پچھلے دس دنوں سے ملک بھر میں عصمت دری کےخلاف ملک کی
عوام مسلسل احتجاجات کررہے ہیں، کیا ہندو ۔ کیا مسلمان سب کی زبان پر ایک
ہی ہے بیان کہ عصمت دری کے ملزمان کو پھانسی کی سزا دی جائے ، سال2012 کے
دسمبر میں بھی یہی حال ہوا تھا ، اس وقت دہلی کی نربھیا ( بدلاہوا نام )
نامی لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کے معاملے کے بعد پورے ملک میں احتجاج کی
لہر اٹھ کھڑی ہوئی تھی ، اس احتجاج پر حکومت نے چستی دکھاتے ہوئے ملزمان کو
فاسٹ ٹراک کورٹ میں پیش کیا اور ملزمان کو پھانسی کی سزادینے کے لئے عدالت
نے احکامات دئے ، یہ بات اور ہے کہ 2012میں ہونے والے اس معاملے کے ملزمان
کو 2019 تک بھی سرکاری مہمان بنارکھاگیا ہے اور ملزمان چار دیواری میں ہی
مزے لوٹ رہے ہیں۔ اب ملک میں پھر ایک مرتبہ عصمت دری کے قاتلوں کو سخت
سزادینے اور ایسے معاملات کی سزاء فوری طورپر دینے کے لئے آواز بلند ہوئی
ہے ۔ پچھلے دنوں حیدرآباد کی ڈاکٹر پرینکا ریڈی اجتماعی عصمت دری اور قتل
کی واردات کا شکار ہونے والی ایک لڑکی تھی ۔ اس واردات نے ملک کے قانون پر
پھر ایک مرتبہ سوال پیدا کردیاہے کہ کیا 2019 میں عصمت دری کرنے والے چار
ملزموں کو سزاء پانے کے لئے 2025 تک کاانتظارکرنا پڑیگا ؟ ۔ اس سے بڑا سوال
یہ ہے کہ جس ملک میں سالانہ ہزاروں عصمت دری کے معاملات درج کئے جاتے ہیں
ان معاملات پر حکومتیں سخت کارروائی کرنے کے بجائے محض ان معاملات کو ہی
کیونکر سنجیدگی سے لیا جاتاہے جو میڈیا اورسوشیل میڈیا پر بحث کا موضوع بن
جاتے ہیں ۔ نربھیہ ، آصفہ ، دیویا ، ٹوئنکل ، ڈاکٹر پرینکا ریڈی کے معاملے
درمیان ہی کرنا ٹک کے گلبرگہ ضلع کی ایک اور معصوم بچی کے ساتھ جنسی
حراسانی کا معاملہ پیش آیاہے ۔ جبکہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق
2016 میں 36800 اور 2015 میں 34300 افراد کو عصمت دری کے معاملات ملک میں
پیش آئے ہیں ۔ وہیں سال 2016 میں ہی 1600 نابالغ بچیوں کے ساتھ عصمت دری
ہوئی ہے ، یہ اعداد و شمار 2016 تک کے ہیں جبکہ مزید اعداد کو حکومت نے
جاری نہیں کیا ہے ۔ ملک میں ہر سال ایک یا دو بچیوں یا عورتوں کی عصمت دری
کے معاملات پر سوال اٹھائے جاتے ہیں جبکہ ہزاروں لڑکیوں اوربچیوں کے
معاملات پر ملک میں عوام سے لے کر ایوانوں میں خاموشی کیوں چھائی رہتی ہے ۔
دراصل ملزموں اور شیطانی سوچ رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ یہ ہندوستان ہے
اور یہاں جب گاندھی نہرو کےقاتلوں کو بخشاجاتاہے تو ہم جیسے عام ملزموں کو
کیا سزا ملے گی ۔ کرناٹک کے سائنیڈموہن جس پر درجنوں خواتین کی عصمت دری
اور قتل کا الزام ہے وہ اب تک صرف عدالتوں کے چکر کاٹ رہاہے اور اس پر
الزامات طئے ہونے کے باجود سزا نہیں دی گئی ہے جبکہ کچھ معاملات میں سزا تو
سنائی گئی ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا ہے ۔ عصمت دری کے معاملات میں
اضافہ ہونے کی اہم وجوہات کی فہرست بنائی جائے تو اس میں جو اہم نکات ہم
دیکھ سکتے ہیں اس میں اول تو کمزور قانون ہے ۔ کسی بھی ریپ کے ملزم کو مجرم
قرار دینے کے لئے جو قانون ہے اس قانون کے مطابق برسوں تک ملزمان کو انتظار
کرناپڑتاہے اور اگر چہ سزا مل بھی جاتی ہے تو اس پر عمل کرنے کے لئے برسوں
لگ جاتے ہیں ۔ دوسری بات ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا ہے جو اشتہارات کے نام
پر فحش مواد کو عام کرتے رہتے ہیں جس سے بچوں و نئی نسلوں کے ذہینوں میں
منفی اور فحش سوچ پیدا ہوتی ہے۔ تیسری وہ بات جو ہمارے معاشرے میں عام ہے ،
وہ یہ ہے کہ گھروں میں خواتین و مرد جو سیریلس و فلمیں اجتماعی طورپر
دیکھتے ہیں اس میں بھی تو فحش مواد ہی زیادہ ہوتاہے خاص طورپر سیریلس
میںاِسکی بیوی اُسکے گھر ۔ اُسکی بیوی اِسکے گھر ۔ ایک بیوی کے کئی شوہر
اور کئی شوہروں کی ایک بیوی جیسے سیریلس بچوں کو ساتھ میں لے کر دیکھے
جائیں ، عریاں گانوں پر بچوں کو ڈانس کرائے جائیں تو بچوں کی سوچ میں وہی
تو آئیگا جو دن رات دیکھا جائیگا۔ کینڈل مارچ کرنے سے، ڈی سی و کمشنر آفس
کے سامنے احتجاج کرنے سے عصمت دری کے معاملات میں کمی نہیں آسکتی بلکہ کمی
اس وقت آسکتی ہے جب قانون کو مضبوط بنایا جاتا۔ جس طرح سے عرب ممالک میں
عصمت دری کے ملزمان کو کھلی پھانسی کی سزا دی جاتی ہے یا انکا قتل کیا
جاتاہے اسی طرح کا قانون بھی اگر ہمارے ملک میں آجائے تو یقیناًمزید
نربھئے شکار نہیں ہونگی ۔ لیکن سوچنے کا پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کی قانون
ساز اسمبلیوں میں ان قوانین کی تائید کون کریگا کیونکہ قانون ساز اسمبلی جن
میں ودھان سبھا، ودھان پریشد اور پارلیمنٹ میں 35 فیصد کے قریب ایسے اراکین
ہیں جن پر عصمت دری کے معاملات درج ہوچکے ہیں اور وہ معاملات عدالتوں میں
زیرسنوائی ہیں ، غورکرنے کی بات یہ بھی ہے کہ ریپ کے الزامات میں ملوث اکثر
اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمان میں سب سے زیادہ تعداد نریندر مودی کی
سیاسی جماعت بی جے پی اور بی جے پی کی سرپرست تنظیم آریس یس سے ہے ۔ ایسے
میں ملک بھلا ہم کیسے سوچ بھی سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے وزیر
اعظم ان زانیوں کو روکنے کے لئے موت کی سزا کا قانون بنائینگے جبکہ وہ تو
ہرپانچ سال بعد ایسے ملزمان کو ٹکٹ دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ۔ یہ بات تو
کہی جاتی ہے کہ وہ ملزم ہیں مجرم نہیں ہیں اس لئے قبل ازفیصلہ کچھ بھی کہنا
درست نہیں ہے ۔ جبکہ عدالتوں میں فیصلے کیسے کیسے ہورہے ہیں وہ بابری مسجد
کے فیصلے سے معلوم ہوجاتا ہے ۔ اگر کچھ بدلنا ہے عوام کو اپنی سوچ بدلنی ہے
اور ایک کینڈل مارچ اور ایک میمورنڈ م دے کر گھروں میں بیٹھنے کے بجائے اسے
ایک تحریک کے طورپر انجام دینے کی ضرورت ہے ۔ |