ناروے میں توہین قرآن پاک اور عاشق رسول ؐ

ناروے کے شہر کرسٹین سینڈ میں قرآن مجید کی توہین کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے۔ اسلام مخالف تنظیم (سیان) کے کارکنوں نے ریلی نکالی جس میں ملعون نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی جسارت کی مگر افسوس حقوق انسانی کے علمبردار یورپ کے دل میں یہ دلسوز واقعہ پیش آیا اور ناروے کی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی جس نے تنظیم کے سربراہ لارس تھورسن کو روکنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ ایک نوجوان محمد الیاس رکاوٹیں توڑتا ہوا آگے بڑھا اور ملعون لارس تھورسن کو روکنے کی کوشش کی ۔ اس اقدام سے مزید نوجوانوں کو ہمت ملی اور دیگر نوجوان بھی آگے بڑھے۔ پولیس اہلکار جو پہلے تماشا دیکھ رہے تھے، انہوں نے مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جبکہ ملعون لارس تھورسن کو بھی حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ ناروے کے شہر کرسٹین سینڈ میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے لیکن ناروے کی انتظامیہ نے نہ صرف اس اشتعال انگیز ریلی کی اجازت دی بلکہ قرآن پاک کی توہین سے بھی نہ روکا۔ناروے سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے توہین قرآن کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملعون لارس تھورسن پر نفرت انگیز جرائم کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ترکی کی حکومت نے واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ناروے کی حکومت پر اس طرح کے واقعات کی روک تھام کرنے کے لیے زور دیا۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ واقعے میں ملوث ملعون تھورسن کر قرار واقعی سزا دی جائے۔ملعون لارس تھورسن ایک عادی مجرم ہے اور حال ہی میں اوسلو میں اشتعال انگیز اسلام مخالف لٹریچر پھیلانے کے الزام میں 30 روز قید کی سزا بھگت چکا ہے۔واضح رہے کہ ناروے میں ہی 2011 ء میں ایک اسلام مخالف شخص آندریس بریوک نے فائرنگ کرکے 77 افراد کو قتل کردیا تھا۔ عدالت نے اسے 21 سال قید کی سزا سنائی تھی۔یہود ونصاریٰ مشرکین غرض ہر مخالف و معاند مکروحیلہ زور و جبر کے ہر ممکن طریقہ سے اسلام کی بیخ کنی میں لگا ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود اسلام ہے کہ پھیلتا ہی جاتا ہے، متبعین اسلام کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہی ہورہا ہے، بقول شاعر اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے۔ اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائیں گے۔

اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ یورپ ممالک میں برسوں سے اسلاموفوبیا جنگل میں آگ پھیلنے کی طرح زور پکڑے ہوا ہے، اور آئے دن اسکے ناپاک و رذیل ارادے بھی ظہور پزیر ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ کہ یورپی ممالک اسکے روک تھام کی کوشش نہیں کر رہی ہیں، آج کی مہذب مغرب دنیا امن و سکون اور رواداری کا گن گا رہی ہیں، لیکن خود وہ ان جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں جو امن و امان کی فضا کو گدلا اور خراب کرے،ناروے کے شہر کرسٹین میں اسلام مخالف آرگنائزیشن کے زیر اہتمام اسلام مخالف ریلی نکالی گئی ، اسی ریلی میں اس تنظیم کا رذیل سرغنہ لارس تھور سن نامی ملعون یہودی شخص نے قرآن کریم کے ساتھ بے حرمتی کی اور سرعام جلاکر کوڑے دان میں پھیکنے کی کوشش کی تھی۔افسوس ہے کہ ہمارے میڈیا نے اسے اہمیت نہیں دی ،نہ ترکی کے سوا کسی مسلم ملک نے، پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس سانحہ پر غم و غصہ کا اظہار کیا ہے ۔ناروے میں اسلام مخالفین کی طرف سے قرآن کو جلانے کی کوشش کے بعد ناروے پولیس کو نئے احکامات جاری کر دئیے گئے ہیں کہ وہ کسی کو بھی قرآن کی بے حرمتی کرنے کی اجازت نہ دے۔ ناروے کی ویب سائٹ این آر کے نے لکھا ہے کہ حکومت کی جانب سے نسل پرستی سے متعلق ایک آئینی پیراگراف (185) کو بنیاد بناتے ہوئے نئی تشریح کی گئی ہے، جس کے تحت پولیس کے لیے مذہبی علامتوں کو نقصان پہنچانے والی کسی بھی سرگرمی کو روکنا لازمی‘ قرار دیا گیا ہے۔ ناروے میں اسلام مخالف ریلی ناروے کی تنظیم اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے‘ کی جانب سے نکالی گئی تھی، جہاں اس تنظیم کے لیڈر لارس تھورسن نے قرآن کو آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔ اس تنظیم نے مظاہرے سے قبل یہ اعلان کیا تھا کہ وہ قرآن کو آگ لگائیں گے لیکن پولیس نے تب بھی کہا تھا کہ انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ گزشتہ گرمیوں میں اسی تنظیم نے اوسلو میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز پمفلٹ تقسیم کیے تھے۔ رواں ماہ کے آغاز میں لارس تھورسن کو اس کیس میں تیس دن کی معطل جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کیس میں لارس تھورسن کو بیس ہزار نارویجن کرونے کا جرمانہ بھی کیا گیا تھا۔مسلمان نوجوان جس کا نام الیاس بتایا جا رہا ہے اس وقت سوشل میڈیا صارفین کی آنکھوں کا تارا بن گیا جب وہ قرآن مجید کی بے حرمتی دیکھتے ہوئے خود پر قابو نہ رکھ پایا اور بھرپور انداز میں اسلام کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کے حوصلے پست کر دیئے۔ یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے اور صرف قران مجید کی بے حرمتی تک محدودنہیں، اس کے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔کرسٹینڈسینڈکی آبادی تقریباً اسی ہزار ہے جس میں دو ہزار کے لگ بھگ مسلمان ہیں۔ مسلمانوں میں تیس سے زیادہ نیشنیلیٹیز کے لوگ آباد ہیں، جن میں زیادہ تعداد صومالیہ، شام، فلسطین و عراق کے مہاجرین کی ہے۔ مسلمانوں میں نوجوانوں کی قابل ذکر تعداد ہے۔ قانون کے مطابق آپ کو مذہبی آزادی ہے۔ شہر کی انتظامیہ، سیاست دانوں کی بڑی تعداد، سٹی کونسل میئر، پولیس اور باقی ادارے مسلمانوں کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں اور ان کی ضروریات کو قانون کے مطابق پورا کرتے ہیں، مسلمانوں کو کبھی ان سے کسی بھی معاملے میں شکایت نہیں ہوئی، بلکہ جب مسلمانوں کو بڑی جگہ پر مسجد کی ضرورت پڑی تو سٹی کونسل میں دائیں بازوں کی مخالفت کے باوجود ووٹنگ کروا کے ہمارے لئے نئی مسجد کی منظوری دلوائی گئی۔’’کرسٹینڈسینڈ‘‘ میں ہی مقیم محمد الیاس نے مزید لکھا کہ ایک ستاسی سالہ ملحد آرنے تھومیر نے یورپ کے باقی ملکوں کی دیکھا دیکھی کچھ سال پہلے اسلام کے خلاف ایک تنظیم بنائی، جس کا نام سیان (Stop Islmisation in norway۔ SIAN) رکھا۔ متشدد خیالات کے یہ لوگ اسلام کے خلاف مختلف فورمز میں کافی ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں، اور مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کرتے ہیں جس میں اسلام کو جبر و طاقت کے زور پر پھیلایا ہوا مذہب اورمسلمانوں کوبطور دہشت گرد ٹارگٹ کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں کو معاشرے میں بہت زیادہ پذیرایی حاصل نہیں لہذا ان کے کسی مظاہرے میں قابل ذکر لوگ شامل نہیں ہوتے لیکن میڈیا ایسے لوگوں کو چٹخارے لگا کر پیش کرتا ہے، اس وجہ سے ان کو کچھ حد تک کوریج مل جاتی ہے۔ ناروے میں مذہبی و اظہاررائے کی آزادی ہے، قانون تب حرکت میں آئے گا جب کوئی شخص نفرت، دہشت اور نسل پرستانہ تقریر کرے، اس کے علاوہ آزادی اظہار رائے کے نام پر جو مرضی کہے اس پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سیان تنظیم کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو بطور دہشت گرد پیش کرے ان کایہ بھی مطالبہ رہا کہ مسلمانوں کو ناروے سے باہر نکالا جائے۔ لہذا یہ ایسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں، جن کا مقصد صرف اشتعال انگیزی ہے لیکن مسلمانوں کی طرف سے ہمیشہ حکمت اور بصیرت کے ساتھ اس کا جواب دیا گیا۔اس اندوہناک واقعے کے بعد پولیس، چرچ، انتظامیہ اور سیاست دان بھی اس مسئلہ پر مسلمانوں ساتھ متفق ہیں اس واقعے کے بعد مقامی چرچ کے پادری، دیگر مذاہب کے سرکردہ لوگ اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے یکجہتی کے اظہار کے لئے گزشتہ روز جمعہ کی نماز کے دوران برستی بارش میں مسجد کے باہر حلقہ بنایا اور مسلمانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلوایا۔
 

Haji Latif Khokhar
About the Author: Haji Latif Khokhar Read More Articles by Haji Latif Khokhar: 141 Articles with 113022 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.