لال لال لہرائے گا
تبھی توانقلاب آئے گا
کوئی بھی جنگ ہوتحریک ہو،مظاہرہ ہویادھرناہوطلباء کی پاورکے
بناپوراہوناممکن ہی نہیں اسی لیے کوئی تحریک اٹھا کے دیکھیں توپتاچلتاہے کہ
طلباء کے بنا کوئی ہرتحریک سونی و ناکام رہی اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ طلباء
جس بات کومنوانے کی کوشش کریں یہ ہونہیں سکتاکہ وہ نہ منواسکیں اورپاکستانی
تاریخ میں آمریت کے خلاف وہ سماجی ہوں یاطلباء حقوق کی جدوجہدمیں ترقی
پسندطلبہ تنظیمیں ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں۔پہلی بارسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کی
چھتری تلے اتنی بڑی تعداد میں اکٹھی ہوئی ہیں اور29نومبرکے ملک گیراحتجاجی
مظاہروں نے توپھرسے ثابت کردیاکہ 68کی تحریکیں بھی ایسی ہی ہوں گی میں
اگراپنی بات کروں تومیں نے اپنی30سالہ زندگی میں طلباء کے اتنے بڑے مظاہرے
نہیں دیکھے بی بی سی رپورٹ (PSC)تنظیم کے بانیوں نے بتایاکہ اس تنظیم
کاآغاز 2016میں ہواجب چندطلباء نے ایک ساتھ بیٹھ کرایک سٹڈی سرکل یامطالعہ
کرنے کیلئے گروپ بنایاانہوں نے بتایاکہ اس گروپ میں شامل طلباء نے مختلف
موضوعات پرکتابیں اورفلسفہ پڑھاتوہم میں تنقیدی رجحان پیداہوااورہم نے سوال
کرناشروع کردیاکہ ہم نے پڑھ لیاورتنقیدکرناجان گئے ہیں اورہمیں معلوم
ہوگیاکہ مسئلہ کیاہے اورہم نے کیاکرنا ہے اس پرہم نے سرکاری تعلیمی اداروں
میں آواز بلندکرنے کیلئے اوراپناپیغام پہنچانے کیلئے سٹڈی سرکل بنانا شروع
کردیئے اوراڑھائی سال کے کم عرصہ میں 500چھوٹے بڑے احتجاج بھی ریکارڈ
کروائے توجب ہم نے دیکھاہم نہیں اورطلباء تنظیمیں بھی کررہی ہیں توہم نے مل
کربڑھے احتجاج کافیصلہ کیاتاکہ لوگوں کے جذبات اورمطالبات کی عکاسی اس
احتجاج میں نظرآسکے ۔ان کے اس بیان سے یہ تو پتہ چلتاہے کہ
پروگرایسیوسٹوڈنٹ کلیکٹیوتنظیم 2016کی ہے مگرطلباء کے مظاہرے احتجاج نئی
بات نہیں اورمجھے جیسے یادپڑھاہے کہ آج تک جتنے احتجاج ہوئے طلباء کوساتھ
ملاکرہرسیاستدان اپنا’’الوسیدھاکرتارہاہے اوران کے مطالبات کی لائن لگتی
گئی ہرتحریک میں آگے طلباء نظرآتے ہیں مگرآہستہ آہستہ ان کوپیچھے
کردیاجاتاہے مگرآج کے طلباء استعمال نہیں ہونگے ۔اس مارچ کے حوالے سے میری
بات سرائیکی سٹوڈنٹس کونسل یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈٹیکنالوجی کے
عہدیداران سے ہوئی جن میں ملک شہباز چیئرمین ،جام محمداحمدجنرل
سیکرٹری،مرادخان ،راؤف خان پتافی نے بتایا کہ آج نصف صدی کے بعد طلباء
تحریک عروج پکڑرہی ہے یکجہتی مارچ کے حوالے سے 2نومبر2019کو مشاورتی میٹنگ
ہوئی تھی جس میں پاکستان سمیت گلگت اورکشمیرکی طلبہ تنظیموں نے شرکت کی
اورمیزبانی )PSCنے کی اوراسی میٹنگ میں سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی بنیادرکھی
تاکہ اپنے مطالبات کیلئے قدم اٹھایاجاسکے تاکہ حقیقی معنوں میں انسانی
معاشرہ کاقیام ممکن بنایاجاسکے۔ابھی تک سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کے
اندرجوتنظیمیں شامل ہیں ان کی فہرست یہ ہے ۔پراگریسوسٹوڈنٹ کولیکٹو،انقلابی
محاذ طلباء،پروگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن،بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن،آل گلگت
بلتستان موومنٹ،بلتستان سٹوڈنٹس فیڈریشن،جموں کشمیرنیشنل سٹوڈنٹس
فیڈریشن،جموں کشمیرسٹوڈنٹس لبیرشن فرنٹ،پیپلزسٹوڈنٹس فیڈریشن،پیپلزیوتھ
آرگنائزیشن،کونیکٹ دی ڈس کونیکٹ،پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن آزاد،بلوچستان
سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی،ہزارہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن،پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس
فیڈریشن،سندھ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اوربے روزگار نوجوان تحریک نے مشترکہ
لائحہ عمل کے بعد مزمل خان کومرکزی کنوینئر،موہبہ احمد،کامریڈاسد مرکزی
ترجمان منتخب ہوئے اورسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی میں تمام تنظیموں کے 2,2نمائندوں
پرمشتمل ایک آرگنائزنگ کمیٹی کابھی انتخاب کیاگیا۔طلباء کایکجہتی مارچ
پرامن تھامگرپھربھی ان پرایف آئی آردرج کی جارہی ہیں جیسے کہ فاروق طارق
صاحب پرمقدمہ درج کیاگیا ہے ان کے جیسے کئی رہنماؤں پرانتقامی کاروائیوں کے
پہاڑٹوٹ رہے ہیں پروفیسرعمارعلی جان نے ٹویٹرپرمقدمے کی تفصیلات ٹویٹ کرتے
ہوئے کہاکہ انہوں نے گورنرپنجاب سے ملاقات کرکے انہیں باورکرایاکہ طلباء
کااحتجاج پرامن تھا۔ویسے اگردیکھاجائے توپرامن احتجاج پرکوئی بھی ریاست
انتقامی کارائیاں نہیں کرتی سوائے نامنہاد عمرانی ریاست کے ۔اس ملک
گیرمظاہرے میں تعلیمی بجٹ میں کم کرنے کی شدیدمذمت کی ۔مجھے یادپڑتاہے میں
میٹرک میں تھاتوکہیں پڑھا تھاایشیاٗ سرخ ہے اورہروقت یہی لفظ میرے منہ پے
رہتے توصحافت میں میرے استاد محترم کامران ظفربھٹی صاحب نے پوچھاہے ایشیاء
سرخ کیوں ہے تومیں نے کہامجھے نہیں پتاتوانہوں نے کہا ہم انقلابی ہیں اسی
وجہ سے اورجب تمہیں اس سرخ ہونے کے بارے میں پتہ چلے گاتومیری بات
یادضرورآئے گی جب میں نے طلباء کوہاتھوں میں سرخ جھنڈے اٹھائے دیکھاتوسرکار
کے الفاظ یادآئے اوردل سے بے اختیارنکلاواقعی ہم ہی انقلابی ہیں ۔اس مارچ
کودیکھ کے لگتاہے کہ جو1968کی تاریخ میں پڑھتے آئے ہیں وہی تحریک پھرسے
انگڑائی لے رہی ہے ۔معلومات اکٹھی کرتے ہوئے پتاچلاکہ کس کس شہرمیں مظاہرے
ہوئے توسن کرمیں حیران ہواتومیرے قارائین آپکی بھی یہ انفارمیشن دیتاچلوں
کہ لاہور،اسلام آباد،ملتان،ننکانہ صاحب،مظفرگڑھ،پاک پتن ،سکھر،شیخوپورہ،ہجرہ،ڈی
جی خان،رحیم یارخان،کوٹلی ،راولاکوٹ،مظفرآباد،گلگت،سکردو،کوٹ
ادو،شیخوپورہ،گوجرانوالہ،مریدکے ،کامنوکی ،اوکاڑہ،سکھر،میرواہ،سوات،صوابی،پاک
پتن کے علاوہ کئی ایسے نام ہیں جو میں لکھتے ہوئے شایدآرٹیکل کی جگہ ہی نہ
پوری ہوجائے ۔طلباء نے کہاکہ طلباء یونینز پرعائد پابندی ختم کی جائے
اورتعلیمی بجٹ کو جی ڈی پی کے 5%تک کیاجائے پرائیویٹ اداروں کے خلاف کریک
ڈاؤن کیاجائے کیونکہ یہ تعلیم کے نام پرپیسہ کمانے والی فیکٹریاں بن چکی
ہیں۔طلبہ نوجوانوں اورمزدوروں کے استحصال میں مسلسل اضافہ ہورہاہے تعلیمی
ادوروں میں شدت پسند عناصر کی غنڈہ گردی ختم کی جائے ۔تعلیمی اداروں میں
کسی بھی فیلڈمیں ماسٹرز کرنے کیلئے ہرسال 10لاکھ یااس سے زیادہ لگتے ہیں اب
اگرکسی کے پاس پیسے نہیں تووہ اپنی پڑھائی ہی روک دے گاجس کیوجہ سے تعلیم
کاشرح کم ہوجائے گی جس کیلئے حکومت کوفوری اقدامات کرنے ہونگے ۔ طلبہ نے
اپنے مطالبات کے باے میں بتایاکہ ہمارے مطالبات یہ ہیں کہ: طلبہ یونین
پرعائد پابندی ختم کی جائے اورفی الفورملکی سطح پرطلبہ یونین ک الیکشن
کرائے جائیں،تعلیمی اداروں کی نجکاری کاخاتمہ ،حالیہ فیسوں میں اضافے کی
واپسی اورمفت تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے،ایچ ای سی کے بجٹ کی
کٹوتیاں واپس لی جائیں،تعلیمی اداروں میں حلف نامے کاخاتمہ اورسیاسی
سرگرمیوں پرپابندی کوہٹایاجائے،تعلیمی اداروں میں سیکورٹی فورسز کی مداخلت
بندکی جائے اورتمام سیاسی طلبہ اسیران کورہاکیاجائے ،تمام طلبہ کومفت ہاسٹل
ٹرنسپورٹ فراہم کیاجائے،ہاسٹل اوقات کار طلبہ وطالبات کیلئے یکساں
کیاجائے،جنسی ہراسانی،کے قانون کے تحت کمیٹیاں تشکیل دی جائیں،اوران میں
طلبہ کی نمائندگی کویقنی بنایاجائے،طبقاتی تعلیمی نظام کاخاتمہ اورتعلیم
کوجدیدسائنسی تقاضوں پراستوارکیاجائے،ہرضلع میں ایک یونیورسٹی کاقیام یقینی
بنایاجائے اورپسماندہ علاقوں کاکوٹہ بڑھایاجائے،فارغ التحصیل نوجوانوں
کوروزگاریاکم ازکم اجرت بطوربے روزگارالاؤنس دیاجائے ،تعلیمی اداروں میں
قوم ،زبان،صنف،یامذہب کی بنیاد پرطلبہ کے ساتھ،تعصب،اورہراسانی
بندکیاجائے،اسلام آباداوردوردراز کے علاقوں سے آئے طلباء کوہاسٹل کی فراہمی
یقینی بنائے جائے اورفی الوقت سی ڈی اے کوپرائیویٹ ہاسٹلزکوسیل کرنے سے
روکاجائے۔آخرمیں میں وزیراعظم عمران خان سے عرض کروں گاکہ ان طلباء کے کون
سے ایسے مطالبات ہیں جونہیں مانے جاسکتے طلباء یونینز کوبحال کریں کیونکہ
مستقبل کے لیڈرہمیشہ طلباء یونینز کی تیارکرتی ہے ماناکہ کچھ طلباء تنظیمیں
پرتشددتھیں مگراب وہ حالات نہیں ہیں کیونکہ آپ خودیوتھ کی بات کرکے
وزیراعظم بنے ہوکیوں نہ اب یوتھ کوہی موقع دیاجائے طلباء یونینز کی بحالی
کیلئے جامع ضابطہ اخلاق مرتب کیاجائے اورعالمی یونیورسٹیوں کے تجربے سے
استفادہ کیاجائے۔
|