بیٹی کی شادی میں والدین اور رشتے داروں کی طرف سے دیا
جانے والا سامان جہیز (dowry)کہلاتا ہے ، خواہ نقد ہو یا سامان۔ یہ قبیح
رسم قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے اور تقریباً ہر ملک اور ہر علاقے میں
مختلف صورتوں میں رائج ہے ۔ عام طور سے زیورات ، کپڑے لتّے ، نقدی اور
روزانہ استعمال کے برتنوں وغیرہ پر اس کا اطلاق کیا جاتا ہے اور بعض حضرات
کا خیال ہے کہ برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں یہ رسم ہندو اثرات کے سبب
داخل ہوئی اور اب ایک لعنت کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔اس کے نقصانات سے کوئی
دانا و بینا انکار نہیںکر سکتا۔ سب جانتے ہیں کہ بے شمار شادی شدہ خواتین
اسی کے سبب نذرِ آتش کر دی گئیں اور لا تعداد بچیاں ڈھلتی عمر کے باوجود
ازدواجی خوشیوں اور مسرتوں سے محروم ہیں۔ جہیز نہ جُٹا پانے کے سبب ان کا
ہاتھ تھامنے والا کوئی با غیرت مرد میسر نہیں۔ ویسے یہ حال صرف لڑکیوں کا
ہی نہیں بلکہ بہت سے لڑکوں کا بھی ہے ،یعنی یا تو بلا جہیز بیاہ کرنے کو
عیب بتا کر خود ان کے دماغ میںشروع سے یہ بٹھا دیا گیا ہے جس کے سبب وہ
خواہی نہ خواہی ازدواجی زندگی کی مسرتوں سے محروم ہیں، یا ان کے ماں باپ اس
موقع پر بیٹانام کا چیک کیش کرانے کے متمنی ہیں۔لوگوں نے اس کے مختلف طریقے
بھی نکال لیے ہیں کہ کوئی تو ذرا شرماتے ہوئے خود ہی یہ اندازہ لگاتا ہے کہ
لڑکی والا کیا دے سکتا ہے ؟ کچھ شرم بیچ کر کھا جانے والے ایسے افراد بھی
معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو صاف لفظوں میں لڑکی والوں سے معلوم کرتے نظر
آتے ہیں کہ یہ بتاؤ دوگے کیا؟
معاشرے کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ جہیز کی رسم کے سبب نہ جانے کتنی ہی عورتیں
گھر میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو رہی ہیں اور نہ جانے کتنی جگہ جہیز کی کمی کی
وجہ سے عورتوں کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے ۔اس سلسلے کے بے شمار حادثات
اخباروںکی زینت بنتے رہتے ہیں کہ کس طرح ہماری بہن بیٹیوں کے ساتھ مار پیٹ
کی جاتی ہے اوررات دن اُنھیں جسمانی و ذہنی درد ناک عذاب دیے جاتے ہیں۔کتنے
ہی مقامات پر جہیز کا مطالبہ پورا نہ ہونے کے سبب مال کی ہوس میں انھیں
زندہ جلا کر بھسم کر دیا جاتا ہے ۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمارا سماج انسانی رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت
دینے لگا ہے ، جس کی وجہ سے یہ لعنت جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جا رہی ہے ۔یہ
بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کو چوں کہ ہر صورت میں ایک
سخت ترین گالی و گناہ سمجھا جاتا ہے ،اس لیے خود عورت بھی ایسے ظالم اور
شوہر کے طمانچے تو برداشت کر لیتی ہے لیکن مطلقہ ہونا برداشت نہیں کر
پاتی۔دوسروں کی دیکھا دیکھی جہیز کی لعنت مسلمانوں میں بھی پائی جانے لگی
ہے ،اور جواز اس کا یہ نکالا ہے کہ’وہ تو سب ہی دیتے ہیں‘۔جب کہ علما نے
صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ لڑکی والے اپنی بیٹی کو شادی کے وقت ضروریاتِ
زندگی کا جو سامان دیتے ہیں وہ شرعاً مباح ہے ، اور جو سامان لڑکی کو جہیز
میں دیاجاتا ہے وہ اس کی ملکیت ہے ، شوہر کا اُس میں کوئی حق نہیں ہے ،
البتہ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ کرنا اور اُس پر اِصرار کرنا
قطعاً جائز نہیں۔ [کفایت المفتی،امداد الاحکام]
اسلام میں نکاح کی حیثیت ایک معاہدے کی ہے جس میں مرد و عورت قریب قریب
مساویانہ حیثیت کے مالک ہیں یعنی نکاح کی وجہ سے شوہر بیوی کا یا بیوی شوہر
کی مالک نہیں ہوتی اور عورت اپنے خاندان سے مربوط رہتی ہے ، والدین کے
متروکے میں تو اس کو لازمًا حصۂ میراث ملتا ہے ، بعض اوقات وہ بھائی بہنوں
سے بھی حصہ پاتی ہے ۔ ہندو مذہب میں نکاح کے بعد عورت کا رابطہ اپنے خاندان
سے ختم ہوجاتا ہے ، شاستر قانون کی رو سے وہ اپنے خاندان سے میراث کی حق
دار نہیں رہتی، اسی لیے جب لڑکی کو گھر سے رخصت کیا جاتا تھا تو اسے کچھ
دان دے کر رخصت کیا جاتا تھا۔بد قسمتی سے مسلمانوں نے بھی بہ تدریج اس
ہندووانہ رسم کو اپنا لیا، اب مسلمانوں میں بھی جہیز کے لین دین اور پھر
لین دین سے بڑھ کر جہیز کا مطالبہ اور اس سے بھی آگے گزر کر جہیز کے علاوہ
تلک سرانی اور جوڑے کے نام سے لڑکوں کی طرف سے رقم کے مزید مطالبات کا
سلسلہ چل پڑا ہے ۔ یہ اسلامی تعلیمات اور شریعت کے مزاج کے بالکل ہی برعکس
ہے ۔ اسلام نے تو اس کے برخلاف مہر اور دعوتِ ولیمہ کی ذمّے داری شوہر پر
رکھی تھی اور عورت کو نکاح میں ہر طرح کی مالی ذمّے داری سے دور رکھا تھا۔
فقہا کے یہاں اس بات کا کوئی تصور ہی نہیں تھا کہ مرد بھی عورت سے روپے کا
مطالبہ کرسکتا ہے ، اس لیے اس مسئلے کا عام طور پر کتبِ فقہ میں تذکرہ نہیں
ملتا، البتہ اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ لڑکی کا ولی اگر مہر کے علاوہ داماد
سے مزید رقم کا طلب گار ہو تو یہ رشوت ہے اور یہ مطالبہ جائز نہیں۔ تاہم
بعض فقہا کے یہاں لڑکے اور اس کے اولیا کی طرف سے مطالبے کی صورت کا ذکر
بھی ملتا ہے ، اس لیے تلک اور جہیز کا مطالبہ رشوت ہے اس کا لینا تو حرام
ہے ہی، شدید ضرورت کے بغیر دینا بھی جائز نہیں، اور لے چکا ہو تو واپس کرنا
واجب ہے۔[دیکھیے جدید فقہی مسائل]اورجہیز میں اہمیت مقدار کی نہیں بلکہ
مطالبے کی ہے ، مطالبہ کسی چھوٹی سی چیز کا ہو تو بھی لینا گناہ ہے ، اور
اگر کہہ دیا جائے کہ مجھے کچھ جہیز نہیں چاہیے صرف لڑکی مطلوب ہے ، اور دل
میں بھی سامان لینے کا چور نہ چھپا ہوا ہو، اس انکار کے باوجود اگر لوگ کچھ
دے دیں تو اسے قبول کیا جاسکتا ہے ، گو زیادہ سامان ہو کہ اب یہ رشوت نہیں
، بلکہ ہدیہ ہے۔[کتاب الفتاویٰ]یعنی بلا مطالبہ ملنے والا جہیز ایک ہدیہ ہے
جو باپ اپنی استطاعت کے مطابق لڑکی کو بہ وقتِ رخصتی دیتا ہے ۔ جہیز کا
مروجہ خاکہ(جس میں صرف نمودونمائش، بے جا اسراف اور ضرورت سے زیادہ دکھلاوے
کی چیزیں شامل ہوتی ہیں، اس کا) شریعت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ لڑکی
والوں کے لیے ایک جبر اور اضطرار ہے۔ حضور اقدس ﷺ سے حضرت فاطمہ ؓکو معمولی
سا ضرورت کا سامان دینا ثابت ہے لیکن مروّجہ جہیز کا قرونِ اولیٰ میں نہ
کوئی ثبوت ہے اور نہ اس وقت اس کا رواج تھا۔[نجم الفتاویٰ]
|