ابیشہ دارین کی ممانی کے رشتے داروں میں سے تھی اسکی
والدہ کا انتقال ہو چکا تھا وہ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ دو چار
ملاقاتوں میں دارین اسکے بارے میں اتنا ہی جان پایا تھا کہ وہ بھی کم و بیش
اسی جیسے حالات سے تعلق رکھتی تھی۔ والدہ کے انتقال کے بعد وہ بھی خود کو
اکیلا محسوس کرتی تھی۔ وہ بے انتہا خوب صورت تھی لیکن شادی کےلئے اسکا
انتخاب بھی ایسا ہی شوہر تھا جو اسکے کسی معاملے میں روک ٹوک نہ کرے۔
وہاپنی ویلفیئر کی سرگرم رکن تھی لوگ اس پر اعتماد کرتے تھے وہ بڑے بڑے
چیرٹی شوز آرگنائزر کر چکی تھی وہ دارین کی طرح گمنام سوشل ورکر نہیں تھی ۔
اور دارین کے ماموں ممانی کو بھی درحقیقت اسکی اسی خوبی نے متاثر کیا۔ انکی
نظر میں جس طرح دارین پیسے لٹا رہا تھا اسکا نہ ہی کوئی فائدہ تھا نہ ہی
کوئی حاصل۔ اصل میں لوگوں کی مدد کرنے کا صحیح طریقہ وہی تھا جو ابیشہ نے
اختیار کیا اس لئے وہی دارین کو یہ بات سمجھا سکتی تھی۔اور اس نے ایسا ہی
کیا۔ شادی کے بعد دارین نے اپنے لئے نسبتا سادہ طرز زندگی کا انتخاب کیا۔
اس نے اپنے والدین کے بنگلے میں جانے کے بجائے ایک پوش علاقے میں فلیٹ
خریدااور وہاں شفٹ ہوگیا۔ اگرچہ ابیشہ نے اعتراض کیا لیکن دارین نے اسے
قائل کر ہی لیا۔ انکی ازدواجی زندگی شروع سے ہی مسائل کا شکار تھی لیکن
دارین کو اندازہ اس وقت ہوا جب ابیشہ نے مسلسل تیسری مرتبہ ملازم بدلے۔ تب
دارین کو احساس ہوا کے اسکا ملازمین کے ساتھ دوستانہ رویہ اور انکی ضرورتوں
کا خیال رکھنا ابیشہ کو پسند نہیں ہے جانے انجانے میں وہ نئے ملازمین سے
کھچا کھچا رہنے لگا تاکے کم از کم انکا روزگار سلامت رہے۔ بات یہاں ہی ختم
نہیں ہوئ بلکہ کچھ عرصے بعد ابیشہ نے آفس کے معاملات میں بھی مداخلت شروع
کردی۔ اب اسکی پرنسل سیکٹری سمیت آفس کے تمام بڑے عہدے داران نہ صرف ابیشہ
کے منتخب کردہ تھے بلکہ وقتا فوقتا دارین کے بارے میں مفید اور معنی خیز
معلومات ابیشہ تک پہنچاتے بھی رہتے تھے۔ اور یہ باتیں اکثر و بیشتر ان
دونوں کے درمیان بڑے بڑے جھگڑوں کا باعث بنتی رہتی تھیں۔ وہ جو لوگوں کی
سوچ بدلنے کے لئے کوشاں تھا کوششوں کے باوجود ابیشہ کی عادت اور فطرت بدلنے
سے قاصر تھا۔ اوپر سے شادی کے چار سال بعد بھی وہ دونوں اولاد کی نعمت سے
محروم تھے اس کمزوری نے ابیشہ کو اورحساس بنا دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن دارین آفس آیا تو اسکی نظر سدرہ پر پڑی۔ سدرہ اسکے آفس میں کام کرنے
والے ایک ملازم کی بیوہ تھی۔ایک بیماری نے اسکے شوہر کی جان لے لی تھی۔وہ
پٹھان فیملی سے تعلق رکھتی تھی کھلتی ہوئ گوری رنگت اور گہری براون آنکھیں
اوپر سے کم عمری میں ہیاسکا بیوہ ہوجانا۔ دارین نے اسے پہلی بار تب ہی
دیکھا تھا جب وہ اپنے شوہر کے واجبات کے سلسلے میں آفس آئ۔تب اسکے پاس ایک
لیٹر بھی تھا جو اسکے شوہر نے اپنی زندگی میں ہی دارین کے لئے لکھا تھا۔ اس
نے واقعی اپنی خود داری کا مان رکھا تھا اور آخر وقت تک دارین سے نہ ہی مدد
مانگی اور نہ ہی اپنی بیماری کا بتایا حالانکہ وہ دارین کی دریا دلی سے
اچھی طرح واقف تھا۔ لیکن وہ چاہتا تھا کہ اسکے بعد اسکے بیٹے کی پڑھائی کے
اخراجات دارین اٹھائے انکا ایک ہی بیٹا تھا اور اسکی ذندگی میں وہ پرائیویٹ
اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ سدرہ بھی اسی اسکول میں اسکی تعلیم جاری رکھنا
چاہتی تھی اسی لئے وہ اپنے گاؤں نہیں جانا چاہتی تھی وہ یہاں اپنے والدین
کے ساتھ رہتی تھی باقی گھر کا گزارہ اسکے شوہر کی پنشن سے ہوجاتا تھا تھوڑا
بہت اسکا باپ بھی کما لیتا تھا۔ لیکن اجمل کی تعلیم انکے بس سے باہر تھی
اوپر سے اسکے شوہر کا خط۔ چنانچہ پچھلے ڈیڑھ سال سے دارین ہی اسکے اخراجات
اٹھا رہا تھا۔ لیکن کچھ عرصے پہلے یہ بات ابیشہ کو پتہ چل گئی۔ وہ ہر مہینے
پابندی سے سدرہ کے اکاونٹ میں مخصوص رقم جمع کرا رہا تھا اور یہ بات ذیادہ
عرصے چھپ نہیں سکتی تھی۔ اس دن وہ دونوں شام کی چائے پی رہے تھے دارین کی
طرف سے بتایا گیا کوئ بھی سچ ابیشہ کی تسلی کے لئے ناکافی تھا۔
تم نہیں جانتے ایسی عورتیں کس طرح مردوں کو بےوقوف بنا کر پیسے بٹورتی ہیں؟
ابیشہ نے چائے کا کپ دیتے ہوئے کہا۔
اور تمہیں لگتا ہے میں وہ بےوقوف مرد ہوں۔ دارین نے چائے کا کپ سامنے پڑی
ٹیبل پر رکھا۔ وہ جانتا تھا اب ایک لمبی بحث چھڑنے والی ہے۔
ایسا نہیں ہے دارین لیکن میں فلاحی ادارے میں کام کرتی ہوں کون مستحق ہے
اور کون نہیں اس بات کا ادراک مجھے تم سے ذیادہ ہے۔
سدرہ کی مدد کوئی فلاحی کام نہیں ہے ابیشہ یہ محض اسکے شوہر کی خدمات کا
صلہ ہے جو اس نے میری کمپنی کے لئے کیں۔
ایک معمولی ورکر تمہاری کمپنی کی کتنی خدمات کر سکتا ہے یہ میں اچھی طرح
جانتی ہوں۔ لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے۔ اور ویسے بھی اس سے پہلے لوگ
اپنی ضرورتوں کی آڑ لےکر تم سے جس طرح فائدہ اٹھاتے رہے ہیں میں نے اس پر
کبھی روک ٹوک نہیں کی۔ اس لئے اس بار تمہیں میری بات ماننی پڑے گی۔
مجھ پر نظر رکھنا، میرے اقدامات کی تفتیش کرنا اور مجھ سے ہر معاملے پر
بازپرس کرنا بھی روک ٹوک کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ اور صورتحال اس بار مختلف
کیوں ہے؟؟ وہ قدرے غصے میں آچکا تھا۔
دیکھو دارین وہ بیوہ ہے خوبصورت ہے جوان ہے لوگ باتیں بنائیں گے۔ اپنے شک
کو اس نے لوگوں کا نام دے دیا تھا۔
وہ صرف ضرورتا ہی میرے آفس آتی ہے بلاوجہ نہیں۔ تو لوگ کیوں باتیں بنائیں
گے؟
ٹھیک ہے پھر یہ معاملہ تم مجھ پر چھوڑ دو اب سے اسکی ساری ذمےداری میں
اٹھاونگی۔ ابیشہ نے آخری حربہ استعمال کیا۔
اوکے۔ لیکن مجھے شکایت کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔ دارین نے ٹھنڈی ہوتی چائے
کا کپ اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔ وہ جانتا تھا اس کے علاوہ کوئی اور چارا بھی
نہیں۔
اس دن سے دارین کا سدرہ سے کوئی رابطہ نہیں تھا اور آج آٹھ مہینے بعد وہ
اسکے آفس میں موجود تھی۔ دارین نے سیکٹری کو کال کرکے سدرہ کو اندر بھیجنے
کا کہا۔ وہ ابیشہ کو سدرہ کے آنے کی اطلاع پہلے ہی دے چکی تھی اور ابیشہ نے
سختی سے منع کیا تھا کے اس کے آنے سے پہلے دارین کو سدرہ کے بارے میں نہیں
بتائے لیکن وہ میٹنگ سے جلدی فارغ ہوکر آچکاتھا۔ اور جب تک ابیشہ آتی سدرہ
اسکے آفس میں جا چکی تھی۔
باقی آئندہ
|