لکھنےپڑھنے کا مشغلہ تو بچپن سے جاری تھا پہلے صرف شعر و
شاعری سے دلچسپی تھی، سات سال پہلے جب میں نے سعودیہ کے معروف اردو اخبار "
اردو نیوز"کے لئے کالم لکھنا شروع کیا تو صحافی میرے لئے بڑی مقدس مخلوق
ہوا کرتی تھی ، میری نظر میں یہ وہ لوگ تھے جو کسی کو انصاف دلانے کے لئے
اپنی جان تک دے دیا کرتے ہیں ۔ اور آج بیسیوں اخبارات میں میرے کالمز چھپنے
اور سالوں کے تجربے کے بعد جب میں پانچ اخبارات کے لئے ہفتہ وار کالم لکھتا
ہوں تو کئی لوگ فون کالز اور ای میلز پہ میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور
کئی لوگ گالیوں سے بھی نوازتے ہیں تو آج بھی صحافت میرے لئے اتنی ہی مقدس
اور مشنری ہے جتنی پہلے دن تھی ۔
لیکن آج شائد صحافی میرے لئے مقدس گائے نہیں رہے ، اس کی بہت ساری وجوہات
ہیں صحافی خود صحافت کی تباہ حالی کے ذمہ دار ہیں اس میں بڑا حصہ ویب چینلز
اور صحافی یونینز کا ہے جو ہر ایرے غیرے کو چند ہزار روپوں کے لالچ یا اپنی
افرادی قوت میں اضافہ دکھانے کے لئے پریس کارڈز کا اجراء کر دیتے ہیں ۔
گذشتہ دنوں ایک دوست ملنے کے لئے آئے ، مذکورہ شخص ایک اخبار کے لئے کام
کرتے ہیں، باتوں باتوں میں میں نے پوچھا " اخبار آپ کو کیا دیتاہے؟" کہنے
لگے ادارہ کچھ نہیں دیتا البتہ پریس کارڈ اور اخبار خریدنے کے پیسے بھی
اپنی جیب سے ادا کرنے پڑتے ہیں اور ہر تین ماہ بعد اشتہار کے لئے بھی پانچ
دس ہزار بھجوانے پڑتے ہیں "۔ "پھر گھر کیسے چلاتے ہیں؟" میرے سوال کے جواب
میں ان کی معنی خیز مسکراہٹ مجھے صحافت کی بربادی و تباہ حالی کی پوری ایک
کہانی سمجھا رہی تھی ۔
اردو صحافت کا ناصرف تحریک پاکستان میں بڑا نمایاں کردار رہاہے بلکہ
پاکستان بننے کے بعد بھی ایک لمبا عرصہ اردو اخبارات بڑی ذمہ داری اور فرض
شناسی سے اعوام کو حقیقی شعور و آگہی بخشتے رہے ، یہ وہ دور تھا جب اخبارات
کے مالکان اور ایڈیٹرز کو اپنی زبان سے محبت تھی اور ان میں سے اکثر خود
شاعر ہوا کرتے تھے جس کی وجہ سے املاء کی غلطی یا غیر موزوں عبارت کے چھپنے
کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور اگر کبھی غلطی سے ایسا ہو بھی جاتا تو
اگلے دن باقاعدہ اس کی وضاحت جاری کرتے ہوئے قارئین سے معافی مانگی جاتی
تھی۔
اور آج درجنوں ایسے اخبارات اور ٹی وی چینلز ہیں جہاں ہر روز زبان و بیان
کی غلطیاں کی جاتی ہیں اور لوگ اسے نوٹ کررہے ہوتے ہیں ، بات صرف زبان و
بیان تک رہتی تو بھی غلط تھا لیکن یہاں تو ایسی ایسی خرابیاں جڑ پکڑ چکی
ہیں کہ اگر انہیں نا روکا گیا تو پوری صحافت کا ستیاناس ہوجائے گا ۔
منشیات فروش ، قبضہ گروپس ، بلیک میلرز اور پتہ نہیں کیسے کیسے لوگ ان پریس
کارڈز کی آڑ میں چھپے بیٹھے ہیں ، اب تو ایسے لوگ بھی خود کو صحافی کہتے
ہیں جو اردو بھی اچھی طرح سے نہیں لکھ سکتے خبر بنانا تو دور کی بات ہے ۔
وہ لوگ جو دیانتداری سے اپنے صحافتی فرائض احسن انداز سے ادا کرتے ہیں وہ
بھی صحافتی زوال کے ایک طرح سے ذمہ دار ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے ارد
گرد ایسے لوگ موجود ہیں جو صحافت کے پیچھے چھپے غلط کام کرتے ہیں لیکن پھر
بھی خاموش رہتے ہیں ۔ ایسے ناسوروں کو اپنے وجود سے کاٹ پھینکنا بہت ضروری
ہے وگرنہ مرض لا علاج ہوجائے گا ۔
|