میری امی نے یہ قصہ مجھے اُس وقت سنایا جب گائوں میں ہر
طرف جن اور بھوت کی آوازیں سنائی دیں رہی تھیں ۔ہر دوسرا فرد یہ کہتا سنائی
دے رہا تھا کہ قبرستان کے بھوت نے آسیہ کو زندہ کھا لیا ہے،یا زندہ لے گیا
ہے۔آسیہ جو وڈیرے سائیں لال دین کی پوتی اور نور دین کی بیٹی تھی۔شہر کے
کالج سے پڑھ کر ابھی دو مہنیے پہلے واپس لوٹی تھی۔امی نے بتایا جب آئی تھی
تو اچھی بھلی تھی، چند دنوں بعد اُس کا شہر سے ایک بہترین رشتہ آیا۔جسے یہ
کہہ کر ٹھکرا دیا گیا کہ برداری کے باہر وہ اپنے بچوں کی شادیاں نہیں
کرتے۔میری امی جو کہ وڈیرن کی خاص ملازمہ تھی وہ اندر کے حالات سے واقف
بخوبی واقف تھی،امی بتاتی ہے جس دن سے رشتہ آیا تھا اور وہ لوگ انکار سُن
کر جا چکے تھے۔اُسی دن آسیہ کے اُوپر جن آ گیا تھا۔اُس رات آسیہ کو کسی نے
مار مار کر لہو لہان کر دیا تھا ۔پتا نہیں چلا یہ سب قبرستان والے بھوت کی
کرنی ہے۔پھر آسیہ کا روز ہی یہ حشر ہونے لگا۔ایک دن امی کو وڈیرن نے رات
حویلی میں ہی روک لیا۔امی بتاتی ہے جب آسیہ کے اُوپرجن آیا وہ اُس کمرے میں
سو رہی تھی۔پہلے تو کمرے سے ایک دم عجیب و غریب آنے لگیں جیسے کوئی زور زور
سے رو رہا ہو۔اور اُونچے اُونچے بین کر رہا ہو۔پھر امی نے دیکھا آسیہ بال
کھولے زاروقطار رو رہی ہے، اور اپنے منہ پر زور زور سے تماچے مار رہی
ہے۔ساتھ ہی باہربادل گرجنے کی اواز آئی اور آسمانی بجلی دروازوں سے ٹکرانے
کی خوف ناک آوازیں آنے لگیں ۔آسیہ کا حلیہ اور خراب ہو چکا تھا وہ اپنے
کپڑے پھاڑتی تو کبھی اپنا منہ نوچتی۔جس کی وجہ سے اُس کی شکل نہایت خوف ناک
ہو گئی۔وہ زور زور سے دروازے بجانے لگی اور چیخنے چلانے لگی۔میں ہمت کر کے
اُٹھی اُسے پکڑا کہ کہیں وہ اپنے آپ کو کچھ کر نہ لیں۔لیکن جیسے ہی میں نے
اسے پکڑنے کی کوشش کی اُس نے مجھے زور دار دھکا مار کر گرا دیا۔مجھے لگا یہ
نازک سی آسیہ نہیں بلکہ ہٹا کٹا جن ہے جس نے مجھے اس زور سے پیھنکا۔یہ سب
شور سُن کر وڈیرا لال دین اور وڈیرن بھی آسیہ کے کمرے میں داخل ہوئے جنہیں
دیکھ کر آسیہ کے منہ سے کعف نکلنے لگا اور منہ سے خون کے ساتھ مل گیا۔لگ
رہا تھا کہ اُس کے منہ سے خون کے فوارے نکل رہے ہیں ۔وہ چیزیں پکڑ کر وڈیرے
کی طرف پیھنکنے لگی۔اور عجیب و غریب آواز میں بولنے لگی۔میں نے تم لوگوں کو
نہیں چھوڑنا میں تم سب کو بھسم کر دوں گا۔وڈیرن نے غصے سے میری طرف دیکھا
مجھے وہاں سے جانے کے لیے کہہ دیا۔اگلی صبح جب میں دوبارہ گئی۔تو حویلی میں
ہر طرف یہی بات سننے کو ملی کہ آسیہ کو قبرستان والا بھوت کھا گیا ہے۔اور
اب وہ کبھی نہیں لوٹے گی۔امی بتاتی ہے جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے
آسیہ کی لاش ٹکڑوں میں تقسیم تھی۔گردن ،دھڑ اور ٹانگیں سب ایک دوسرے سے جدا
تھیں۔وڈیرن نے امی کو لاش کے ٹکڑے اکھٹے کرنے کو کہا اور سختی سے منع کیا
کہ یہ بات اس کمرے سے باہر نہیں جانی چاہیے۔ دو سال گزرنے کے بعد بھی مجھے
یہ نہیں سمجھ آئی کہ بھوت قبرستان والا تھا یا آسیہ کے گھر میں سے کوئی ان
دیکھا شخص۔ |