گرمیوں کی سخت ترین دوپہر میں جس وقت تمام چرند و پرند
بھی دبک کر کسی گھنی چھاؤں میں بیٹھے شدت گرمی سے ہلکان ہورہے ہوتے ہیں وہ
80 سالہ بزرگ تپتی گرم زمین پر قمیض اتارے کَسّی سے کام کرنے میں مصروف
تھے۔ وہاں اردگر دور دور تک کہیں بھی گھنی چھاؤں یا پینے والے پانی کے ملنے
کا کوئی آثار موجود نہ تھا، کہ انسان گرمی اور تھکاوٹ سے ہلکان ہو کر جہاں
کچھ دیر آرام کر سکے اور پیاس لگنے پر پانی سے پیاس بجھا سکے۔ میرے لیے یہ
بات حیران کن ہرگز نہ تھی کیوں کے میں نے جب سے ہوش سنبھالا تھا انہیں اسی
طرح کام کرتے پایا تھا۔ ان جیسا محنتی شخص اور اپنی دھن کا پکا میں نے اپنے
اردگرد کہیں نہ دیکھا تھا۔ میں نے جیسے ہی ان کے قریب پہنچ کر سلام کیا تو
ان کے چہرے پر خوشی کے آثار نمودار ہوئے، میں نے انہیں دیکھتے ہی سمجھانے
کی کوشش کی کہ دیکھیں اب آپ کی عمر کافی زیادہ ہوگئی ہے، تو شدید گرمی میں
اتنا سخت کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اوپر سے اتنی شدید گرمی کے اندر
اردگرد پانی کا بھی کوئی انتظام نہیں کہ اگر پیاس لگے تو آپ پانی پی سکیں،
تو انہوں نے اپنے سائیکل سے لٹکتے تھیلے سے پانی کی چھوٹی سی بوتل نکالی
اور ایک گھونٹ پانی پی کر واپس رکھ دی اور بولے موجود ہے میرے پاس پانی، تم
فکر کس لئے کرتے ہو؟ اور ہم ادھر قریب ہی ایک چھوٹے درخت کی چھاؤں میں جو
اس وقت واحد جگہ تھی جہاں پر بیٹھا جا سکتا تھا ہم بیٹھ گئے۔ یہ کام وہ اس
لیے نہیں کر رہے تھے کہ وہ چھوٹے موٹے کسان تھے بلکہ نوکروں کی اچھی خاصی
تعداد تھی جو کہ زمین و جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے موجود تھی، وہ تو شوق
سے ان کاموں کو کیا کرتے۔
ادھر ادھر کی گفتگو شروع کرنے کے بعد میں جس لئے حاضر ہوا تھا اسی طرف بات
لانے کی کوشش کی، کیونکہ گرمی اور حبس کی وجہ سے پسینہ برا حال کر رہا تھا
اور میرا بیٹھنا محال ہو رہا تھا۔ انہوں نے ہاتھ سے تقریبا ایک ایکڑ دور
پڑے اس پتھر کی جانب اشارہ کیا اور بولے وہاں سے لے کر دائیں جانب اس چھوٹے
نالے تک زرعی زمین ہم نے نئی خریدی ہے۔ وہ زمین انتہائی بری حالت میں تھی
مگر مجھے یقین تھا کہ ایک آدھ ماہ میں وہ اس زمین کو قابل کاشت بنا لیں گے۔
کیونکہ مجھے اچھے سے یاد ہے کہ اس سے قبل انہوں نے اپنی زرعی زمین بیچ کر
سستی زمین جو کہ ناقابل کاشت تھی کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر خریدی تھی۔
زمین اس قدر بری حالت میں تھی کہ اس پر سیدھے کھڑے رہنا بھی محال تھا، بلکہ
اسے چھوٹا کوہ ہمالیہ کہاں جائے تو بجا ہوگا۔ وہ زمین انہوں نے اس قدر
ہموار کی کہ آج لہلہاتی فصل اس میں کھڑی تھی، اس کو قابل کاشت بنانے میں دن
رات کی محنت شامل تھی۔ مٹی کو بوری میں ڈال کر اور پھر سائیکل پر لاد کر
کہیں دور چھوڑ کے آنا، اور پھر اسی طرح سارا دن اور رات کی آدھی پہر تک یہی
کام بار بار دہرانا تب جاکر دو ماہ کے عرصہ میں وہ زمین قابل کاشت بنی تھی۔
انہیں میں نے ابتدا سے ہی ہر کام میں انتہائی محنتی پایا، اسی بنا پر کبھی
کسی بھی بڑی محنت پر حیرانگی نہ ہوتی تھی۔ وہ ہر روز گھر سے تقریبا دو
گھنٹے کی مسافت پر سائیکل چلا کر جاتے اور پھر شام کو واپس اسی طرح دو
گھنٹے سائیکل چلا کر آیا کرتے تھے۔ واپسی پر ان کے سائیکل پر اکثروبیشتر
پورا درخت کاٹ کر بندھا ہوتا، جسے وہ اتنی دور سے لے کر آتے تاکہ گھر بطور
ایندھن استعمال ہو سکے۔ کیونکہ ان دنوں ہمارے علاقوں میں گیس کا دور دور تک
نام و نشان نہ تھا۔ ان کو دیکھ کر اکثر اوقات لوگ کہا کرتے کہ شاہ صاحب تو
لوہے کی آدمی ہیں، اتنی شدید محنت مشقت ہم سے تو نہیں ہوتی یہ تو کوئی وہی
بندہ کر سکتا ہے جو لوہے کا بنا ہوا ہو، اور جسے کوئی تھکاوٹ نہ ہوتی ہو۔
درختوں کی کٹائی کے دوران ان کے جسم میں جگہ جگہ کانٹے لگ جاتے تو شام کو
ہم میں سے کوئی نہ کوئی ان کے ہاتھوں اور پیروں سے سوئی کے ساتھ کانٹے
نکالتا تھا۔ میں تو دیکھ کر ہی شدید پریشان ہوتا کہ کیسے اتنے بڑے بڑے
کانٹوں کو جسم میں لے کر بھی اتنا بھاری کام کرتے ہیں، مگر پھر دھیرے دھیرے
اس کی عادت ہو گئی۔
اولاد ساری اپنی طرح انتہائی پڑھی لکھی اور دیندار تھی، اسی وجہ سے ایک
مرتبہ مدرسہ میں سعودیہ سے عربی علماء سالانہ پروگرام کے موقع پر آئے تو
والدین کو پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ شاہ جی بھی اس پروگرام میں
شریک تھے، مدرسہ کے ناظم نے جب شاہ جی کا تعارف اس عربی شیخ عالم سے کروایا
تو وہ بولا کہ یہ تو رجل حدید ہیں، یعنی لوہے کے آدمی ہیں۔ بڑھاپے میں بھی
دور دور کا سفر کرنے سے کبھی بھی نہیں گھبراتے۔ مریدین کا ایک بہت بڑا حلقہ
تھا، اسی بنا پر سال میں دو ماہ مختص کر رکھے تھے کہ جس میں کراچی، ریاست
بہاولپور، ملتان، فیصل آباد، لاہور، شرقپور شریف اور قصور وغیرہ کا دورہ
کیا کرتے تاکہ مریدین کی خیریت دریافت کر سکیں اور اگر کوئی مسئلہ ہو تو
رہنمائی کر سکیں۔ اور ان کا یہ دورہ بھی کبھی کسی مرید پر بھاری نہ پڑتا،
کیونکہ پیر صاحب کو کوئی بھی پروٹوکول کی طلب نہ تھی۔ اسی طرح کبھی کسی
مرید سے کسی چیز کا تقاضا بھی نہ کیا تھا۔ دو ماہ کے اس لمبے سفر کے بعد ہر
جگہ کی کوئی نہ کوئی نشانی گھر والوں کیلئے ضرور لے کر آتے۔
ایک مرتبہ یوں ہی دوران سفر ساہیوال کے کسی نواحی شہر میں ایکسیڈنٹ ہوا تو
ٹانگ ٹوٹ گئی، مقامی لوگوں نے مقامی ہسپتال داخل کروایا اور گھر والوں کو
اطلاع۔ اس حادثہ کے بعد تقریبا چھ ماہ انہوں نے انتہائی اذیت میں گزارے،
کیونکہ بڑھاپے کی چوٹ انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اب
انہیں آرام کروائیں اور ہرگز کوئی بھی چلنے پھرنے والا یا بھاری کام نہ
کروائیں۔ مگر وہ آرام کے عادی نہ تھے اور ڈاکٹر بھی اس بات سے لاعلم تھا،
چھ ماہ بعد آخرکار ایک دن وہ وہیل چہئر سے اٹھ کر چل پڑے اور پھر دیکھتے ہی
دیکھتے چلنے سے سائیکل چلانے تک آ گئے۔ گھر والوں کے بارہا سمجھانے کے
باوجود وہ نہ رکے اور پھر ایک دن وہ دوبارہ اپنی سابقہ روٹین میں داخل
ہوگئے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ نو ماہ کا عرصہ لگا تھا، ڈاکٹر نے کہا کہ
انہیں چلنے پھرنے والا کوئی کام نہیں کروانا مگر وہ اب الحمدﷲ سائیکل پر
دور اپنی زرعی زمین تک جاتے اور واپس آتے تھے۔ اور میں جانتا ہوں کے انہوں
نے یہ نو ماہ کا وقت نہایت مشکل سے گزارا تھا۔ اب وہ بالکل پوری طرح سے
اپنی سابقہ روٹین میں موجود تھے اور پہلے کی طرح محنت و مشقت کرنے لگے تھے
کہ کچھ عرصہ بعد دوبارہ ملتان کے سفر میں ایک حادثہ ہوا جس دوران جس بس میں
وہ سوار تھے وہ پوری طرح سے الٹ گئی، اور ایک بار پھر انہیں بستر تک محدود
ہونا پڑا۔ پرانی چوٹ اور نئے زخم انتہائی اذیت ناک تھے، مگر رب کا کرم اور
انسانی کوشش ناممکن کو ممکن بناتی ہے۔ اس بار ڈاکٹر نے سختی سے روکا تھا کہ
چلنے پھرنے اور مشقت بھرے کام سے ہر ممکن طریقہ سے گریز کیا جائے۔ مگر شاہ
جی کو ڈاکٹر کی ہرگز پرواہ نہ تھی، اور الحمداﷲ کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ
پہلے کی طرح کام کاج میں مصروف تھے۔
آج میرے سامنے انتہائی سخت گرمی میں وہ اپنی نئی خریدی زمین کو ہموار کرنے
میں مصروف تھے۔ وہ میرے نانا سید عبدالسلام گیلانی 80 سالہ جوان ہیں، جنہیں
دیکھ کر مجھے آج کی نسل پر اور خود پر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ کیا ہیں اور ہم
کیا؟ بھری جوانی میں بھی آرام طلب، محنت سے بھاگنے والے اور ہر مشقت سے
میلوں دور رہنے والے انتہائی نازک انسان اور وہ لوہے جیسے مضبوط۔یہ بات آج
کے نوجوان کے لیے انتہائی سبق آموز ہے کہ اگر انسان اپنی دھن کا پکا ہو اور
محنتی ہو تو کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا۔ اور محنت سے جی چرانا انسان کو
صرف اپنے مقصد سے دور رکھ سکتا ہے ہرگز اپنے مقصد میں کامیابی سے ہمکنار
نہیں کر سکتا۔ کامیابی کے لیے محں ت اور اپنی دھن کا پکا ہونا شرط ہے ان کے
بغیر کسی بھی طرح آپ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ تو اپنے گول کو سامنے
رکھیے اور محنت شروع کیجئے اور پھر پوری لگن سے اپنے کام کو جاری رکھیں
یقینا کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔
|