تحقیق کا مرحلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ہر تحقیق کے بعد
کوئی نئی تحقیق سامنے آجاتی ہے۔ اور یہ کوئی برا فعل یا امر نہیں ہے۔ انسان
اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق
تحقیق کے میدان میں اپنا کردار ادا کرتا رہتا ہے اور نت نئی تحقیقات سے
دنیا کو روشناس کراتا رہتا ہے۔ تاریخی نوشتوں کے مطابق چند سو سالوں پہلے
تحقیق کا میدان مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا۔ گزشتہ زمانے میں کئی صدیوں تک
مسلمانوں کا علمی عروج رہا ہے۔ مسلمانوں نے سائنس سمیت متعدد شعبوں میں
انتہائی اہم دریافتیں اور ایجادات کی ہیں۔ لیکن بعد کے دور کا المیہ یہ رہا
کہ ان دریافتوں میں مزید پیش رفت کی کوششیں نہیں کی گئیں اور نہ ہی اب کی
جارہی ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کاتعلیمی عروج زوال کی طرف گامزن ہے ۔
تعلیم و تحقیق کے شعبہ سے عدم دلچسپی کی وجہ سے مسلمانوں کو غیروں کی غلامی
کا طوق پہننا پڑرہاہے۔ جن شعبہ جات میں مسلمان اپنی ایک شناخت رکھتے تھے
بدقسمتی سے آج وہ اپنی شناخت کھو چکے ہیں۔ تاریخی آثار و احوال سے اس کی
متعدد وجوہات سامنے آتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ مسلمان عیاشیوں میں پڑگئے اور
تعلیمی میدان خالی چھوڑدیا۔ دوسرا یہ کہ آباء واجداد اور اکابرین کی
تحقیقات کو حرفِ آخر سمجھ لیا گیا۔ تیسرا یہ کہ ان تحقیقات میں مزید پیش
رفت کرنے کی کوششیں نہیں کی گئیں۔ ان وجوہات کے علاوہ بھی متعدد وجوہات
تاریخ کے صفحات میں مرقوم ہیں۔ ایک وقت تھا کہ نوجوان دورانِ طالب علمی میں
ہی اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کی کوشش و جدد جہد میں مصروف ہوجاتے تھے۔
لیکن آج تعلیم کا اصل مقصد ناپید ہوچکا ہے اور تعلیم کی اصل روح مفقود ہوکر
رہ گئی ہے۔دورِ حاضر کے نواجوانوں میں تحقیق صلاحیتوں کا فقدان ہے ۔ تعلیمی
جستجو محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔
تعلیمی اداروں میں مروجہ نصاب تحقیقی اور جدید زمانے کے اصولوں سے مزین
نہیں ہے۔ بعض اساتذہ کی لاپرواہی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کی وجہ سے
نوجوانوں میں تحقیقی صلاحیتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ اعلیٰ ذہنیت کے حامل
طلبہ بھی اپنی ذہنی صلاحیتوں کو تحقیقی میدان میں بروئے کار لانے سے محروم
رہ جاتے ہیں اور ان کی صلاحیتیں ماند پڑجاتی ہیں۔ اساتذہ کا طریقہ تدریس
طلبہ میں تحقیقی و تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بہت اہم کردار ادا
کرتا ہے۔ بد قسمتی سے تعلیمی درسگاہوں میں اساتذہ بھی غورو فکر کرنے کی
دعوت نہیں دیتے جس کی وجہ سے طلبہ میں غور و فکر کرنے کی صلاحیت ختم ہورہی
ہے۔ تعلیمی اداروں میں صرف چند مخصوص اسباق پڑھانے کا روایتی طریقہ ٔ تدریس
جاری ہے۔ اس روایتی طریقۂ تدریس کے باعث تعلیم کا اصل مقصد فوت ہوکر رہ گیا
ہے۔ اساتذہ میں تعمیری و تخلیقی سوچ کے فقدان کی وجہ سے طلبہ بھی اعلیٰ سوچ
و فکر کی نعمت سے محروم ہیں۔ تعلیمی درسگاہوں میں نصابی کتابوں کے علاوہ
غیر نصابی کتابوں کے مطالعہ کی طرف رغبت نہیں دلائی جاتی ۔ نصابی کتابوں
میں موجود اسباق پڑھنا اور اسے رٹ کر امتحان میں کامیابی حاصل کرنا اصل
مقصد سمجھ لیا گیا ہے۔ نوجوانوں میں نقل اور کاپی پیسٹ کا کلچر عام ہورہاہے۔
کسی بھی معاملہ میں تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہ کہنا غلط نہیں
ہوگا کہ تعلیم کا اصل مقصد صرف ڈگری کا حصول اور پیسہ کمانا رہ گیا ہے۔
گلوبلائزیشن کے دور میں انٹر نیٹ کے ذریعے پوری دنیا کے متعلق معلومات حاصل
کرناکوئی مشکل نہیں ہے۔ یقیناتحقیق کے لیے موبائل، لیپ ٹاپ اور انٹر نیٹ
وغیرہ کا استعمال بہت مفید اور کارآمد ہے لیکن نوجوانوں میں جدید ٹیکنا
لوجی کا استعمال منفی راہ اختیار کرچکا ہے۔ طلبہ اپنا قیمتی وقت غیر ضروری
اور لایعنی کاموں میں صرف کردیتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر گھنٹوں ضائع
کردیتے ہیں جس کے باعث ذہنی صلاحیتوں کا مثبت استعمال نہیں ہوتا۔ انٹر نیٹ
کے منفی استعمال نے نوجوانوں کی ذہنی و فکری استعدادکو بانجھ کرکے رکھ دیا
ہے۔ سوشل میڈیا سے ان کا لگاؤ جنون کی حد تک ہوگیا ہے۔ جتنا وقت طلبہ انٹر
نیٹ پر غیر ضروری کاموں میں ضائع کردیتے ہیں ‘ اگر وہ اس کا آدھا وقت تعلیم
کے مقصد میں لگانا شروع کردیں تو اس کے نتائج حد سے زیادہ مفیدثابت ہوں گے۔
تعلیم و تحقیق کی اہمیت اور ضرورت سے انکار ناممکن ہے۔ ابتدائے آفرینش سے
لے کر آج تک کوئی بھی قوم بغیر تعلیم کے ترقی حاصل نہیں کرسکی۔ مہذب اور
متمدن معاشرہ کا قیام تعلیم ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں تعلیم و
تحقیق کا شعبہ انحطاط او ر تنزل کا شکار ہے۔ نوجوانوں میں تحقیقی و تخلیقی
عمل جمود کا شکار ہے۔ ان کی سوچ و فکر محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ طلبہ نے مروجہ
قدیم تعلیمی نصاب کو ہی اپنی منزلِ مقصود سمجھ لیا ہے۔ درحقیقت تعلیم کا
حصول آخری منزل نہیں ہے بلکہ تعلیم تو تحقیق و تخلیق کی منزل تک پہنچنے کی
پہلی سیڑھی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد محض امتحان میں کامیابی حاصل کرکے
آگے بڑھنا نہیں بلکہ تعلیم کا مقصد سیکھنا، اس پر عمل کرنا اور اس میں
غوروفکر کرنا ہے۔ غور وفکر کرنے سے ہی راہیں کھلتی ہیں اور مثبت سوچیں
پروان چڑھتی ہیں ۔ تعلیم کے آگے تحقیق اور تخلیق کے مراحل آتے ہیں ۔
نوجوانوں کا مائنڈ سیٹ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ا ن کے افکار کو پاکیزہ اور مثبت
کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے اندر تعمیری اور تخلیقی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
نوجوان طلبہ کو ابتداء ہی سے جدید علوم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کی ضرورت
ہے۔ بے شک ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی تعلیم و تحقیق پر منحصر ہے۔ جب
نوجوان طلبہ اپنی سوچ و فکر کو مثبت دائرے میں لے جائیں گے تو تحقیق کے
میدان میں پیش رفت ہوگی جس کے سبب تخلیقی اور تعمیری میدان میں قدم رکھنے
کے مواقع ملیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی میدان بہت وسیع اور لامحدود ہے۔ اس کی حدوں
کا تعین نا ممکن ہے۔ انسان جس قدر تحقیق کے میدان میں پیش قدمی کرتا رہے گا
‘ اس کے لیے علم کے جدید گوشے اور پہلو سامنے آتے چلے جائیں گے۔ علم کی
دنیا میں تحقیق کا میدان عبور کرنے کے بعد تخلیق کا میدان شروع ہوتا ہے۔
لہٰذا علم کے شعبہ پر توجہ دینے کے بعد نوجوانوں میں تحقیقی اور تخلیقی
صلاحیتوں کا رجحا ن پیدا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات ہونا ضروری ہیں۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ دیگر شعبہ جات کی طرح تعلیم کے شعبہ کے لیے بھی
بجٹ کا بہت بڑا حصہ مقرر کرے۔ تعلیم کے شعبے میں ترقی کی راہ میں سب سے بڑی
رکاوٹ فنڈ کی کمی ہے۔ ملک و قوم کی ترقی کے لیے حکومتی سطح پراعلیٰ معیار
کے تعلیمی اداروں میں جدید سہولیات کی فراہمی ضروری ہے تاکہ طلبہ تھیوری کے
ساتھ ساتھ پریکٹیکل بھی کرسکیں اور ان کے لیے مزید تحقیقات کرنے کی راہیں
ہموار ہوسکیں ۔ اعلیٰ ذہنی صلاحیت کے طلبہ کی سرپرستی حکو متی سطح پر ضروری
ہے۔ بعض طلبہ کے اندر آگے بڑھنے کی صلاحیت اور جذبہ تو ہوتا ہے لیکن وہ
معاشی تنگی کے باعث پیچھے رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا ایسے بچوں کی سرپرستی حکومتی
سطح پر ہونی چاہیے۔ ملک کی ترقی کے لیے سنجیدگی سے تعلیم و تحقیق کے شعبہ
پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی ان خطوط پر کرنی چاہیے
جو ہمارے قومی مزاج کے مطابق ہوں اور ہماری تاریخ اور اسلامی ثقافت سے ہم
آہنگ ہوں۔ اس کے علاوہ موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنا نظام تعلیم اور
نصاب ترتیب دینا چاہیے۔
دورِ جدید کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے اکابرین کی محنت کی قدر کریں کیونکہ
ہماری تنزلی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کی تحقیقات و تخلیقات کی
قدر نہیں کی اور ان کے علمی سرمایہ کو گنوادیا۔ اس بات کو علامہ اقبال اپنے
شعر میں اس طرح پیش کرتے ہیں:
گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اسلاف کی میراث کی قدر صرف چرچا کرنے ، شور مچانییا
ڈھنڈورا پیٹنے سے نہیں ہوتی ۔ اسلاف کی میراث کی قدر صرف یہ گن گانے سے
نہیں ہوتی کہ ہمارے اکابرین نے فلاں فلاں کارنامے انجام دیے ہیں اور ہمیں
ان پر فخر ہے۔ وہ ہمارا سرمایہ ہیں۔ بے شک وہ ہمارا سرمایہ ہیں ، ان کے
کارنامے قابلِ فخر ہیں لیکن صرف گن گاکر وقت کے تقاضوں کو پورا نہیں
کیاجاسکتا ۔ علامہ اقبال نے بھی اپنے دور میں جب مسلمانوں کا یہ طرزِ عمل
دیکھا کہ وہ عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے اسلاف کی کاوشوں پر محض فخریہ
گیت گارہے ہیں تو علامہ اقبال نے ایک شعرمیں اس طرح تنقیدی کی کہ:
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
یعنی اگر پچھلے زمانے میں ہمارے آباء و اجداد اور اکابرین نے تحقیقات میں
لوہا منوایا تو ہم اس تحقیق میں مزید پیش رفت کیے بغیر صرف اسی لکیر کو
پیٹے ہوئے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد نے بہت کام کیا اور ہمیں اس پر فخر ہے
۔ علامہ اقبال اسی پر تنقید کرتے ہیں کہ اسلاف نے جو کارنامے انجام دینے
تھے‘ دے دیے۔ لیکن اب تم کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے ہو۔ علامہ
اقبال کے اس شعر سے سبق ملتا ہے کہ جس طرح انہوں نے اپنی قابلیت کا لوہا
منوایا تھا تو تم کیا کررہے ہو؟لہٰذا ، تم بھی تعلیم کے میدان میں ان کی
سوچ و فکر کو آگے بڑھاؤ اور اپنی قابلیت کا لوہا منواؤ اور ملک و قوم کو
ترقی کی راہ پر گامزن کرو۔
|