تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
کہاوت ہے کہ کسی ملک کے بادشاہ کی بیٹی جو نہایت ہی بد تمیز بد اخلاق بے
رحم ہونے کے ساتھ ساتھ گھمنڈی تھی جس کے اس گھناؤ نے کردار کی وجہ سے کوئی
نوجوان اُس سے شادی کرنے کو تیار نہیں تھا جس کی وجہ سے بادشاہ کافی پریشان
رہتا تھا بالآ خر بادشاہ نے کافی سوچ بچار کے بعد ملک بھر میں یہ اعلان
کروا دیا کہ جو نوجوان میری بیٹی سے شادی کرے گا میں اُسے مالا مال کر دوں
گا یہ اعلان سن کر ایک نوجوان بادشاہ کے حضور پیش ہو کر کہنے لگا کہ میں آپ
کی بیٹی کے ساتھ شادی ضرور کروں گا لیکن آ پ کو شادی کی رخصتی کے دوران
دولت کے علاوہ چار جانور جس میں مرغا گدھا بھینس اور گھوڑا شامل ہیں کے
علاوہ ایک تلوار دینا ہو گی یہ سننے کے بعد بادشاہ نے اپنی بیٹی کی شادی کی
رخصتی کے دوران دولت کے ساتھ ساتھ یہ چاروں جانور اور ایک تلوار مذکورہ
نوجوان کو دے دی جس پر مذکورہ نوجوان اپنی بیوی کے ہمراہ گھوڑے پر سوار ہو
کر واپس اپنے گھر کی جانب چل دیا کہ اسی دوران مذکورہ نوجوان نے اپنی بیوی
کو کہا کہ یہ چاروں جانور آپ کے میکے کی جانب سے ملے ہیں لہذا تم انھیں
اچھی طرح سمجھا دو کہ میں اونچی آ واز سننے کا عادی نہیں ہوں اور اگر کوئی
میرے ساتھ اونچی آواز میں بات کرتا ہے تو میں اُس کا سر تن سے جدا کر دیتا
ہوں یہ سننے کے بعد شہزادی نے بڑے غور سے اپنے خاوند کو دیکھا یہ بات ابھی
ہو رہی تھی کہ اسی دوران مرغے نے اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا جس پر
مذکورہ نوجوان نے تلوار سے اُس مرغے کا سر تن سے جدا کر دیا اس واقعے کے
چند گھنٹوں بعد گدھے نے بھی اُونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا جس پر
مذکورہ نوجوان نے تلوار سے اُس گدھے کا سر تن سے جدا کر دیا جس کو دیکھ کر
شہزادی یعنی کہ مذکورہ نوجوان کی بیوی ذرا سہم گئی قصہ مختصر کہ مذکورہ
مذکورہ نوجوان نے اُونچی آواز نکالنے پر تلوار کے ذریعے بھینس اور گھوڑے کا
سر تن سے جدا کر کے اپنے گھر واپس پہنچ گیا گھر پہنچ کر مذکورہ نوجوان نے
اپنی بیوی کو کہا کہ اُونچی آواز نکالنے پر ان چاروں جانوروں کا انجام تم
بخوبی جانتی ہو لہذا تمھیں بھی اُونچی آواز میں بات کرنے کے بجائے گھریلو
کام کاج کے ساتھ ساتھ میرے اور میرے دیگر گھر والوں کے ساتھ دھیمی آواز میں
بات کرنا ہو گی ورنہ اس کا انجام تم بخوبی جانتی ہو کچھ عرصہ کے بعد بادشاہ
کو اپنی بیٹی کی یاد آئی تو وہ اُسے ملنے کیلئے اُس کے گھر آ گیا جہاں پر
اُس نے دیکھا کہ اُس کی مغرور بیٹی ہر ایک کے ساتھ حسن و سلوک سے پیش آ رہی
تھی جس کو دیکھ کر بادشاہ نے بڑے تعجب کے ساتھ اپنے داماد سے پوچھا کہ میری
بیٹی میں یہ تبدیلی کیسے آ گئی جس پر مذکورہ نوجوان نے مسکراتے ہوئے بادشاہ
کو عرض کرتے ہوئے کہا کہ یہ بس ڈر اور خوف کا نتیجہ ہے بالکل اسی طرح کاش
میرے ملک کے صدر عارف حسین علوی وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ ارکان قومی
اسمبلی اور بالخصوص اپوزیشن لیڈر ملکر ملک وقوم کی بقا کے حصول کی خا طر
ایسا نیا قانون نافذ کریں کہ جس کے ڈر اور خوف سے ہمارے ملک کے ضلعی حاکمین
جن میں زیادہ تر تعداد اُن ضلعی حاکمین کی ہے جو اقتدار کے نشے میں دھت ہو
کر اپنے آپ کو ہلاکو خان اور چنگیز خان سمجھتے ہوئے اپنے اپنے علاقے کی
غریب اور بے بس عوام کے بنیادی حقوق کا قتل عام کر کے لوٹ مار ظلم و ستم
اور ناانصافیوں کی نت نئی تاریخ رقم کر کے لوٹی ہوئی رقوم کا بے دریغ خرچ
کرنے میں مصروف عمل ہیں تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ میں
گزشتہ دنوں ایک دوسرے اضلاع میں اپنے ایک قریبی دوست کی ساڑھی شاپ پر بیٹھا
تھا کہ اسی دوران ایک ضلعی حاکم کی اہلیہ جو کہ کروڑوں روپے مالیت کی گاڑی
پر سوار ہو کر اپنے گن مین پولیس اہلکاروں کے ہمراہ ہو کر آ گئی جہاں پر
اُس نے بڑے تکبرانہ انداز میں میرے دوست کو کہا کہ مجھے کوئی ایسی ساڑھی
قیمت کی پرواہ کیے بغیر دے دو جو افتتاحی تقریب کے دوران کسی اور خاتون نے
نہ پہنی ہو یہ سننے کے بعد میرے دوست نے اُسے متعدد ساڑھیاں دکھائی لیکن آ
خر میں میرے دوست نے انڈیا کی ساڑھی دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ اس قدر مہنگی ہے
کہ آپ کو افتتاحی تقریب کے دوران کسی اور خاتون نے اسے زیب تن نہیں کیا ہو
گا یہ سننے کے بعد اُس نے وہ ساڑھی ڈیڑھ لاکھ روپے کے عوض خرید کر بڑی شان
و شوکت کے ساتھ وہاں سے چلی گئی جس کے جانے کے بعد میں نے اپنے دوست سے کیا
کہ تم نے تو مذکورہ ساڑھی پانچ ہزار روپے کے عوض خریدی اور اب اُسے ڈیڑھ
لاکھ روپے عوض فروخت کر دی تم نے ایسا ظلم کیوں کیا جس پر میرے دوست نے
مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اس کے خاوند نے کونسی محنت مزدوری کر کے یہ دولت
حاصل کی ہے اس نے بھی تو ہمارے خون پسینے کی کمائی کو لوٹ کر حاصل کی ہے
بالکل اسی طرح ہمارے ملک کے تاجر ز جو اپنے ماتھے پر ایمانداری کا ٹکہ سجا
کر اشیائے خوردنوش ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی قلت کے بعد مذکورہ ذخیرہ
اندوز اشیائے خوردنوش منہ مانگے داموں فروخت کر کے غریب عوام کو زندہ درگور
کرنے میں مصروف عمل ہیں اور بالکل اسی طرح ڈاکٹرز اپنا غنڈہ راج قائم کرنے
کی خا طر احتجاج کے ذریعے حکومت پاکستان کو بلیک میل کر کے زندگی اور موت
کی کشمکش میں مبتلا غریب مریضوں کی زندگیوں سے کھیل کر انسانیت کی تذلیل
کرنے میں مصروف عمل ہیں بالکل یہی کردار ہمارے ملک کے علمائے دین کا ہے جو
اپنی زندگی سنت نبوی کے مطا بق گزارنے اور بالخصوص مذہب اسلام کو فروغ دینے
کے بجائے اپنا قد کاٹھ بڑا رکھنے کیلئے مذہبی فسادات کروا کر کئی جانوں سے
کھیلنے کے بعد انسانیت اور بالخصوص مذیب اسلام کے نام پر ایک بد نما داغ بن
کر رہ گئے ہیں اور بالکل یہی کیفیت ہمارے ملک کے لا تعداد مفاد پرست سیاست
دانوں اور بیورو کریٹس کی ہے جو ڈریکولا کا روپ دھار کر ملک و قوم کا خون
چو سنے میں مصروف عمل ہیں جن کے اس گھناؤنے اقدام کی وجہ سے ملک و قوم دن
بدن تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہو کے بجائے پسماندگی کی راہ پر گامزن ہو
کر رہ گئی ہے قصہ مختصر کہ جو اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کے
پیکر بن کر ادا کرتے ہوئے نظر آ ئے لیکن افسوس آج ہمارے ملک میں تقریبا
بہتر سال گزرنے کے باوجود انگریزوں کا بنایا ہوا آ سودہ قانون جو محض ایک
جالے کی حیثیت رکھتا ہے جس میں چھوٹے کیڑے مکوڑے تو پھنس جاتے ہیں لیکن بڑے
جانور اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں جس کا واضح ثبوت انسانیت کا قاتل ریمنڈ
ڈیوس گستاخ رسول جہنیں ہماری معزز عدالت نے سزائے موت کا حکم سنایا تھا و
دیگر قومی لٹیرے اسحاق ڈار نواز شریف حسن نواز اور بالخصوص آ صف علی زرداری
جو متعدد بار اقتدار میں رہنے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خاندان
کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے سر فہرست ہیں مختلف
بیماریوں کا بہانہ بنا کر لوٹی ہوئی دولت سمیت بیرون ملک رفو چکر ہو جاتے
ہیں جبکہ دوسری جانب ہمارے ملک کی لا تعداد جیلوں میں غریب قیدی مختلف موذی
امراض میں مبتلا ہو کر بے بسی و لا چارگی کی موت مر رہے ہیں یہی کافی نہیں
ملک بھر کی طرح بلدیہ جھنگ میں ڈیلی ویجز پر بھرتی ہو نے والے غریب خاکروب
جو بیس پچیس سال گزرنے کے باوجود تاحال کنفرم ہونے سے قاصر ہیں جہنیں ہر
دور حکومت میں یہاں کے مفاد پرست سیاست دان اور بلدیہ جھنگ کے ارباب و
بااختیار کٹ پتلی کا ناچ نچا کر ان کی غربت اور بے بسی کا مذاق اُڑاتے ہوئے
نظر آتے ہیں یہ کیسا انصاف ہے اور کیسا قانون جو غریب کیلئے اور اور بااثر
لٹیروں کیلئے اور ہو لہذا حکومت وقت کا چاہیے کہ وہ ملک و قوم کی بقا کے
حصول کی خا طر ایسا قانون نافذ کرے جو امیر اور غریب سب کیلئے یکساں ہو - |