ناصر ناکا گاوا جاپان میں پاکستان اور اردو زبان وادب کابے لوث سفیر..آخری قسط

یہاں اس بات کا ذکر نہ کرنا اس سارے تجزیے کے پسِ منظر میں ناانصافی تصور ہو گاکہ ناصر سے ناصر ناکاگاوا تک کا سفر ناصر کے لیے آسان نہ تھالیکن وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ناصر سے ناصر ناکاگاوا ہوگئے۔ اپنے ایک مضمون ”جاپانی معاشرے میں نوجوان اولاد کا اپنے والدین کے ساتھ رویہ و سلوک“ میں لکھتے ہیں۔
میں نے انھیں ]بچوں کو[ یہ بھی احساس نہیں ہونے دیا کہ کبھی وہ سوچیں کہ ہمارا باپ جاپانی کیوں نہیں ہے، میں نے حتی المکان کوشش کی کہ انھیں احساسِ کمتری کا شکار نہ ہونے دوں، انکی خاطر میں نے جاپان کی شہریت اختیار کی انکے نانا کا خاندانی نام ناکاگاواNAKAGAWA اپنے نام کے ساتھ لگایا تاکہ انھیں سوسائٹی میں کسی بھی قسم کا احساسِ محرومی نہ ہو۔
ناصر اپنے بچوں کے سماجی اور خاندانی تعلق کو موضوع بناتے ہوئے نئی نسل کے حوالے سے اپنے قاری کی توجہ ایک انتہائی اہم معاشرتی مسئلے کی طرف مبذول کراتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف جاپانی معاشرے کا نہیں بلکہ یورپ، امریکااور آسٹریلیا میں عام ہے کہ جب بچے بالغ ہو جاتے ہیں تو اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کب گھر سے نکلیں اور آزاد زندگی(جسے وہ آزاد زندگی تصور کرتے ہیں حالانکہ یہ ان کی خام خیالی ہوتی ہے)گزاریں لیکن جو ماں باپ اپنے بچوں کو فیملی کا ماحول مہیا کرتے ہیں، اپنے بچوں کی ضروریات کا ادراک کرتے ہیں، وہ بچے بھی اپنے ماں باپ کا احترام کرتے ہیں اور ان سے بد تمیزی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ایسا ہی معاملہ ناصر کے ساتھ بھی ہوا جب ان کے بیٹے نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی تو وہ بھی ڈر گئے کہ کہیں جاپان کی نئی نسل کی طرح ان کی اولاد بھی اس رو میں تو نہیں بہہ گئی لیکن چونکہ ناصر اور ان کی اہلیہ نے اپنے بچوں کو مشرقی رسم ورواج سے بہرہ مند کیا ہوا تھا اس لیے ان کا یہ ڈر بس ایک وہمہ ثابت ہوا جب ان کے بیٹے نے ان سے یہ گفتگو کی۔
آج سے چار سال قبل جب میں نے عادل کے کمرے پر دستک دی اور اندر داخل ہوتے ہی اسکی جانب دس ہزار ین کا نوٹ بڑھایا تو یک دم وہ اپنی کرسی ے کھڑا ہو گیا ہمیشہ کی طرح اسکے چہرے پر مسکراہٹ نہ تھی بلکہ سنجیدہ نظر آرہا تھا،مجھے گمان ہوا کہ شاید پچھلے ایک سال سے اسکے جیب خرچ میں اضافہ نہیں کیا ہے اور شاید وہ غصے میں آگیا ہے کہ اب میں یونیورسٹی جارہا ہوں اور میرا باپ مجھے ابھی بھی یہ حقیر رقم بطورِ جیب خرچ دے رہا ہے!!اسکی خاموشی اسکے چہرے کا بدلتا ہوا رنگ اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا مجھے پریشان کرگیا میرا دل ڈوبنے لگا۔میں نے کئی پاکستانی دوستوں سے سن رکھا تھا کہ جب جاپانی بچے جوان ہوجاتے ہیں تو یہ باغی ہوجاتے ہیں،ماں باپ سے بدتمیزی کرتے ہیں اور گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں،میں ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ اس نے میرا وہ ہاتھ جس میں میں نے نوٹ پکڑا ہوا تھا اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے کہا کہ اوتوساں OTOSANیعنی ابا جان اب میں آپ سے یہ جیب خرچ نہیں لونگا!!! آپ نے بچپن سے لیکر اب تک ہم دونوں بھائیوں کو جو محبت دی ہے اور ہماری تربیت کی ہے اور ہمارا ہر طرح سے خیال رکھا ہے ہمیں اچھے اسکولوں میں اور اچھی ٹیوشن لگا کر پڑھایا ہے اور جو خوشگوار ماحول فراہم کیا ہے اور ہمارے لئے اتنا خوبصورت گھر تعمیر کیا میں اسکے لئے آپکا بے حد شکر گزار ہوں، مجھے معلوم ہے کہ یہ سب کچھ کرنے میں آپ نے انتھک محنت اور جدو جہد کی ہے۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یونیورسٹی کے چار سال کے اخراجات کتنے ہوئے ہیں مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ نے اور اوکاساں OKASAN یعنی امی جان نے ہمارا کتنا خیال رکھا ہے۔میں نے اب یونیورسٹی جانا شروع کردیا ہے اور ساتھ ہی ایک ریستوران پر ہفتے میں تین دن چند گھنٹوں کی پارٹ ٹائم جاب بھی تلاش کر لی ہے، میں آج کے بعد اپنے اخراجات خود پور ے کرونگا اور آپ لوگوں پر مزید بوجھ نہیں ڈالونگا بلکہ میری خواہش ہو گی کہ میں کچھ نہ کچھ کما کر ماں کے ہاتھ پر رکھوں مگر ہوسکتا ہے کہ میں یہاں تک نہ کرسکوں پھربھی عہد کرتا ہوں کہ اب مزید آپکی طرف سے ایک ین بھی قبول نہیں کرونگا،آپکا بہت شکریہ، عادل یہ الفاظ کہتے ہوئے میرے گلے لگ گیا اور ہم دونوں باپ بیٹا کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ میں نے دس ہزار کا نوٹ واپس اپنے پرس میں رکھا تو عادل نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ آپ شاہ رخ کو جو جیب خرچ دیتے ہیں اس میں دو ہزار ین کا اضافہ کردیں کیونکہ وہ بہت ہی خود دار ہے اور کبھی بھی جیب خرچ میں اضافے کے لئے نہیں کہے گا۔عادل کے یہ الفاظ سن کر میں دھڑام سے اس کے بیڈ پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ جو بچے بغاوت کا ایسا انداز اختیار کریں تو کیا وہ بد تمیز ہوتے ہیں؟
ناصر ناکاگاوا ہمیشہ اپنے گرد وپیش کے حالات سے آگا ہ رہتے ہیں اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جس سے ہمیں بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہزیمت کا سامنا کر نا پڑے یااپنی نظریں شرم سے نیچی کرنا پڑیں یا صفائیاں پیش کرنا پڑیں تو اایسے مواقع پر ایک ایماندار لیکن جاندار صحافی کا قلم جنبش میں آتا ہے اور سچائی کو قلم کی طاقت سے بیان کیے بغیر نہیں رہتا۔ حال ہی میں جب جاپان کی ایک معروف سماجی شخصیت جس نے اپنی زندگی کا سرمایہ افغانستان کے مسلمانوں کی خدمت میں گزار دیا جب ایسی قابل ِ ستائش شخصیت کا بہیمانہ قتل کیا گیا تو ناصر ناکاگاوا کو اس کا دلی رنج ہوا کیونکہ ناصر بھی ایک جاپانی ہے اور پھر جاپانی مسلمان ہے۔ اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہوں نے ”جاپانی سماجی کارکن تیٹسو ناکامورا کا قتل نام نہاد مسلمانوں کے منہ پر طمانچہ ہے“ کے عنوان سے لکھا کہ:
ڈاکٹر ناکا مورا جو کہ طبیب تھے مگر انہوں نے افغانستان کی عوام کے لئے سخت محنت و مزدوری اور مشقت بھی کی۔ انہوں نے کنویں کھودے اور نہریں بنانے کے لیے سخت جدو جہد کی، ان کا کہنا تھا کہ یہاں کے لوگوں کو صاف پانی میسر آجائے تو انہیں ڈاکٹر زکے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ایسے انسان کو قتل کرنا انسانیت کے قتل کے مترادف ہے اور نام نہاد مسلمانوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام سلامتی کا مذہب ہے، ایسے خنزیروں نے اسلام کا تصور اور معنی تبدیل کرکے رکھ دیئے ہیں۔
فی الحقیقت اگر اس واقعے کو دیکھا جائے تو ناصر ناکا گاوا کا بیان کچھ غلط نہیں ہے کیونکہ کچھ ان پڑھ اور جاہل لوگوں نے اسلام کی تشریح اپنے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر کرلی ہے۔ہماری تو دعا ہے کہ اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے لیکن جہاں تک ناصر ناکا گاوا کے جذبات کا تعلق ہے تو وہ ایسے ہی ہونا چاہیے تھے بلکہ ہر سچے انسان اورمسلمان کو ایسے ہی جذبات کا عکاس اور غماز ہو نا چاہیے۔
راقمالحروف نے پچھلی اقساط میں ناصر ناکاگاوا کے سفر ناموں اور دیگر اصنافِ ادب پر خامہ فرسائی کی ہے اور جن خصائص کو اجاگر کیا گیا ہے وہ فی الواقعی ان کی تحریروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ امید ہے ناصر اسی تواتر کے ساتھ لکھتے رہیں گے اور پاکستان نیز جاپان سے
اپنی محبت کا اظہار بھی کرتے رہیں گے۔
٭٭٭٭٭ تمت بالخیر٭٭٭٭٭
 

Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 198786 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More