شاہ میر اور حنین کی شادی کو ہوئے دو ماہ سے زیادہ کا
عرصہ ہوچکا تھا۔ بظاہر حنین اور شاہ میر کو دیکھ کر ایسا ہی لگتا تھا کہ وہ
دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش ہیں۔ سلمان حنین کو شاہ میر کے ساتھ خوش و
خرم دیکھ کر مطمئن ہوگئے تھے ورنہ شروع میں انہیں ایک عجیب سی شرمندگی سی
محسوس ہوتی تھی حنین سے۔ مگر حنین کے ساتھ شاہ میر کا رویہ تنہائی میں
انتہائی درشت اور ظالمانہ تھا۔ وہ اس کے جسم کو ہی نہیں اپنی کٹیلی باتوں
سے اس کی روح کو بھی گھائل کرنے سے نہ چوکتا۔ سلمان کا نام لے کر اس پر
الزامات کی بوچھاڑ کردیتا۔ اتنی غلیظ زبان استعمال کرتا سلمان اور اس کے
متعلق کہ حنین کا دل کرتا کے زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ وہ ایک
نازک اندام اور بہت حساس لڑکی تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ اندر سے ٹوٹ
رہی ہے بکھر رہی ہے۔ اپنے اندر کے کرب کو۔ اپنے اندر پھیلتے سناٹے کو اپنوں
سے چھپانے کے لیے وہ بات بے بات قہقہے لگانے لگی تھی۔ شاہ میر کی اتنی
جھوٹی سچی تعریفیں کرتی کہ سب کو اس کی شادی شدہ زندگی پر رشک آنے لگتا۔
شاہ میر اس کی ساری کزنز اور دوستوں کو ایک آئیڈیل شوہر لگتا۔ اس کے ماما
بابا بھی اب مطمئن ہوگئے تھے۔ ورنہ شاہ میر کی انتہا پسند اور جنونی فطرت
کی بدولت وہ بہت زیادہ خائف تھے اپنی بیٹی کے مستقبل کے حوالے سے۔ اس وقت
سب ہی جمع تھے بڑے سے ہال میں۔
"ہاں تو ثریہ کیا ارادے ہیں بھئی۔”
”میں سمجھی نہیں بابا جان۔"
"ارے چھوٹے بیٹے کی شادی ہوگئی ہے ..اب بڑے کی کب کرنے کا ارادہ ہے۔"
"جی! بہت جلد ۔۔۔۔ انشاءاللہ ۔۔۔"
"برخوردار.. اب تو انکار نہیں کروگے ناں۔"
"جو حکم دادا جانی۔"
"ٹھیک ہے ۔۔۔۔ لیکن اگر کوئی پسند ہے تو بتا دو۔ "
"جو آپ لوگوں کی پسند وہی میری پسند۔"
شاہ میر نے چونک کر بھائی کودیکھا تھا۔ سلمان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور
وہ خوشدلی سے اپنے دادا سے باتیں کر رہے تھے۔ پھر اس کی تیز نظریں قریب ہی
بیٹھی حنین پر گئی تھیں۔ جہاں وہ کسی بات پر اپنی کزن کی کھلکھلا کر ہنس
پڑی تھی۔ اسے عجیب سا لگا۔ اس کا تو خیال تھا کہ سلمان شادی سے انکار
کردینگے۔ اور ساری عمر حنین کی یادوں میں بسر کردینگے۔ اسی لیے تو اس نے
حنین سے شادی کی تھی۔ تاکے اپنے سگے بھائی کو برباد کر سکے۔ مگر یہاں تو
معاملہ ہی اُلٹ ہوگیا تھا۔ وہ حنین کی جگہ کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل
کرنے کے لیے راضی تھے۔ پھر سے اس کا دل حسد اور جلن کی آگ میں جلنے لگا
تھا۔
××××××
محبت سے کنارہ کرلینا اتنا آسان تو نہیں۔ وہ کسی اور کی ہوگئی تو ایسا لگا
جیسے روح سے جسم کا تعلق ہی ختم ہوگیا ہو اور بے روح جسم وہ ایک زندہ لاش
بن گئے ہوں۔ بہت کوشش کی تھی اس کی یادوں سے چھٹکارا پانے کے لیے۔ مگر وہ
دل کے سنگھاسن پر ایسے براجمان ہوگئی تھی کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی
تھی۔ انہیں ایسا لگتا جیسے وہ شاہ میر کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اس کی بیوی کی
محبت کو دل میں رکھ کر۔ آنکھیں بند کرتے تو وہ نظر آتی۔ بے خیالی میں اسے
ہر چہرے میں تلاش کرتے اور وہ اب اپنی اس کیفیت سے خائف ہوگئے تھے۔ اس لیے
جب بڑوں نے شادی سے متعلق پوچھا تو فوراً ہاں کر دی تھی شاید اس طرح وہ اس
کی محبت سے چھٹکاراحاصل کر نے میں کامیاب ہوجائیں۔ اس کی یادوں سے چھٹکارا
پانے کے لیے انہیں اس کا یہی حل بہترین لگا تھا کہ وہ بھی کسی اور کے
ہوجائیں۔ اب سب گھر کے چھوٹے بڑوں کا ایک ہی پسندیدہ ہاٹ ٹاپک تھا۔ خوب
چھان پٹھک کے بعد ثریہ بیگم کو ایک لڑکی پسند آہی گئی جو ان کے شوہر صفدر
خان کے دوست فرید الدین کی اکلوتی ایک نازو پلی بیٹی شنیلا تھی۔ خیر سلمان
کا رشتہ شنیلا سے طے کردیا گیا۔
×××××××××××××××××××
شاہ میر ایک پوش کیفے ٹیریا میں ایک لڑکی کے ساتھ ٹیبل پر اس کے ہاتھ پر
ہاتھ رکھے بڑے رومینٹک انداز میں بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ لڑکی کافی
خوبصورت اور بے باک سی تھی۔ بلیک ٹراؤزرز پر وائیٹ سلیو لیس شرٹ پہنے ہوئے
اپنی بے باک اداؤں کے ساتھ قیامت ڈھا رہی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے میں اتنے
کھوئے ہوئے تھے کہ شاہ میر اور نکی کو خبر ہی نہیں ہوئی کہ نازلی عرف نکی
کا عرب پتی باپ انہیں ایک ساتھ دیکھ چکا ہے۔ ثاقب لودھی ایک کامیاب بزنس
مین تھا۔ جس کے کئی ہوٹلز اور شپنگ کا بزنس بھی تھا۔ خالص کاروباری ذہن
رکھتا تھا۔ جذباتیت کی اس کے یہاں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اسی لیے نکی کے
ساتھ ایک اجنبی لڑکے کو دیکھ کر خاموشی سے وہاں سے نکل گیا تھا۔ اور اپنی
بلیک مرسڈیز کی بیک سیٹ پر بیٹھ کر ڈرائیور کو وہاں سے چلنے کا کہہ کر اپنے
قیمتی سیل فون پرکسی کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔ دوسری بیل پر ہی فون اُٹھا لیا
گیا۔
“ہیلو سر۔"
"ہیلو ۔۔۔ مس شاہانہ سب سے پہلے تو آپ آج کی میٹنگ کینسل کر وادیجئی۔"
"بٹ سر! اٹ از آ وری امپوٹنگ میٹنگ۔"
"مس شاہانہ جتنا بولا ہے اتنا ہی کریے آپ تو بہتر ہو گا ۔۔ او کے۔"
"آئیم ساری سر۔ "
"ہممم!"
"آئندہ احتیاط کیجئیے گا۔"
"جج جی.” مس شاہانہ کے لہجے سے گھبراہٹ صاف محسوس ہورہی تھی۔
ثاقب لودھی نے فون بند کردیا۔ اور کچھ پل کچھ سوچتا رہا پھر کسی کا نمبر
ڈائل کرنے لگا۔ دو تین بیل بجنے کے بعد مردانی آواز اسپیکر پر ابھری تھی۔
"ہیلو سر ۔۔۔ السلام علیکم۔"
"وعلیکم۔"
"مجھ ناچیز کو اتنے عرصے بعد یاد کر ہی لیا ہے آپ نے۔"
"ایک ضروری کام ہے تم سے ۔۔۔۔ تم فوراً آفس پہنچو۔ "
"جی جی ضرور ۔۔۔ آئی ول کم ان ففٹین منٹس سر۔"
"اوکے ۔۔۔ بائے۔"
ثاقب لودھی ٹو دی پوائنٹ بات کرنے کا آدی تھا۔ نازلی اس کی اکلوتی ایک
اولاد تھی۔ اور دنیا کی ہر شے سے زیادہ اسے عزیز تھی۔ اس کے برعکس نازلی
بہت جذباتی اور خود پسند طبیعت کی مالک تھی۔ بڑی مشکل سے اسے لوگ پسند آتے
تھے۔ اس کا تعلق جس کلاس سے تھا اس میں بوائے فرینڈ گرل فرینڈ رکھنا معمولی
بات تھی۔ مگر وہ ایک مشکل لڑکی تھی۔ جس کی دوستی کسی کے بھی گلے کا پھندہ
بن سکتی تھی۔ اس کی انتہا پسند طبیعت سے ثاقب لودھی جیسا شخص بھی ڈرتا تھا۔
اول تو کسی کو گھاس تک نہیں ڈالتی تھی اور دوسری اس کی خودپسند طبیعت کی
بدولت کوئی نظروں میں جچا ہی نہیں تھا. مگر اب اس کو کسی اجنبی خوبرو لڑکے
کے ساتھ دیکھ کر ثاقب لودھی کا چونکنا بالکل بجا تھا۔ وہ بہت انتہا پسند
تھی. اگر کوئی معمولی شخص کو پسند کر بیٹھی تو وہ بغاوت پر بھی اتر سکتی
تھی۔ اور یہی بات ثاقب لودھی کے لیے پریشانی کی تھی۔ اس لیے چاہتا تھا کہ
پہلے اس لڑکے کے بارے میں پوری معلومات اکھٹی کر لے۔ اگر لڑکا ہم پلہ نکلا
تو کوئی فکر کی بات ہی نہیں ورنہ حادثے میں تو روز لاکھوں لوگ مرجاتے ہیں۔
×××××××××××
"نکی! کیا دیکھ رہی ہو؟"
"تمہاری آنکھیں بڑی خوبصورت ہیں ۔۔۔ جی چاہتا ہے بس ڈوب جاؤں ان میں۔" شاہ
میر اتنی حسین لڑکی کی اپنے لیے تعریف پر دل میں بڑا خوش ہورہا تھا ۔۔۔
ہلکے سے مسکرا کر اسے دیکھا تھا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دبا یا
تھا۔
"مگر تم سے زیادہ خوبصورت نہیں ہیں نکی ۔۔۔۔ تم تو قدرت کا وہ شاہکار ہو جس
پر ایک پوری غزل لکھی جاسکتی ہے۔"
"جانتی ہوں۔"
"کیا ؟"
"یہی کہ میں بہت خوبصورت ہوں۔" وہ ایک ادا سے مگر پر غرور انداز میں اس سے
بولی تھی۔
"اچھا تم کب مجھے پروپوز کر رہے ہو۔"
"تم جانتی ہو ۔۔۔۔ میں شادی شدہ ہوں۔"
"ہاں بتایا تو تھا تم نے ۔۔۔ مگر جب تم اسے پسند ہی نہیں کرتے ۔۔ زبردستی
وہ تمہارے پلے باندھ دی گئی ہے ۔۔۔ تب اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔"
"چھوڑ دونگا بہت جلد۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا تھا۔
××××××××××××
وہ چپ چاپ خاموش نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ شاہ میر ابھی تو گھر لوٹا
تھا۔ اور جب سے آیا تھا مستقل گن گنا رہا تھا۔ آپ ہی آپ مسکرا رہا تھا۔
اتنے اچھے موڈ میں تو وہ کبھی بھی کمرے میں نہیں رہتا تھا۔ کسی نا کسی بات
پر اسے جھڑکتا ذلیل کرتا رہتا۔ اور حنین بیچاری اُف تک نہ کرتی۔ اتنی
زیادتیوں کے باوجود وہ اس سے نفرت نہیں کرتی تھی۔ اگر اس کے دل میں کسی کے
لیے نفرت تھی تو وہ سلمان تھے۔ وہ انہیں قصور وار سمجھتی تھی۔ انہوں نے اسے
ٹھکرایا تھا۔ اسے ایسے آرام سے کسی اور کو تھما دیا تھا جیسے وہ کوئی چابی
والی گڑیا ہو۔ جس کے جذبات و احساسات ہی نہیں۔ جتنا شاہ میر اسے ٹارچر کرتا
سلمان کے لیے دل میں اس سے زیادہ نفرت محسوس کرتی۔ شاہ میر سب کے سامنے تو
ایسے پوز کرتا جیسے اسے حنین کی بہت پرواہ ہے۔ ایک کیرنگ ہسبنڈ کی طرح آگے
پیچھے پھرتا۔ مگر تنہائی میں اس کا مزاج ہی بدل جاتا۔ وہ ایک وحشی آقا کا
روپ دھار لیتا۔مگر کچھ دنوں سے اس کے انداز ہی نرالے ہوگئے تھے۔ گھنٹوں کسی
کو سیل فون سے ٹیکسڈ مسیجس کرتا رہتا۔ یا پھر فون پر کسی لڑکی سے اس کے
سامنے ہی رومینٹک باتیں کرتا۔ وہ تو بیچاری کسی گنتی ہی میں نہیں تھی۔
جانتی تھی وہ شاہ میر کی زندگی میں کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی۔ اس کا رویہ
اس سے کافی ہتک آمیز تھا ۔۔۔۔ اس لیے اس کے بدلے رویے کی وجہ جاننے کی ہمت
ہی جُٹا نہیں پائی۔ وہ واش روم سے نہا کر نکلا تھا۔ اپنے گھنگریالے بالوں
کو تولئے سے پوچتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوکر مہنگے ڈیوڈرنٹ کا سپرے
کیا تھا۔ کمرا مہک اُٹھا۔
"یہ تم اتنی منحوص شکل بنا کر کیوں بیٹھی ہو ۔۔۔ اوہ! اب سمجھا بھیا جانی
کی بات طے ہونے کا غم منا رہی ہو ناں۔" اسے ٹیز کرنا چاہا تھا۔ مگر وہ
زہریلی ہنسی ہنس دی تھی۔ اور نظر اُٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
"اچھا مگر مجھے تو خوشی ہے کہ آپ کے بھیا جانی کی شادی ہونے والی ہے ۔۔۔
ابھی ماما اور امی کے ساتھ شاپنگ کرنے گئی تھی۔۔۔۔ انگیجمنٹ ڈریس اور
جیولری میری چوائیس کی ہے ۔۔۔۔ آپ کو دکھاؤں ۔۔۔ رئیلی اٹس ویری بیوٹی فل۔"
وہ جان بوج کر بڑے اکسائیٹڈ انداز میں اس سے اپنی آج کی کار گزاری بیان
کرنے لگی تو وہ اس کے انداز پر ذرا چڑ سا گیا۔ وہ تو اس کے چہرے پر اداسیت
کو دیکھنا چاہتا تھا۔ مگر وہ بھیا جانی کی منگنی پر بڑی خوش تھی۔
"ویل منگنی بھیا جانی کی ہو رہی ہے, میری نہیں سمجھیں۔"
"تو آپ غصہ کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کو تو خوش پونا چاہیئے ۔۔۔ آپ کے بھائی کی
منگنی ہے ۔۔۔۔ آفٹر آل ہی از یور بگ برادر۔"
"کیا جتانا چاہتی ہو تم؟ ۔۔۔ ہاں۔"
وہ غصے سے اس کی طرف پلٹا تھا اور ہاتھ میں پکڑی پرفیوم کی بھاری بوتل اسے
کھینچ ماری تھی۔ ہلکی سی چیخ حنین کے منہ سے نکلی تھی اور وہ پیٹ پکڑ کر
دہری ہوگئی تھی۔ سرخ رنگ اس کے چاروں طرف پھیلنے لگا تھا۔ وہ اس پر قہر کی
نظر ڈالتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا تھا اور جیسے ہی دروازہ کھول کر باہر
نکلنے لگا ہی تھا کہ۔
"ششش شاہ ممم میر ۔۔۔ مم. "
تو وہ زہر خند انداز میں اسے پلٹ کر دیکھنے لگا تھا۔
"آئی وش یو ول ڈائی ۔۔۔۔ میں نے تم سے شادی صرف بھیا جانی کو لیٹ ڈاؤن کرنے
۔۔۔۔ انہیں ہرٹ کرنے کے لیے کی تھی ۔۔۔۔ ورنہ تم جیسی گھر کی بو بو ٹائپ
لڑکی سے میں کیوں شادی کرتا ۔۔۔ ہنہ."
وہ اس کے زہر میں بجھے لہجے پر شاکڈ سی رہ گئی تھی۔ اس کا ذہن آہستہ آہستہ
تاریکیوں میں ڈوبنے لگا تھا. درد بہت شدید تھا۔
شاہ میر کھلے دروازے میں کھڑی اپنی ماں کو پلٹنے کے سبب نہیں دیکھ پایا تھا
۔۔۔ جیسے ہی واپس پلٹا تو اپنی ماں کو اپنے سامنے دیکھ کر گھبرا گیا۔
"مم ما ما۔"
ایک زناٹے دار تھپڑ نے آگے اسے کچھ کہنے ہی نہیں دیا۔ ثریہ بیگم تھوڑی دیر
اسے غصے سے گھورتی رہیں مگر اس کے پیچھے بیڈ پر آڑی ترچھی اپنے ہی خون میں
ڈوبی حنین پر نظر گئی تو تڑپ اُٹھیں۔
"تم سے تو میں بات میں پوچھتی ہوں۔ ہٹو میرے راستے سے پہلے ۔۔۔۔ اُف! یہ
کیا حال کردیا ہے تم نے حنین کا۔"
وہ کچھ بھی کہنے کی بجائے سر جھٹکتا باہر نکل گیا تھا۔ ثریہ بیگم تیزی سے
کمرے میں داخل ہوکر حنین کی طرف بڑھی تھیں۔ مگر اسے خون میں لت پت بےہوش
حالت میں دیکھ کر گھبرا گئیں۔ اور تیزی سے اس کے قریب آکر اس کو اُٹھانے کی
کوشش کرنے لگیں۔ مگر وہ تو بے سدھ پڑی تھی اوپر سے بلیڈنگ بھی مسلسل ہو رہی
تھی۔ ثریہ بیگم اب رونے لگی تھیں۔
"یا اللہ میری بچی۔"
"ماما کیا ہوا؟ آپ رو کیوں رہی ہیں؟"
"سلمان! دیکھو حنین کو کیا ہوا ہے ۔۔۔ اتنا خون یا اللہ ۔۔۔"
حنین کو اس حال میں دیکھ کر وہ معاملے کی نزاکت کو سمجھ چکے تھے۔ کچھ بھی
کہے بغیر تیزی سے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ اور خون میں لت پت وجود کو گود
میں اُٹھایا تھا۔
"ماما ڈرائیور کو کہیں گاڑی نکالے۔" وہ ان کی بات سن کر تیزی سے باہر گئی
تھیں۔ ان کے پیچھے سلمان حنین کو اُٹھائے باہر آئے تھے۔ اس کے خون سے ان کے
بھی کپڑے بھیگ چکے تھے۔ گھر میں اتفاق سے اس وقت کوئی نہیں تھا۔ حنین کی
امی شفق بیگم اپنے پورشن میں تھیں ۔ ان کو تو پتہ بھی نہیں چلا کہ ان کی
بیٹی کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
"ماما آپ پیچھے بیٹھ جائیں ۔۔۔ حنین کو میں پھر بیک سیٹ پر لٹا دیتا ہوں۔"
"اچھا۔"
وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں تو سلمان نے حنین کو بھی پچھلی سیٹ پر لٹا دیا۔
"یہ کیز مجھے دو۔" (ڈرائیور سے گاڑی کی چابی لے کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر
بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کر کے ایک نظر پیچھے بے ہوش حنین پر ڈالی تھی اور پھر
تیزی سے گاڑی گھر سے باہر نکالی تھی۔ ایک عجیب سا کرب حنین کے چہرے پر
محسوس کیا تھا )۔
"یا اللہ! اس لڑکی کی حفاظت کرنا میرے مالک۔" دل سے دعا ندا کی صورت نکلی
تھی۔
×××××××××××××
باقی آئندہ۔۔۔
|