تعلیم و تعلم، معلم و طالب کی اہمیت، فضیلت و عظمت جس
انداز میں اسلامی تہذیب میں پائی جاتی ہے اس نظیر نہیں ملتی، تعلیم و تربیت
اور درس و تدریس اس کا جزولاینفک ہے، پہلا لفظ جو آقا محمدؐ کے قلب مبارک
پر نازل فرمایا گیا وہ اقرا ہے یعنی پڑھ، جس سے علم و قلم کی اہمیت کا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں حصول علم کے اصولوں سے
ماورا اقدامات اپنائے جانے کا رواج ہے نہ درس و تدریس کی اہمیت کو سمجھا
جاتا ہے نہ ہی اپنی ذمہ داری کا احساس ہے اگر ہمارے معاشرے کا سطحی جائزہ
لیا جائے تو وائٹ کالر طبقے نے اپنے مفادات کی خاطر علم جیسے عظیم شعبے کو
بھی نہ بخشا اور اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھادیا، کسی بھی قوم تربیت و ترقی
اسی شعبے سے وابستہ ہے لیکن جو کھیلواڑ پاکستان میں تعلیم و تعلم کیساتھ
کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا
کہ ''طلبہ قوم کے مستقبل کے معمار ہیں'' لیکن ہمارے وائٹ کالر طبقے کے
مفادات کی نذر ہوکر ہم نے طلبہ کو قوم کے مستقبل کے بیمار بنتے دیکھا اور
دیکھ رہے ہیں اگر کسی چیز نے سب سے زیادہ قوم کے مستقبل کے معماروں کو
نقصان پہنچایا تو وہ سیاست و یونینزم Unionism نے پہنچایا، ہائی اسکول،
کالج اور یونیورسٹیاں سیاست کا اکھاڑہ بن کر رہ گئی تھیں جہاں سے قوم کے
مستقبل کے معمار کم اور سیاسی پارٹیوں کے کارٹون زیادہ نکلنے لگے، طلبہ
یونینز کی منفی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوے ریاست کی طرف سے مجبوراً ان پر
پابندی کے اقدامات اٹھانے پڑے جس کے بعد سے تعلیمی اداروں میں تعلیمی زندگی
بحال ہوتی جارہی ہیں جو زبردستی کے لیڈروں و دانشوروں سے ہضم نہیں ہورہی
اور آجکل آسمان سر پہ اٹھایا ہوا ہے کہ طلبہ یونینز کو بحال کرو، اس ضمن
میں اچانک سے ملک کے کچھ شہروں میں ڈسکو ٹائپ ریلیاں برآمد ہوئیں جو حلیے
سے طلبہ تو بالکل نہیں لگ رہے تھے ان کی حرکتوں سے یہ لوگ طلبہ کم ڈسکو
زیادہ لگ رہے تھے اور دلچسپ ترین بات یہ کہ کچھ زبردستی کے دانشور، سیاسی و
سماجی رہنما بھی انکے ہم آواز نظر آئے، گردان کی جارہی ہے کہ طلبہ یونین
بحال کرو بطور دلیل پیش کی جارہی ہے کہ طلبہ یونین نے ملک کو نظریاتی سیاست
اور حقیقی قیادت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے یہاں تک مبالغہ آرائی
کی جارہی ہے کہ ملک کو درخشندہ ستارے فراہم کیے جوکہ انتہائی سفید جھوٹ اور
تاریخ کی سب سے بڑی ڈھٹائی ہے اگر اس دعوے کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ
ملکی صورتحال ہی کافی ہے کہ کوئی ایک بھی لیڈر ایسا نہیں جس پر قوم فخر
کرسکتی ہے، طلبہ یونین کی بحالی کے حامی کم از کم ایک فرد کو پیش کردیں کہ
اس سے قوم کو فائدہ پہنچا ہو، قوم کا تو یہ عالم ہے کہ لیڈر کا نام سنتے ہی
کانپ اٹھتی ہے، طلبہ یونین کے کردار پر نظر ڈالی جائے تو اس کے بطن سے
سوائے نفرتوں، تعصب، شدت پسندی، لسانیت کے کچھ اور حاصل نہ ہوا، سندھ
یونیورسٹی ماضی میں طلبہ یونین و طلبہ سیاست کا گڑھ رہی ہے جہاں کا یہ عالم
تھا کہ آئے دن بائیکاٹ، بلیک میلنگ، بھاری تصادم، بھتہ خوری، کاپی کلچر،
رعایتی پاس کروانا عام تھا، تصادم کے نتیجے میں متعدد افراد قتل ہوچکے حتیٰ
کہ اساتذہ بھی ان یونیوں کے عتاب سے بچے نہ رہے، اس کے علاوہ اسلامیہ
یونیورسٹی بہاولپور کی مثال لے لیں انجمن طلبہ اسلام کے نام پہ کارٹونوں نے
کیا نہیں کیا جب ان کی بلیک میلنگ و داداگیری کو وائس چانسلر قیصر مشتاق نے
چیلنج کیا تو ان کی داداگیری کا یہ عالم تھا کہ قیصر مشتاق صاحب پر حملہ
کردیا گیا جسے سیکیورٹی گارڈوں نے بمشکل بچایا، قائداعظم یونیورسٹی میں
بلوچ پشتون، پنجابی سندھی، پنجابی بلوچ لسانیت کے نام پر تصادم کسی سے ڈھکے
چھپے نہیں، خیبرپختونخواہ میں وہ کونسا دن تھا جو تعلیمی اداروں میں امن سے
گزرتا ہو، کراچی کا ذکر تو کسی تعرف کا محتاج نہیں، میں خود طلبہ ونگز و
یونینوں کی انتہائی منفی سرگرمیوں کا عینی شاہد ہوں جن میں بھتہ خوری، ریپ
کلچر، نپوٹزم، لسانیت، جھگڑے فساد، نفرتیں و تعلیمی تباہی سرفہرست ہیں،
مختلف یونیورسٹیز میں ہاسٹلوں پہ ان یونینوں کے قبضے اور اس کا منفی
استعمال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، ان یونینوں پہ پابندی کے بعد سے
یونیورسٹیاں و دیگر تعلیمی ادارے آہستہ آہستہ تعلیمی ترقی کی طرف بڑھ رہی
ہیں تو اچانک سے طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ نوجوان نسل کو تباہ کرنے کا
منصوبہ ہی ہوسکتا ہے، تعجب کی بات ہے کہ طلبہ کو یونین کی بحالی سے کوئی
دلچسپی نہیں اور پابندی سے کوئی پریشانی نہیں جبکہ پیٹ میں مروڑ صرف چند
سیاسی و لسانی جماعتوں کو ہے جن کی وہ واقعی نرسری تھیں وہاں سے ان جماعتوں
کو کارکن مل جاتے تھے جو ملک و قوم کے لیے سیاسی کارکن کم سیاسی کارٹون
زیادہ ثابت ہوتے تھے طلبہ یونین پر پابندی کے باعث ان سیاسی جماعتوں کو
کارکن ملنا کم ہوگئے ہیں جو ان کے لیے انتہائی پریشان کن ہے، قائد اعظم نے
ڈھاکہ میں نوجوان طلبا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’میرے نوجوان دوستو! میں
آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے
تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہوگی، یاد رکھیے کہ اب ایک انقلابی تبدیلی
رونما ہوچکی ہے یہ ہماری اپنی حکومت ہے ہم ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے
مالک ہیں لہٰذا ہمیں آزاد اقوام کے افراد کی طرح اپنے معاملات کا انتظام
کرنا چاہیے اب ہم کسی بیرونی طاقت کے غلام نہیں ہیں ہم نے غلامی کی بیڑیاں
کاٹ ڈالی ہیں‘‘ بابائے قوم طلبہ کی سیاسی وابستگی کے سخت مخالف تھے اور ہم
طلبہ سیاست کے نقصانات کے تجربے سے گزر بھی چکے ہیں بنگلہ دیش اسی طلبہ
سیاست کا نتیجہ تھا اس کے علاوہ سندھ میں سندھو دیش علیحدگی تحریک کے لیے
تعلیمی ادارے ہی نرسری بنتے آئے ہیں، الذوالفقار بھی طلبہ یونین کے بطن سے
ہی اٹھی، اب جیسا کہ ملک کے تعلیمی ادارے منفی سوچ و سرگرمیوں سے پاک ہوتے
جارہے ہیں تو سازشی و سماج دشمن عناصر سے یہ بات کیسے برداشت ہوسکتی ہے،
اور اب طلبہ کے نام پر ایک نئی سازش کو متعارف کیا جارہا ہے لہذا اب ماضی
کے تجربات اور حقیقت کے مطابق بجائے طلبہ یونین بحالی کے حکومت و دانشوروں
کو طلبہ کے لیے بہتر سہولیات، مواقع اور آسانیاں مہیا کرنی چاہئیں، طلبہ کو
سیاست کی نذر کرنے کی بجائے اساتذہ و تعلیمی اداروں میں ایسا نظام متعارف
کیا جائے جس سے طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی ہو جیسا کہ
امام غزالیؒ طلبہ کے اخلاق و کردار کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ ''طلبہ کو
چاہئے کہ وہ بُرے اخلاق و عادات سے احتراز کریں، تعلقات مختصر رکھیں، گھر
سے دور رہیں تاکہ حصول علم کے مواقع زیادہ ملیں، غرور و تکبر سے بچیں،
اساتذہ کے ساتھ حاکمانہ برتاؤ نہ کریں، بلکہ اساتذہ کے سامنے اپنے آپ کو اس
طرح ڈال دیں، جس طرح کے مریض اپنے آپ کو ڈاکٹر کے حوالہ کر دیتا ہے'' تب ہی
ہم دیگر اقوام کی طرح ترقی و خوشحالی کو یقینی بناسکتے ہیں۔
|