھوٹی سی خود کارسائیکل پیٹرول پر چلتی تھی۔اس کو
تیار کرنے والے نے اسے ’’ریٹویگن ‘‘ (سواری والی کار )کا نام دیا۔کیونکہ یہ
تین پہیوں پر چلنے والی گاڑی تھی اس لیے کچھ تاریخ دان دو پہیوں والی بھاپ
پر چلنے والی سائیکل کو پہلی موٹر سائیکل قرار دیتے ہیں جو 1868ء میں فرانس
میں بنائی گئی تھی۔پھر 1894میں پہلی مرتبہ ایک کمپنی نے تجارتی پیمانے پر
باقاعدہ طور پر موٹر سائکل تیار کرنے کا کام شروع کیا۔بیسویں صدی کے آغاز
میں اس کی پیداوار میں اس وقت اضافہ ہوا جب جنگ عظیم اول میں اس کا استعمال
کیا گیا۔اس سواری کو محاذ جنگ پر سپاہیوں کی رسد کے لیے گھوڑوں کی جگہ
استعمال کیا جانے لگا۔ 1920کے بعد یہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔ٍترقی پذیر
ممالک میں یہ فیول کی بچت اور کم لاگت کے باعث بہترین اور مقبول ترین سواری
بن چکی ہے۔دنیا میں 58فیصد موٹر سائیکلیں صرف جنوبی اور مشرقی ایشیائی
ممالک میں استعمال ہوتی ہیں۔
موٹر سائیکل کی سواری ایک عام آدمی کے لیے کسی شاہی سواری سے کم نہیں
ہے۔سڑک پر ٹریفک جام میں جہاں کاروں اور بسوں کی اتنی لمبی قطار لگی
ہو،بائیک پرسوار آدمی اپنا رستہ بنا کر سب سے آگے نکل جاتا ہے۔اس کی خرید
اور فیول کا خرچ عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔جدید تحقیق بتاتی ہے کہ بائیک کی
سواری انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بھی کار کی نسبت زیادہ مفید ہے
کیونکہ اس کی ڈرائیونگ کے دوران آدمی ذہن کو مسلسل فیصلہ کرنے میں مصروف
رکھتا ہے۔یہ ڈیپریشن کا ایک قدرتی علاج ہے۔اس پر سوار ہو کر آپ ایسی جگہوں
پربھی جا سکتے ہیں جہاں کسی اور گاڑی کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔
اب اس کے خطرات کی بات کریں تو امریکہ کے ایک ٹرانسپورٹ ادارے کے2005کے
اعداد وشمار کے مطابق موٹر سائیکل سے ہونے والے جان لیوا حادثات کی شرح کار
کی نسبت چار گنا زیادہ ہے۔مگرہیلمٹ پہن کر اور ٹریفک کے اصول وضوابط پر عمل
کر کے ان حادثات سے بڑی حد تک بچا جاسکتا ہے۔موٹر سائیکل کے انجن سے زہریلی
اور مضر گیسوں کا اخراج کار کی نسبت 10-20گنا زیادہ ہوتا ہے۔ دنیا کے بہت
سے ملکوں میں یہ گاڑی ٹیکس اوررجسٹریشن کے قوانین کے دائرے میں آتی ہے۔دور
جدید کے اس گھوڑے کو اگر مناسب توجہ اور احتیاط سے چلایا جائے تو یہ ایک
موزوں ترین سواری بن ہے۔
|