وفا ہے زیست کا حاصل قسط نمبر١

"تمہارےلیے سب کچھ صرف تمہارے لیے ۔۔۔۔ میری جان میرا دل ۔۔۔ میری ذات سے جڑا ہر رشتہ صرف تمہارے دم سے ہے ۔۔۔۔ میں تو اس کچی مٹی کی طرح ہوں جسے تم نے اپنے سانچے میں ڈھال لیا ہے ۔۔ میں, میں نہیں رہی تم بن گئی ہوں ۔۔۔ اور اس کے بعد تو صرف فنا ہونا ہی باقی رہ جاتا ہے ۔۔۔۔ تمہاری محبت ہی میری زندگی کا کل اثاثہ ہے ۔۔۔۔ نہ دولت اور نہ ہی کچھ اور اس کا نعم البدل ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ تم سے دوری کا تصور میرے لیے موت ہے ۔۔۔سانسیں تھمنےلگتی ہیں ۔۔۔دل رکنے لگتا ہے ۔۔۔۔ میں مرنے لگتی ہوں ۔۔۔۔ میرا وجود ہی نہیں ، روح بھی فنا ہونے لگتی ہے ۔۔۔ میرے جلتے وجود کو تم نے اپنی محبت کی پھوار سے راکھ ہونے سے بچایا ۔۔۔۔ میں تو مر رہی تھی ۔۔۔ ناامیدی اور مایوسی کی گہری کھائی میں گر رہی تھی ۔۔۔۔ تم نے مجھے تھاما ہے ۔۔۔ گرنے سے بچایا ہے ۔۔۔۔ میں تم سے بھی بدگمان ہوگئی تھی ۔۔۔ محبت سے نفرت کرنے لگی تھی ۔۔۔ زیست بوجھ لگنے لگی تھی اور اپنا وجود ایک ذرے سے بھی حقیر محسوس ہونے لگا تھا مگر تم نے پھر سے میری زندگی میں آکر مجھے اپنے آپ پر یقین کرنا سکھایا ۔۔۔۔ رشتوں پر اعتبار کرنا سکھایا ۔۔۔ مجھے دشت سے نخلستان میں لے آئے ۔۔۔۔ میری کچلی مسلی ذات کو ایک نئی زندگی دی ۔۔۔۔ مجھے پیار دیا ۔۔۔ میرے زخم زخم وجود پر اپنی وفا کا مرہم رکھا ۔۔۔۔ آج میں فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے تم جیسا شخص اللہ نے انعام کے طور پر دیا ہے ۔۔۔۔ اور اپنے پاک پروردگار کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے ۔۔۔۔ جس نے ہمیں دوبارہ ایک کردیا ۔۔۔۔ اب میری زندگی صرف تمہارے لیے ہے ۔۔۔ میرا جینا میرا مرنا صرف تمہارے لیے ہے ۔صرف تمہارے لیے ۔۔۔۔۔"

اس کی ڈائری کو پڑھتے شاہ میر کا دل جیسے کسی نے مُٹھی میں لے لیا تھا۔ پچھتاوے اور حسد کی آگ میں جلتا وجود۔ کتنی جلد بازی کی تھی اس نے فیصلہ کرنے میں۔ اتنی ہی جلدی اسے اپنا لینے میں بھی کی تھی۔ سب سے لڑ گیا تھا۔ وہ بھیا جانی کی منگ تھی۔ مگر ناجانے کب اس کی ضد بن گئی تھی شاہ میر کو خبر ہی نہ ہوئی۔ بھیا جانی کو جب اس کی دیوانگی کی خبر ہوئی تو خود ہی حنین سے دستبردار ہوگئے۔ وہ تھا بھی بہت ضدی۔ بس جو چیز پسند آگئی اسے اپنی ملکیت سمجھ لیتا اور اسے حاصل کر کے ہی دم لیتا۔ اور وہ تو جیتا جاگتا وجود رکھتی تھی۔ کومل سی سنہری گڑیا۔ جسے دیکھتے ہی بے ساختہ دل اس کی جانب کھچتا تھا۔ معصوم سی پڑھاکو ٹائپ۔ پہلے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ اس کی چشماٹو کزن اتنی خوبصورت ہے۔ بس جب بھیا جانی اور حنین کی باقاعدہ شادی کا اعلان کیا گیا تب ہی اس کی دیگر کزنوں نے ایک مہینے پہلے ہی سے ڈھولکی رکھ لی۔ حنین کو باقاعدہ پیلا جوڑا پہنایا گیا۔ اور اسی دن بھیا جانی کے ساتھ اندر چاچو کے پورشن میں داخل ہوتے شاہ میر کی نظر اس پر پڑی تھی۔ اور وہ وہیں ٹھٹک کر رہ گیا تھا۔ وہ ہال نما لاؤنج میں جھولا ٹائپ تخت پر بیٹھی تھی دیگر کزنز قریب ہی نیچے دائرہ بنائے بیٹھی ڈھول کی تھاپ پر شادی کے گیت گا رہی تھیں۔ جھولا نما تخت کو بیلے اور موگرے کی ادھ کھلی کلیوں سے سجایا گیا تھا۔ پیلے جوڑے میں حنین چشمے کے بغیر سادہ روپ میں اتنی پیاری لگی کہ دل بے اختیار بے ایمان ہوا تھا اس کا۔ اور بس پھر کیا تھا وہ سیدھا دادا جان کے پاس پہنچا تھا۔ جو اپنی لائبریری میں بیٹھے کتاب پڑھنے میں مشغول تھے۔

“دادا جان مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔”

سر اُٹھا کر حشمت خان نے پوتے کو دیکھا تھا۔

“ہممم ! فرمائیے برخوردار کیا کہنا چاہتے ہو۔”

“میں حنین سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ کسی بھی لگی لپٹی رکھے بغیر دل کی بات بےدھڑک کہہ گیا ان سے تو پہلے تو حشمت خان حیرت سے خود سر اور ضدی پوتے کو دیکھتے رہ گئے۔

"تمہیں معلوم بھی ہے کے تم کیا بکواس کر رہے ہو۔ وہ بھی میرےسامنے۔"

“جی۔ اپنی پسند کا اظہار کرنا کوئی غلط بات تو نہیں ہے۔"

"ہممم ! "(کچھ دیر حشمت خان اسے سر اُٹھا کر دیکھتے رہے ۔۔۔ پھر کرسی سے اُٹھ کر چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے اس کے قریب پہنچے )۔

“سلمان کی وہ منگ ہے۔ اور یہ بات کافی عرصے پہلے ہی طے ہوگئی تھی کہ اس کا نکاح سلمان سے ہوگا۔ پھر جب شادی کو کچھ دن باقی رہ گئے ہیں ۔۔۔ تب ۔۔۔۔ تب تم نے یہ بات کیوں کی۔ تمہارے لیے تو وہ قابلٍ احترام ہونی چاہیئے۔ وہ تمہارے بھائی سے منسوب ہے۔"

"دادا جان! نکاح تو نہیں ہوا ناں۔ اگر نکاح ہوجاتا تب میں یہ بات نہیں کرتا۔" میر شاہ کا یہ جواب سن کر ان کا دل چاہا کے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی سے اس کی وہ دھلائی کریں کہ اسے آئندہ ایسی بات کرنے کی ہمت ہی نہ ہو۔ مگر جانتے تھے وہ نہایت خودسر ، ضدی اور ہٹ دھرم طبیعت کا مالک ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ سختی سے پیش آنے کی بجائے۔ نرم رویے سے اسے اس ناجائز خواہش سے باز رکھنے کی کوشش کی۔

"مگر! کیا تم نے حنین سے بات کرلی ہے اور کیا سلمان تمہارے حق میں حنین سے دستبردار ہوجائے گا ؟"

"نہیں, لیکن اب کرلونگا۔ اور مجھے یقین ہے بھیا جانی میری بات کو ٹال نہیں سکتے ۔۔"

"لیکن میں نہیں چاہتا کہ تم اس سے اس طرح کی کوئی گھٹیا بات کرو۔ "

"گھٹیا ۔۔۔ اس میں گھٹیا بات کیا ہے دادا جان ؟”

“برخوردار! تم شاید ہر قسم کے احساس سے عاری ہو چکے ہو ۔۔۔ لیکن میں تمہیں خبردار کرتا ہوں ۔۔۔ایسی کوئی بات سلمان سے نہیں کرنا سمجھے۔"اس کی ہٹ دھرمی پر انہیں بھی تیش آگیا تھا ۔۔ان کی بات سن کر وہ بدتمیزی سے پیر پٹختا اسٹڈی روم سے نکل گیا۔ اور سیدھا ان کے منع کرنے کے باوجود سلمان کے کمرے میں پہنچاتھا۔

"بھیا جانی مجھے آپ سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔"

سلمان جو اپنے ایک دوست سے سیل فون پر بات کر رہے تھے۔ اسے دیکھا تھا۔

“اچھا یار تم سے بعد میں بات کرتا ہوں ۔۔۔۔ او کے اللہ حافظ۔" فون ڈسکنکٹ کرتے ہوئے اس کی طرف پلٹے تھے۔

"ہاں کہو بھئی ۔۔۔ ویسے تم تھے کہاں۔؟"

"دادا جان کے پاس تھا ۔۔۔ اچھا کیا آپ میری بات سنینگے؟"

“اچھا بولو ۔۔۔ کیا کہنا چاہتے ہو؟"

"میں چاہتا ہوں کہ آپ حنین سے شادی سے انکار کردیں۔ "

وہ حیرت سے اسے دیکھتے رہ گئے تھے۔

"وجہ؟” وہ ایک لمحے کو رکا تھا بولنے سے پہلے اور بغور ان کے وجہیہ چہرے کو دیکھا تھا۔ وہ سوالیہ انداز میں حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔

"وجہ میں ہوں ۔۔۔۔ میں حنین کو پسند کرتا ہوں ۔۔۔ اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔" اور وہ اس کی بات سن کر گنگ سے کھڑے رہ گئے کچھ بول ہی نہ پائے اسے کچھ۔

×××××××××××

پھر جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ سلمان نے انکار کردیا تھا حنین سے شادی کرنے سے۔ ایک ہنگامہ حشمت ولا میں برپا ہوگیا تھا۔ سب سلمان کو لعن طعن کرنے لگے تھے۔ حنین نے رو رو کر آنکھیں سوجا لی تھیں۔ پھر بہت جلد یہ بات بھی سب پر کھل گئی کہ شاہ میر کے کہنے پر سلمان نے شادی سے انکار کردیا ہے۔ اب سارے بڑے حشمت خان کی خاص بیٹھک میں جمع تھے۔ سلمان اور شاہ میر کو بھی وہاں بلایا گیا۔ ثریہ بیگم نے اپنے دونوں بیٹوں کو خوب برا بھلا بھی کہا۔ سلمان سر جھکائے سنتے رہے۔ مگر شاہ میر تو شاہ میر تھا۔ ماں کی ہر بات کا اس کے پاس جواب حاضر تھا۔ بہرحال سلمان اپنے انکار پر قائم رہے بلکے اپنے بھائی کے لیے سب کو اس رشتے پر کافی بحث مباحثے کے بعد قائل بھی کرلیا۔ چچا چچی شاہ میر سے اپنی بیٹی کی شادی کے بالکل حق میں نہیں تھے۔ مگر کارڈز بٹ چکے تھے اور سلمان نے انکار کردیا تھا۔ شادی نہ ہوتی وقت پر تو کتنی بدنامی ہوتی۔ لوگوں کی زبانوں کو کون روکتا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی زبیر خان نے اپنے خودسر بھتیجے کا رشتہ اپنی معصوم پھول جیسی بچی کے لیے قبول کرلیا۔ وقت مقررہ پر ہی شادی ہونا طے پایا۔ اور یوں سلمان کی منگ سے شاہ میر کا نکاح ہوگیا۔

×××××××××××

وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔ کمرہ اس کے من پسند سرخ گلاب اور موگرے سے سجایا گیا تھا۔ ان دونوں خوبصورت پھولوں کی خوشبو سے کمرہ مہک رہا تھا۔ گلاب اور موگرے کی لڑیوں نے کینوپی بیڈ کو پوری طرح ڈھکا ہوا تھا۔جس میں سے جھلکتی سرخ رنگ وجود کی ہلکی سی جھلک اس رومان پرور منظر کا حصہ محسوس ہورہی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتا بیڈ کے قریب آکر ایک پل کے لیے رکا تھا۔ اس کے انگ انگ سے جیت لینے کا خمار چھلک رہا تھا۔ وہ مسرور تھا کہ یہ بازی بھی وہ بھیا جانی سے جیت چکا ہے۔ بھیا جانی جن کی ہر من پسند چیز کو چھین کر اسے ایک عجیب سا سکون ملتا تھا۔ آج وہ ان سے ان کی سب سے عزیز از جان ہستی کو بھی لے اُڑا تھا۔ وہ دل ہی دل میں اپنی جیت کا جشن منا رہاتھا۔ اسے بھیا جانی ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ شروع سے بھیا جانی سب کی آنکھوں کا تارا تھے۔ سنجیدہ وجہیہ اور ٹیلنٹڈ ہر فن مولا ٹائپ۔ پڑھائی کا میدان ہو یا پھر اسپورٹس۔ ہمیشہ سب سے آگے۔ ان کا کمرہ گولڈ میڈلز سے سجا ہوتا۔ گو وہ بھی ایک اچھا پڑھاکو ٹائپ اور ٹینس بہترین کھیل لیتا تھا۔ مگر بھیا جانی کی طرح ٹاپ کلاس اسٹوڈنٹ نہیں تھا۔ اور یہی بات اسے کھلتی تھی۔ اور چپکے چپکے کب اسے حسد کی بیماری نے آن دبوچا۔ اسے خبر ہی نہ ہوئی وہ ان سے شدید نفرت کرتا ہے۔ اور اس کی نفرت ان کے لیے انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو حنین کو حاصل کرنے کے پیچھے یہی نفرت چھپی تھی۔ جب اسے یہ احساس ہوا کہ حنین خاندان کی سب سے حسین لڑکی ہے اور سلمان کی محبت بھی تب ہی سے حنین کو حاصل کرنے کی ٹھان لی تھی۔ اور اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوگیا۔ آج وہ اس کی تھی۔ نکاح کے وقت بھیا جانی کے چہرے پر چھائی اداسی اس سے چھپی نہیں رہ سکی تھی۔ اور انہیں دکھی دیکھ کر وہ اندر سے بہت مسرور تھا۔ جانتا تھا یہ اداسی اب ساری زندگی کے لیے سلمان کا مقدر بن چکی ہے۔ وہ انہیں باتوں کو سوچتا اپنے آپ مسکرا رہا تھا۔ پھولوں کی لڑیوں سے بنی اس مہکتی چلمن کو دونوں ہاتھوں سے ہٹایا تھا۔ اور بڑے غرور سے مخملیں بیڈ پر اس سرخ گٹھری پر نظر ڈالی تھی۔ سرخ مہکتا وجود اس کی آہٹ پاکر اپنے آپ میں سمٹتا محسوس ہو رہا تھا۔ وہ احساسٍ غرور کے ساتھ بیٹھا تھا اس کے قریب۔ بڑا سا گھونگھٹ حائل تھا درمیان۔ کچھ کہے بغیر حنین کا لرزتا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کا گھونگھٹ اُٹھایا تھا۔ وہ لرز رہی تھی۔ کاجل رونے سے پھیل گیا تھا۔ مگر روتے ہوئے بھی وہ قیامت ڈھا رہی تھی۔

"تمہارے رونے کی وجہ میں جانتا ہوں.. مگر اب کوئی فائدہ نہیں ہے ۔۔۔۔ تم اب میری ہوچکی ہو ۔۔۔اس لیے بہتر یہ ہے کہ اپنا پاسٹ (ماضی) بھول جاؤ ۔۔۔ یہی حق میں تمہارے بہتر ہوگا.. ورنہ۔" جملہ ادھورا چھوڑا تھا۔ اس کے ورنہ پر حنین نے ایک دم آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تھا۔ وہ بڑے غور سے سرد نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ نہ ستائش تھی اور نہ ہی کوئی محبت بھرا جذبہ اس کے لب و لہجے سے محسوس ہورہا تھا۔ شاہ میر نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے لیمپ کو آف کیا تھا اور اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔ وہ دھان پان سی لڑکی اس کے سینے سے ٹکرائی تھی۔ اس رات وہ اس کی جتنی تذلیل کرسکتا تھا اس نے کی۔ شاہ میر کے لیے وہ ایک جیتی ہوئی ٹرافی کی طرح تھی۔ جسے اس نے بھیا جانی سے جیتا تھا اور اس کی اہمیت اس کے دل میں اتنی ہی تھی بس۔


×××××××××××
سلمان چپ چاپ اپنے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے۔ شاہ میر ان کا چھوٹا بھائی تھا۔ تقریباً دو ڈھائی سال کا فرق ہو گا ان دونوں بھائیوں کی عمروں میں مگر وہ اس کی ہر خواہش کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ان کی ہر من پسند چیز پر وہ ہاتھ رکھ دیتا تھا اور بلا کچھ چوں چُرا کیے وہ خوشی سے اس کے حوالے کردیتے تھے۔ مگر اب تو اس نے ان کی محبت پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ ایک پل کو تو ان کا دل چاہا کہ منع کردیں مگر پھر اس کی دیوانگی کو دیکھتے ہوئے اپنی محبت سے بھی دستبردار ہوگئے تھے۔ ساری رات جاگتے گزری تھی۔ ایک پل کو بھی نہ سو سکے۔ جسے ٹوٹ کر چاہا اسی کو کتنی آسانی سے کسی اور کے حوالے کردیا تھا انہوں نے۔ ان کے والدین قصوصاً ان کی ماما ان سے سخت خفا تھیں۔ دادا جانی نے تو ان سے بات تک کرنا چھوڑ دی تھی۔ اور حنین بیچاری نے تو کوئی شکوہ تک زبان پر نہ لایا بس روتی رہی۔ وہ جانتے تھے وہ ان سے محبت کرتی ہے۔ اور یہ محبت اس کے انگ انگ سے پھوٹتی تھی۔ مگر بھائی کی محبت میں انہوں نے اس محبت کو بھی قربان کردیا۔ بھائی کی محبت حنین اور ان کے رشتے پر حاوی ہوگئی تھی۔ مگر شاہ میر ایک بات نہیں جانتا تھا جو وہ جانتے تھے۔ ہاں وہ جانتے تھے شاہ میر ان سے نفرت کرتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی تکلیف ان کے دکھ پر شاہ میر خوش ہوتا ہے۔ وہ ان کا سگا بھائی تھا انہیں اپنے بھائی سے محبت تھی مگر شاہ میر نے انہیں اپنے دشمنوں کی لسٹ میں شامل کیا ہوا تھا۔ وہ ان سے کتنی نفرت کرتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ مگر وہ جانتے تھے۔ لیکن پر امید تھے کہ کبھی نہ کبھی ان کے بھائی کا دل ان کے لیے گداز ہوگا نرم پڑے گا۔ مگر اتنی قربانیوں کے باوجود شاہ میر کا دل نرم پڑنے کی بجائے ان کے لے سخت ہوتا گیا۔ ان کے ایثار اور محبت کو ان کی کمزوری کے طور پر لیتا رہا۔ وہ خاموش اپنے بیڈ پر شاہ میر کے بارے میں سوچتے رہے۔ حنین کے بارے میں کچھ بھی سوچنا نہیں چاہ رہے تھے۔ اب وہ ان کے بھائی کی بیوی بن چکی تھی۔ اس سے رشتے کی نوعیت ہی تبدیل ہوگئی تھی۔ اور وہ رشتوں کا احترام کرنا جانتے تھے۔ اپنے چھوٹے بھائی شاہ میر کے برعکس ایک منفرد اور خوبصورت دل کے مالک تھے۔ ابھی وہ اسی کے متعلق سوچ رہے تھے کہ ان کا سیل فون بج اُٹھا۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی۔ بے دلی سے فون اُٹھا کر اس کی اسکرین پر نظر دوڑائی تو ان کے جگری یار کاشف کا نمبر بلنک کر رہا تھا۔

"ہیلو !"

"یہ میں کیا سن رہا ہوں۔"

"کیا مطلب ؟"

"مطلب وطلب کیا ۔۔۔ تم نے اپنے ساتھ ہی نہیں حنین کے ساتھ بھی بہت بڑی زیادتی کر ڈالی ہے یار۔"

"اوہ ۔۔ تو تمہیں خبر پہنچ گئی۔"

"لِسن سلمان! میں تمہارا دوست ہی نہیں کزن بھی ہوں ۔۔۔ اگر پاکستان میں ہوتا تو تمہیں ایسی بیوقوفی کرنے کی اجازت کبھی نہ دیتا۔" کاشف کے لہجے سے انہیں لگ رہا تھا کہ وہ ان کے اس فیصلے سے سخت خفا ہے۔ کاشف ان کا ماموں ذات بھائی تھا اور جگری یار بھی۔ بچپن سے شاہ میر کی من مانیاں دیکھتا آیا تھا ان کے ساتھ۔ اور ان کا درگزر بھی۔ کاشف کو لگتا تھا کہ اگر شاہ میر ان سے ان کی جان بھی مانگے گا تو اسے بھی اس پر نچھاور کر دینگے۔

"جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے کاشی ۔۔۔ اب اس بات پر بحث کرنا بھی بیکار ہے ۔۔۔۔ اور جہاں تک محبت کا تعلق تھا تو حنین اور میرے درمیان کبھی بھی ایسی کوئی بات سرے سے نہیں ہوئی۔"

"تم اپنے اس فیصلے پر پچھتاؤ گے ایک دن دیکھ لینا سلمان ۔۔۔ یہ بات میں دعوے سے کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔ حنین کوئی چیز نہیں تھی جسے تم نے بھائی کے مانگنے پر اسے تھما دیا ۔۔۔ اور کیا زبان سے کہہ دینا ہی محبت کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔۔۔۔ میں جانتا ہوں تمہاری اور اس کی خاموش محبت کو۔"

"پلیز کاشی! وہ اب میرے بھائی کی بیوی ہے ۔۔۔ اب تم ایسی کوئی بات مجھ سے نہ کرو تو بہتر ہے."

"ٹھیک ہے, اب میں اس سلسلے میں تم سے کوئی بات نہیں کرونگا ۔۔۔ لیکن جو تم نے کیا ہے وہ اچھا نہیں کیا.. مجھے تو شاہ میر پر حیرت ہورہی ہے ۔۔۔۔ خیر اپنا خیال رکھنا پھر کبھی بات ہوگی تم سے ۔۔۔ اللہ حافظ۔"

"اللہ حافظ۔"

فون ڈسکنٹ ہوگیا تو اُٹھ بیٹھے اپنے بیڈ سے۔ ویسے بھی آج رات نیند تو آنی نہیں تھی۔ لیکن گھر میں ایک اور فرد کی بھی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ جس کا آج مان ہی نہیں روح بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تھی۔ زخمی کر دی گئی تھی۔

×××××××××××××

باقی آئندہ۔
 

farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 212495 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More