ناصر ناکا گاوا : ان جانی منزلوں کا مسافر ( سفر نامہ )

ناصر ناکا گاوا : ان جانی منزلوں کا مسافر ( سفر نامہ )،الحمد پبلی کیشنز،لاہور ،سال اشاعت ،2019

 تبصرہ نگار: ڈاکٹرغلام شبیررانا

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر ِ سایہ دار راہ میں ہے ( آتش ؔ)
اس عالمِ آب و گِل کی ہر شے مسافرہے اورہر چیز راہی ہے ۔مخلوقات کی زندگی کاسفربھی عجیب سفرہے جس کے اسرار و رموز سرحدِ ادراک سے بھی پرے ہیں۔ماہرین علم بشریات کا کہناہے کہ انسا ن کی زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ ہی جاتاہے مگر جب مسافت کی تکمیل کا وقت آتاہے تو پیرہن دُھول سے اَٹ جاتاہے اورپورا وجودکِرچیوں میں بٹ جاتاہے ۔ ہر انسان اس حقیقت سے آ گاہ ہے کہ اس کا نہ تو ہاتھ باگ پر ہے اورنہ پاؤں رکاب میں ہیں اس کے باوجود رخش ِحیات سرپٹ دوڑ رہاہے ۔ دنیاکے ساٹھ سے زائد ممالک میں پڑھے جانے والے جاپان کے صفِ اوّل کے آن لائن اردو اخبار ’’ اُردو نیٹ جاپان‘‘ کے ذہین مدیر اورجاپان میں مقیم ممتاز پاکستانی ادیب ناصرناکاگاواکاسفرنامہ ’’ ان جانی منزلوں کا مسافر ‘‘حال ہی میں شائع ہوا ہے ۔ تاریخ ، جغرافیہ اورعالمی معلومات سے لبریز اس سفر نامے میں مصنف کے ڈنمارک،ناروے ،اسپین،مکاؤ،ہانگ کانگ اور ویت نام کے اسفار شامل ہیں۔ اس سفر نامے کا انتساب اُن تمام میزبانوں کے نام کیا گیا ہے جنھوں نے مصنف کے اسفار کو خوش گوار بنایا اورغریب الوطنی میں کسی قسم کی اجنبیت کا احساس نہ ہونے دیا۔اس سے قبل ناصر ناکاگاوا کے سفر ناموں کی جو چار تصانیف شائع ہوچکی ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
۱۔دیس بناپردیس (2013)، ۲۔دنیا میری نظر میں(2016)،۳۔دیس دیس کاسفر (2017)،۴۔دیارِ دوستاں(2018)
سفرنامہ ’’ ان جانی منزلوں کا مسافر ‘‘ کے آغاز میں تمہید کے عنوان سے سیّدہ زہرہ عمران کا وقیع مضمون شامل ہے ۔اس کے بعدناصرناکا گاوا کا مضمون ’’ ان جانی منزلوں کا مسافر ‘‘قاری کو کتاب میں شامل اہم مندرجات سے متعارف کراتا ہے ۔ اس سفر نامے کے آخرمیں مضامین و انشائیے کے عنوان کے تحت جن چھے تخلیقات کو جگہ ملی ہے وہ اکیس صفحات پر محیط ہیں۔ ناصر ناکاگاوا کی شخصیت اوراسلوب کے بارے میں دنیاکے ممتاز ادیبوں کے جومضامین شائع ہوئے ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
۱۔نصر ملک ( ڈنمارک ) : آفتاب کی دھرتی کا ماہتاب
۲۔سیّد ندیم حسین ( ناروے ) : ٹوکیو سے آیا ہواایک جاپانی گُڈا
۳۔راجا شفیق حسین کیانی (بارسلونا): ناصر ناکا گاوا ایک چلتی پھرتی آ نکھ
۴۔طیب خان (جاپان): ایک شخصیت کئی رُوپ
۵۔ڈاکٹر اخلاق گیلانی (لاہور ) : عالمی سفیرِ پاکستان
۶۔سیّد عبدالرحیم ( پٹنہ ۔بھارت):ناصرناکا گاوا ابنِ بطوطہ ثانی
۷۔ ندیم فیصل بیگا( اسلام آباد) :چمن میں تلخ نوائی میری گوارا کر
۸۔ رفیعہ سرفراز (ملتان) : ’’دیارِ دوستاں ‘‘ دھنک رنگ تذکرے
ذہین مضمون نگاروں نے ناصر ناکاگاوا کی زندگی اور اسلوب کے بارے میں متعدد حقائق کی گرہ کشائی کی ہے ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ایک تخلیق کار جب پرورش لوح و قلم کا فریضہ انجام دیتا ہے تووہ قلب اور روح کی گہرائیوں سے لیے گئے خیالات سے اس کو نمو بخشتا ہے۔تخلیق ادب کے سلسلے میں یہ بات پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ ادب پارے اس وقت معرض وجود میں آتے ہیں جب تخلیق کار اپنے دل پہ گزرنے والی ہر کیفیت کو الفاظ کے قالب میں ڈھالے۔ایک نیا ادب پارہ جب منصہ شہود پر آتا ہے تو اس کا برا ہ راست تعلق ایام گزشتہ کی تخلیقات سے استوار ہو جاتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کلاسیکی ادب کے ساتھ لمحہ ٔ موجود کی تخلیقات ایک درخشاں روایت کی صورت میں منسلک ہیں۔ ان مضمون نگاروں کے تجزیاتی مضامین سائنسی انداز ِ فکر کے مظہر ہیں جنھیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ایک مثالی نظام ہمہ وقت روبہ عمل لایا جاتا رہا ہے جس کی بدولت تخلیق کار کی منفرد سوچ سے آگاہی ہوتی ہے ۔ سب مضمون نگاروں نے اپنے تاثرات سے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ تخلیقی اظہار کے متعدد امکانات ہو ا کرتے ہیں۔ایک زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کاراپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کو اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے منتخب کرتا ہے یہی اس تخلیق کار کا اسلوب قرار پاتا ہے ۔اردو کے مقبول شاعر سیف الدین سیف ؔ (1922-1993)نے کہا تھا :
سیفؔ انداز بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
یہ آٹھ مضامین تنقید کا ارفع معیار پیش کرتے ہیں۔ ان میں معاشرتی زندگی کی مقامی اور عالمی ترقی کو محفوظ کیا گیاہے ۔ اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں جب اپنے اشہب قلم کی جولانیاں دکھاتا ہے تو تخلیق فن کے اس فعال جذبے کو بالعموم غیر شخصی تصور کیا جاتا ہے ۔ادبی تخلیق کار کے اسلو ب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تخلیق کار کے لیے غیر شخصی معیار تک رسائی بہت کٹھن مرحلہ ہے ۔سفر نامہ لکھتے وقت وہ عالمگیریت کے احساس سے سر شار ہو کر تخلیق ادب کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہوئے اپنے ذات کے بجائے فن پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دردو غم اور مصائب کا ایک غیر مختتم سلسلہ تخلیق کار کو ہر وقت بیدار رکھتا ہے ۔سفر نامہ نگار پر یہ بات بہت جلد واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایسی مختلف النوع صنف ہے جس میں اس کی شخصیت کی نسبت تخلیق ادب کو زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔اس کی تخلیقات کو دوام حاصل ہو گا اور انھی کی بدولت اس کا نام بھی زندہ رہے گا ۔اسلوب در اصل ایک تخلیق کار کے تخلیقی تجربوں کا آئینہ دار ہوتا ہے جسے دیکھ کر اس تخلیق کار کی شخصیت کے جملہ اسرار و رموز کی گرہ کشائی ممکن ہے ۔اسلوب کے ذریعے ایک نقاد کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ تخلیق اور اس کے لاشعوری محرکات کے بارے میں تمامحقائق کوسمجھ سکے ۔مسائل عصر اور حال کے تقاضوں کے بارے میں ادیب جو کچھ محسوس کرتا ہے اسلوب اس کو منعکس کرتا ہے ۔ اس سفر نامے کے پہلے صفحے پر درج یہ شعر سفر نامہ نگار کی شخصیت ، ذوق سلیم اور اسلوب کے بارے میں متعدد حقائق کی جانب توجہ مبذول کراتاہے ۔
سفر کی دُھن ہی کچھ ایسی کہ رُک نہیں پاتا
’’ وہ شخص چلتا ہی رہتا ہے ‘‘ منزلوں سے پرے
سیّدہ زہرہ عمران نے ادب میں دیو مالا کے موضوع پرجن چشم کشا صداقتوں کاذکر کیاہے انھیں پڑھ کر قاری کے دِل میں مطالعہ کے ذوق کاایک ولولۂ تازہ پیدا ہوتاہے ۔مصنفہ کی تنقیدی بصیرت روح اور قلب کی گہرائی میں اُتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے ۔ دنیا کے الف لیولی شہروں کی سیر کے احوال کا مطالعہ بلاشبہ قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ ہے ۔ ان مضامین میں دنیاکے بدلتے ہوئے حالا ت اور مسافر کی شناخت کے حوالے سے مفید معلومات فراہم کی ہیں ۔سب مضمون نگار وں نے انکشاف اور تجسس کواس سفرنامے کا اہم ترین وصف قرار دیاہے ۔ ادب اور فنون لطیفہ کوتنقید کی کسوٹی پر جانچنے پرکھنے کے سلسلے میں یونانیوں نے جو ابد آ شنامطلق اور لازم رہنما اصول وضع کیے ان کی افادیت مسلمہ ہے ۔ گمان ہے کہ مضمون نگاروں نے قدیم یونانی مورخ ہیرو ڈوٹس کے اسفار سے جو گہرے اثرات قبول کیے ہیں انھیں اپنے تجزیاتی مطالعہ کی اساس بنایاہے۔ ناصر ناکا گاوا کے اسفار کے بارے میں ان مضامین کے مطالعہ سے ایک وجدانی کیفیت طار ی ہو جاتی ہے ۔یورپ کی مرکزیت ، اقوام ِ عالم کے تعلقات اور مشرق و مغرب کے تہذیبی و ثقافتی حوالوں کو ان مضامین میں بہت اہمیت دی گئی ہے ۔مضمون نگاروں نے واضح کیاہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں تہذیبی و ثقافتی اختلافات کے بارے میں آ گہی حاصل کرنے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ مغرب کی چکا چوند سے متاثر ہو کر دیار ِمشرق میں ان کی تقلید کی جائے ۔ان مضامین کاایک ایک لفظ گنجینہ ٔ معانی کا طلسم ہے۔ اِن مضامین کے مطالعہ سے قاری پامال راہوں سے بچ کراپنی شناخت کے اہم پہلووں پ ت وجہ دینے کے بارے میں سوچتاہے ۔دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو دیکھ کر ہمیں ہو اکا رخ دیکھنا ہو گا ۔سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعدشان ِ سکندری ،عیشِ کیخسروی،شان قیصری اور دارا و جم کے سب سلسلے نیست و نابو د ہو جائیں گے۔دنیادیکھنے کے بعدسوچ کے رُوپ بدل جاتے ہیں اورلائحہ ٔ عمل میں ترمیم ناگزیر ہوجاتی ہے ۔ تنقید میں فہم و ادراک اورذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے ادب اور فنون لطیفہ کی تخلیقات کے معیار کے بارے میں کسی حتمی رائے کااظہارکیاجاتاہے۔تجزیاتی نوعیت کے ان مضامین کے مطالعہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ کسی بھی تخلیق کے جملہ محاسن اور معائب پرگہری نظر ڈالنانقاد کانصب العین ہوتاہے ۔ ادب پاروں کی تنقید کے لیے فلسفیانہ اصولوں کی اساس پر ایک لیے ایک موثر لائحہ عمل مرتب کرنانقادکی بنیادی ذمہ داری ہے ۔اسی لائحہ عمل کو زادِ راہ بنا کر وہ ادب پاروں کی تحلیل و تجزیہ کے مراحل سے عہدہ بر آہونے کی سعی کرتاہے ۔ ادب اور فنون لطیفہ میں ہر لحظہ نیا طورنئی برق تجلی کی کیفیت کا کرشمہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ نقاد یہ دیکھتاہے کہ تخلیق کار نے گل دستۂ معانی کو نئے رنگ سے باندھتے ہو ئے اپنی گراں قدر تخلیقات ایک پھول کا مضمون سورنگ سے کس طر ح باندھاہے ۔ عملی تنقید میں تخلیقی فن پارے کا بہ نظر غائر جائزہ لینے کے بعدنقاد اپنے دل پر اُترنے والے سب موسموں کا احوال زیب ِقرطاس کرتا چلاجاتاہے ۔ ادب کی جمالیاتی اقدار کی جانچ پرکھ کرتے ہوئے نقاد کا تجزیہ جہاں قاری کو اس فن پارے کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی فراہم کرنے کو وسیلہ بنتاہے وہاں اس کے معجزنما اثر سے عصری آ گہی کو پروان چڑھانے میں بھی مدد ملتی ہے ۔نقاد اپنی فہم و فراست،بصیرت و تدبر اور دیانت و حکمت کے اعجازسے تخلیق کار اور اس کے تخلیقی فن پارے کے بارے میں ایسا تجزیہ پیش کرتاہے ادب کی درخشاں اقدار و روایات کی تفہیم میں مددملتی ہے ۔ اپنے عہد کی مسلمہ ادبی روایات اور ادب کی جمالیاتی اقدار کی جانچ پرکھ بہت احتیاط کی متقاضی ہے ۔تنقید ان تمام امورکااحاطہ کرتی ہے اوراس طرح تخلیقی فن پاروں کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کر کے فن پاروں کے مقام کا تعین کرتی ہے ۔ تنقید جب تحلیل و تجزیہ اور تو ضیح کو مقیاس العمل بناتی ہے توفن پاروں کی جمالیاتی اقدار کے بارے میں حقیقی شعورکی بیداری کے امکانات سامنے آتے ہیں اور افکارِ تازہ کی مشعل فر وزاں کر کے سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہان ِ تازہ کی جانب پیش قدمی کو یقینی بنایا جاسکتاہے ۔ عالمی کلاسیک کی حقیقی قدر ومنزلت صرف تنقید ہی سے ممکن ہے ۔ ہر عہد کے ادب کے متعلق حقائق کی گرہ کشائی تنقید کا معجز نما کرشمہ ہے ۔تخلیق ادب کے محرکات اوراس کے ذوق سلیم پر مر تب ہونے والے اثرات کا جائزہ لے کر تنقید یدبیضا کا معجزہ دکھاتی ہے ۔ خوب سے خوب تر کی جستجو تنقید کا اہم وصف ہے ۔تنقید قاری کے ذوق سلیم کو اس طرح مہمیزکرتی ہے کہ اس کا مرحلۂ شوق طے ہی نہیں ہوتا۔ یہ بے لاگ تنقیدی تجزیے پڑھنے کے بعدقاری اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ اس ہوائے بے اماں میں صرف وہی مشعل فروزاں رہے گی جس مشعل میں تاب و تواں ہوگی۔
ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ انسان جوانی میں اپنے وطن سے دُور طویل مسافتیں طے کرنے اورکٹھن مسائل سے عہدہ بر آہونے کاحوصلہ رکھتاہے ۔پرِ زمانہ کے بارے میں یہ بات مسلمہ ہے کہ یہ پروازِ نور سے بھی زیادہ برق رفتار ہے ۔اس کی وجہ سے انسان پر ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب ضعفِ ہری کے باعث اعضا مضمحل ہوجاتے ہیں اور عناصرمیں اعتدال عنقا ہونے لگتاہے ۔ انسان کی کتابِ زیست سے عہدِشباب کاباب حرفِ غلط بن کر رہ جاتاہے ۔ان صبر آزماحالات میں مصائب و آلام کا ایک غیر مختتم سلسلہ انسان کا تعاقب کرتا ہے ۔ان اعصاب شکن حالات میں انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ عہدِ جوانی کے بیتے دِن زندگی کا سب سے بڑا آموختہ ہیں۔اس وقت خیالات پر سرِ شام عہدِ شباب کے سائے پھیل جاتے ہیں۔ضعفِ پیری سے نڈھال انسان بیتے دِنوں کی یاد میں کھو جاتا ہے اورعہدِ شباب کی مسافتوں کاخیال کر کے اُس کے دل میں ملال پیداہوتاہے شباب کا دورتو نظر کی حد سے بھی آگے نکل چکا ہے۔وطن سے دُور قیام کرنے پر مجبورمسافر کے دل پر جو صدمے گزرتے ہیں ان کے بارے میں حفیظ جون پوری ( 1865-1918) نے سچ کہا تھا:
بیٹھ جاتاہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
ناصر ناکاگاو اکے سفر ناموں کا دھنک رنگ منظر نامہ دیکھ کر قاری دنگ رہ جاتاہے ۔مصنف نے اپنے اسلوب میں جن پہلوؤں کو مد نظررکھاہے ان میں قدیم انداز،رسمی نقطہ ٔ نظر ،سرگزشت کا انداز ،خود نوشت کا انداز،سوانح نگاری کی صورت،تشریحی انداز ،مطالعہ ٔ تاریخ ،آثار قدیمہ کا بیان اور جغرافیائی حقائق کا بیان شامل ہیں۔مصنف کے اسلوب میں فلسفیانہ تدبر ، دانش ورانہ فہم و فراست،سماجی او ر معاشرتی زندگی کی پیش بینی ، آئینہ ٔ ایام میں اپنی اداؤں کا احوال ،بین الشعبہ جاتی مطالعات،مختلف مضامین پر تحقیق،ملاقاتیں اور ذاتی تجربات و مشاہدات شامل ہیں۔اٹھارہویں صدی عیسوی میں بر صغیر کے ادیبوں نے اردو نثر اورنظم میں اپنے اسفار کااحوال زیب قرطاس کرنے کاسلسلہ شروع کیا۔ اردوزبان و ادب میں دلچسپی رکھنے والے ذوق سلیم سے متمتع قارئین کاخیال ہے کہ زندگی کی مختلف مسافتوں کے بارے میں لکھی گئی قدیم ادیبوں کی یہ تحریریں مسافرت کی روداد کے ارتقا کی جانب اوّلین قدم ہے ۔ قدیم داستانوں کے مافوق الفطرت ماحول کوپیش نظررکھیں تو ان داستانوں کے چند مہم جوکردار ایسے بھی ہیں جو انتہائی طویل مسافتیں طے کرتے ہیں ۔گھاٹ گھاٹ کاپانی پینے والے یہ کردار یہ سوچ کر گھرسے نکلتے ہیں کہ منزل کبھی تو نظر آ ہی جائے گی۔میر امن دہلوی (1748-1806)نے کلاسیکی اہمیت کی حامل داستان ’’باغ و بہار ‘‘ ( مطبوعہ 1804)میں چار درویشوں کے سفر کاذکر کیاہے ۔ حیدر بخش حیدری نے اپنی تصنیف’’ آرائش ِ محفل ‘‘ میں حاتم طائی کے سات اسفار کا احوال بیان کیاہے ۔ لسہ خان نے اپنی منظوم داستان ’’ گل بکاولی ‘‘میں سفر کی بات کی ہے ۔ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر (1542-1605)نے علم وادب کی سرپرستی کرتے ہوئے کئی داستان گو دربار میں جمع کیے ۔اسی زمانے میں داستانِ امیر حمزہ لکھی گئی ۔ فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے ملازم نہال چندلاہوری نے فارسی قصہ گل بکاولی کواردو کے قالب میں ڈھالا۔ نہال چندلاہوری کا یہ ترجمہ داستان’’ مذہب ِعش ‘‘ کی صور ت میں سامنے آیا جس میں سفر کے واقعات مذکور ہیں۔ ناصرناکا گاوا نے اردوسفر نامہ نگاری کی جس روایت کو پروان چڑھایا ہے اس کے بنیاد گزار وں کے نام درج ذیل ہیں :
یوسف خان کمبل پوش: عجائبات فرنگ (1837)
سرسیداحمد خان : مسافران ِ لندن (1869)
شبلی نعمانی :سفر نامہ روم ،مصر و شام (1892)
محمد حسین آزاد : کابل ،بخار او ایران کا سفر (1885)
بابو شنکر : آئینہ ٔسکندری، نثار علی بیگ :سفر نامہ یورپ ، منشی اﷲ دتہ :سیر ِ امریکہ، منشی محبوب عالم : سفرنامہ یورپ ،نواب محمد حامد علی خان :سیر حمیدی
اردو کاپہلاسفر نامہ عجائبات فرنگ ( تاریخِ یوسفی ) یوسف خان کمبل پوش نے لکھا۔یوسف خان کمبل پوش نے سال 1837میں یورپ کا سفر کیا اور نو ماہ یورپ کی سیاحت کی ۔اس عرصے میں یوسف خان کمبل پوش نے جن اہم مقامات کی سیاحت کی ان میں لندن، پیرس اور اسکندریہ بھی شامل ہیں ۔مرزا حسین احمد بیگ کا سفر نامہ ’’ پردیس کی باتیں ‘‘ پہلی بار سال 1930میں منظر عام پر آیا۔مرزا حسین احمد بیگ نے دکن سے سفر شرع کیااور سری لنکا ،مصر ،شام ،فلسطین،ترکی اور بر طانیہ کی سیاحت کی ۔ جن ممتاز ادیبوں کی مساعی سے نے اردو سفرنامے نے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیارکر لی ہے ان کی فہرست طویل ہے ۔ان میں سے چند ادیبوں کے نام درج ذیل ہیں :
ابن انشا: دنیاگول ہے (1967)، بیگم اختر ریاض الدین : دھنک پر قدم (1969)، جمیل الدین عالی :تماشامیرے آگے : (1975)، خواجہ احمدعباس : مسافر کی ڈائری (1940)، محمدخان (کرنل ) : بہ سلامت روی (1975)،محمود نظامی :نظر نامہ (1958)،ممتاز مفتی : لبیک ( 1975)،منظور الٰہی شیخ:درِ دِل کشا،مختار مسعود :سفرنصیب( 1981)
سفرنامہ ’’ ان جانی منزلوں کامسافر ‘‘پڑھ کر یقین ہوجاتاہے کہ مصنف کے پاؤں میں ایسا چکر ہے جو اسے کسی جگہ سکون سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ آئیے دھنک کے اس پار دیکھیں اور ناصر ناکاگاوا کے ساتھ ساتھ چلیں اور دیکھیں کہ مصنف نے کس قدرمہارت سے اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنے داخلی جذبات سے ہم آ ہنگ کر تے ہوئے تکلم کے سلسلے کا آغاز کیاہے ۔ دنیا کے اسفار کے دوران میں مظاہر کائنات اور اپنی داخلی کیفیات کے ارتباط کا یہ حیران کن انداز دیکھ کر قاری اش اش کر اُٹھتا ہے ۔ چلّی کا سفر اگرچہ بہت دلچسپ ہے مگر حیر ت ہے کہ مصنف کسی شیخ چلّی قماش کے مسخرے سے آشنانہ ہو سکا ۔دنیاکے مختلف ممالک کی سیر و سیاحت کے بعد صنف کی یادداشتوں کو رنج سفر کی ایسی نشانی کی ایک صورت سمجھنا چاہیے جسے وہ بہت عزیز قرار دیتاہے ۔ اس پر لطف سفر نامے کے مطالعے سے قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ جب مصنف یکسانیت اور فرقت سے دل گرفتہ ہو جاتاہے تو وہ وطن سے باہر نکل کر دنیا کے مظاہر میں کھو جاتاہے ۔وہ جہاں بھی جاتاہے لوحِ دِل پر وہاں کی یادیں محفوظ کر کے سکون ِقلب کی جستجو میں انہماک کا مظاہرہ کرتاہے ۔ناصر ناکاگاوا کی زندگی ایک پر جوش مہم جوئی قرار دی جاسکتی ہے جس میں اس کے ذاتی تجربات و مشاہدات کاجادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔یادیں سمیٹ کر اور نقشِ پا چھوڑ کر مسافر پلٹ آیا ہے ،ناصر کاظمی (1925-1972)نے سچ کہا تھا:
کچھ یادگارِ شہر ِ سِتم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
رنج ِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچہ ٔ دِلبر ہی لے چلیں
آئیے دھنک کے اُس پار کانظارہ کریں اور رنجِ سفر کی نشانیوں کی کیفیات کی جھلک دیکھیں ۔ کڑی دھوپ کے اس سفر میں مصنف نے اپنے سر پر خیالِ یار کی چادر لے رکھی ہے ۔جاپانی خواتین کے روزمرہ زندگی کے مسائل کے بارے میں ناصر ناکا گاوا نے لکھاہے :
’’جاپانی خواتین میک اپ کیے بغیرگھر سے نکلنا معیوب سمجھتی ہیں اوراگر کبھی ناگزیر وجوہات کی بنا پرگھر سے بغیر میک اپ نکلنا بھی پڑ جائے توچہرے پر ماسک چڑھاکر نکلتی ہیں ۔‘‘( ان جانی منزلوں کا مسافر،صفحہ :43)
’’ جاپان میں خود کشی کرناقانوناًیا مذہبی طور پر جرم نہیں ہے بل کہ اسے بہادری اور خودداری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔جاپان میں جب کوئی ذمہ دارمثلاًکوئی سیاست دان ،وکیل،ٹیچر یا کوئی بھی عہدے دار اپنے پیشے سے انصاف نہ کر پائے یا کسی غلطی کا مرتکب ہو جائے تو وہ اپنی ناکامی پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے موت کو گلے لگا لیتا ہے ۔‘‘ ( صفحہ : 79)
مصنف کو اس بات کا قلق ہے کہ وطن عزیز میں بعض کوتاہ اندیش لوگوں نے حفظان صحت کے مسائل کو نظر انداز کرنا وتیرہ بنا رکھا ہے ۔ناروے کے دار الحکومت اوسلو میں گوشت کی ایک دکان کو دیکھ کر مصنف کو اپنے آبائی وطن پاکستان کی یاد ستانے لگی:
’’ یہاں غالباًگوشت کے شوروم بھی تھے اور شو کیس میں سجا ہوا گوشت نظر آ رہا تھامگر وطنِ عزیز کی دکان کی طرح جلی ہوئی سری یا اُبلے ہوئے پائے یا بھنکتی ہوئی مکھیاں نظر نہیں آ رہی تھیں ۔‘‘ ( ان جانی منزلوں کا مسافر،صفحہ :78)
’’ جاپان میں بوڑھوں کااولڈ ہاؤسز میں رہنابالکل معیوب نہیں سمجھا جاتا۔جیسا کہ جاپانی قوم بہت خود دار ہے یہاں بوڑھے والدین اپنی اولاد پربوجھ بننا پسند نہیں کرتے۔وہ اپنی مرضی اور شوق سے اولڈ ہاؤسز میں رہنا پسندکرتے ہیں۔ویسے بھی اولڈ ہاؤسز میں اچھی نگہداشت اور توجہ ملتی ہے او ربوڑھے وہاں خوش رہتے ہیں ۔‘‘ ( ان جانی منزلوں کا مسافر: صفحہ :80)
سپین کے لا رمبا بازار میں نصب مجسمے کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے :
’’ میں نے کئی مقامات پر مجسمے دیکھے جو اپنی انفرادیت کی وجہ سے سیاحوں کی جیبیں خالی کرتے ہیں اور اپنے باکس بھر کر شام کو خول سے نکل کر اس خول کو بغل میں دبا کراپنی راہ لیتے ہیں ۔‘‘( ان جانی منزلوں کا مسافر، صفحہ:120)
’’ ڈنمارک کے مخلوط فضائی عملے میں ایک ہی نظر میں مذکر و مونث کی شناخت مشکل تھی البتہ دو تین مرتبہ نظر ڈالی جائے تو شناخت ہو جاتی تھی کہ پاس سے گزرنے والامرد نہیں عورت تھی ۔‘‘( ان جانی منزلوں کا مسافر،صفحہ:44)
ارض ِوطن اور اہلِ وطن کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت ناصر ناکاگاوا کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔اس جری تخلیق کارکا خیال ہے کہ چمنستانِ وطن محض چمکتے ہوئے کوہ ودمن کا نام نہیں بل کہ یہ تو ابنائے وطن کے اجسام اور ارواح سے عبارت ہے ۔سوہنی دھرتی کی محبت سے سرشار اس بلبل نے چشمِ تصور سے ہمیشہ سرزمین ِ وطن کے گوشے گوشے سے جوئے حیات کواُبلتے دیکھا ہے ۔مادرِوطن کی آغوش میں ہر شام مثلِ شامِ مصر اور ہر شب مانندِ شبِ شیراز اس کے لیے آسودگی اور مسرت کی نوید لاتی ہے ۔ وہ جہاں بھی پہنچتا ہے رومانوں کا یہ شہرِ طرب اور حسین ارمانوں کی یہ خلد بریں اسے بہت یادآتی ہے ۔ مکہ، مدینہ ،نجف اور کر بلا کی خاک کواپنی آ نکھ کا سرمہ بنانے والے اس سیاح کو مغربی تہذیب کی جعلی چکا چوند اور جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری بالکل متاثر نہیں کر سکی ۔ سر زمینِ وطن کے دیوانوں کے دشتِ جنوں اور پروانوں کی بزمِ وفا کی یاد ہر جگہ اسے مضطرب رکھتی ہے ۔اپنی مٹی پہ چلنے کا قرینہ سکھانے والے اس جہاں نوردنے اپنی جنم بھومی کے بارے میں یہ واضح کر دیا ہے کہ اس کا ہر ایک ذرہ اُسے اپنی جان سے بھی پیارا ہے۔ فلک کی ہم سر اس زمین کے ذرات کا بوسہ دینے کو آکاش بھی سر نگوں ہو جاتاہے ۔ سداجنوں کے ساز چھیڑ کر سرشار نگاہِ نرگس اور پابستۂ گیسوئے سنبل رہتے ہوئے ارض پاکستان کے ساتھ پیمان ِ وفا باندھ کراس کی عظمت کے گیت گانے والے اور وطن کے بام و در کی خیر مانگنے والے اس حساس سیاح کی باتیں ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہیں:
’’ چینی و پاکستانی قوم میں ایک بات میں نے مشترک دیکھی ہے کہ یہ اپنے بیت الخلاکی خود صفائی کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں۔پاکستان میں یا چین میں کسی بھی اعلا معیارکے ریستوران میں چلے جائیں تو وہاں ٹوائلٹ میں اتنی غلاظت ہوتی ہے کہ اگر آپ کھانے کے بعد وہاں گئے ہیں تو ضرور قے کردیں گیاور اگر کھانے سے پہلے چلے جائیں تو پھر کھانا کھائے بغیر ہی ریستوران سے نکل جائیں گے ۔اس لیے بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان دونوں ممالک کے ریستوران کے ٹوائلٹ استعمال نہ کیے جائیں۔یہ مشورہ صرف ان دوستوں کے لیے ہے جو میری طرح حساس طبیعت کے مالک ہیں ورنہ تو وہاں کے لوگ اس کلچر کے عادی بھی ہو چکے ہیں۔انھیں کوئی پروا نہیں کہ کھانے کی میز پر گندگی کا ڈھیرہے یا ٹوائلٹ صاف ستھر انہیں ۔‘‘ ( ان جانی منزلوں کا مسافر:صفحہ ،82)
کتوں کے بیان سے مجھے تارک الدنیا،متوکل فقیر دیو جانس کلبی یادآ گیا جس نے ایک کتا پال رکھا تھا۔ایک دن دوپہر کے وقت اپنے ہاتھ میں شمع فروزاں تھامے ایتھنز کی گلیوں میں کچھ ڈھوند رہاتھا۔دیوجانس کلبی کواس حال میں دیکھ کرشہر کے لوگ حیرت و حسرت کی تصویربن گئے اور سوچنے لگے کہ اسے کس چیز کی تلاش ہے۔ایک واقف حال شخص کے استفسار پر دیو جانس کلبی نے کہا:
’’ میں آدمیوں کے اس ہجوم میں کسی ایک انسان کو ڈھونڈ تا پھرتا ہوں۔‘‘
مشہور یونانی فلسفی ارسطو (B:384BC,D:322 BC )اور سکندر اعظم ( B: 356 BC,D:323 BC )کے دور سے تعلق رکھنے والا نا بینا قناعت پسند دانش ور دیو جانس کلبی بصارت سے محروم تھا مگر بصیرت رکھتاتھا۔ آخری عمر میں دیو جانس کلبی شہر سے دُور ویرانے میں مٹی کے اک ٹب میں پڑ ارہتا تھا۔ وہ کہا کرتاتھاکہ انسان کا دشمن انسان ہے جانور نہیں۔آدمی سے بچو جس کی درندگی ہزاردرندوں پر بھاری ہے ۔جب مشہور یونانی فاتح سکندر اعظم نے پوری دنیا فتح کر لی تو دیو جانس کلبی نے کہا:
’’اگر انسان قناعت پسند ہو تو وہ مٹی کے اس ٹب میں بھی خوش رہ سکتاہے لیکن اگر وہ حریص ہو جائے تو پوری کائنات بھی اس کے لیے چھوٹی ہے ۔‘‘
دنیا کو فتح کرنے کے بعد سکندر اعظم اپنے محسن استاد دیو جانس کلبی کے پاس پہنچا۔ شدید سردی کا موسم تھا قناعت پسند فقیر دیو جانس کلبی سردی سے بچنے کے لیے دُھوپ میں بیٹھاتھا۔سکندر اس طرح کھڑاتھا کہ سورج کی شعائیں فقیر دیو جانس کلبی پر نہیں پڑ رہی تھیں ۔ عجز و انکسار کا پیکر بنا سکندر اعظم اپنے محسن دیوجانس کلبی سے مخاطب ہوا:
’’ یااستاد! اپنی کوئی خواہش بتائیں۔‘‘
دیو جانس کلبی نے کوئی خواہش ظاہر نہ کی کیو نکہ وہ جانتا تھا کہ خواہشوں کے اسیر حاکم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ حریت ضمیر سے جینے والے اور حریت فکر و عمل کو زادِ راہ بنانے والے فقیروں کی خدمت کریں ۔جب سکند ر کا اصرار حد سے بڑھنے لگا تو دیو جانس کلبی نے ایک شان استغنا سے اس فاتح جنگ جُوسے کہا:
’’ فاتح اعظم !سورج کی شعاعوں اور میرے درمیان آ پ سدِ سکندری بن کرحائل ہو گئے ہیں اور دُھوپ مجھ تک نہیں پہنچ رہی ۔یہاں سے ہٹ جائیں تا کہ خورشید ِجہاں تاب کی شعائیں مجھ تک پہنچیں اورمیں سردی سے بچ سکوں ۔‘‘
شیشہ گران ِ فرنگ کا المیہ یہ ہے کہ انسان شناسی کے بجائے وہاں سگ شناسی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ ہمارے ادب میں بھی کتوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیاہے ۔میر امن نے ’’ خواجہ سگ پرست ‘‘ ،احمد شاہ بخاری کا مضمون’’ کتے ‘‘ اور تلمیح ’’ سگِ لیلیٰ ‘‘اس کی مثالیں ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ یورپی کتے جتنا اپنے مالک کا خیا ل رکھتے ہیں اتناتو اپنا خیال بھی نہیں رکھتے ۔ ناصر ناکا گاوانے یورپ میں کتا شناسی کے موضوع پر خوب لکھا ہے :
’’ایک نہایت ہی حسین و جمیل خاتون جس کے ہاتھ میں چار واہیات قسم کے کتوں کی رسیاں یا زنجیریں تھیں اور وہ انھیں باہر صبح کی سیر کروا رہی تھیں اور وقفے وقفے سے انھیں بوسہ کر رہی تھی۔شاید یہ ان کے ناشتے کا ایک جزو تھا۔اسی طرح ایک صاحب کے ساتھ کوئی نصف درجن کتے بھی تھے جنھیں دیکھ کرمجھے ایسا لگاجیسے کتے اپنے صاحب کو سیرکے لیے لے کر نکلے ہوں۔یہ صاحب وہیل چیئرپر تھے اور کتوں میں گھرے ہوئے تھے۔‘‘ ( ان جانی منزلوں کا مسافر: صفحہ ،57)
ایک وسیع المطالعہ ادیب کی حیثیت سے ناصر ناکاگاوا نے اپنی تحریروں میں خواتین کے مزاج اور مسائل پر کھل کر لکھا ہے ۔ غیر ملکی خواتین کے خط و خال اور خور و نوش کے بارے میں جو احوال مذکور ہے وہ افادیت سے لبریزہے ۔ خواتین کے لیے ان کا یہی پیغام ہے کہ اذیت ،عقوبت اور مشقت کی بھیانک رات بالآخر ختم ہو جاتی ہے اس کے بعد مسرت و شادمانی کی نقیب صبح درخشاں طلوع ہوتی ہے۔ ان کی اہلیہ اپنے شوہر کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتی۔ ایسا محسوس ہوتاہے اس درد آشنا خاتون نے اجتماعی لا شعور کی اساس پر فکر و خیال کی انجمن آراستہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے ۔اردو ادب میں خواتین کی شوہر پرستی کے موضوع پر ممتاز شیریں کے اسلوب کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ تانیثیت ناصر ناکاگاوا کا خاص موضوع رہا ہے ۔
اُردو زبان کی مایۂ ناز خاتون نقادد اور افسانہ نگار ممتاز شیریں (1924-1973)نے اپنے ایک افسانے’’ میگھ ملھار ‘‘ میں اجتماعی لا شعور کو رو بہ عمل لانے کی سعی کی ہے ۔ معاشرتی زندگی میں مشرقی خواتین کی اپنے شوہر کے ساتھ قلبی وابستگی کو ممتاز شیریں نے اساطیر اور یونانی دیو مالا کے بر محل استعمال سے انتہائی موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔ اپنے شوہر ایڈ میٹس(Admetus)سے والہانہ محبت کرنے والی آل سسٹس ( Alcestis) سلطنت لولکس ( Lolcus ) کے شہنشاہ پیلیاس ( Pelias) کی سب سے حسین دختر تھی ۔ المیہ نگاریوری پائیڈز ( Euripides)کا تعلق یونانی دیومالا سے ہے ۔ اس نے اپنے عہد کے ڈرامہ نگاروں ایس ہیلس اور سوف کیلس ( Aeschylus and Sophocles) کی طرح المیہ ڈرامہ کو نئے آفاق سے آشنا کیا۔ممتاز شیریں نے ایتھنز سے تعلق رکھنے والے کلاسیک ڈرامہ نگار یوری پائیڈزکے اسلوب کو پیشِ نظر رکھا ہے ۔محبت کے دستوربھی نرالے ہوتے ہیں یہاں ایثار و قربانی کی ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ عقل محو تماشائے لبِ بام رہ جاتی ہے ۔ایڈمیٹس اپنی زندگی کو درپیش خطرات سے گلو خلاصی کے لیے باری باری اپنے سب عزیزوں،دوستوں اور رفقا سے ان کی زندگی کی قربانی کی التجا کرتا ہے مگر اس کی فغاں پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ایڈمیٹس اپنے دلِ حزیں پہ جبر کر کے اپنی محبوب اہلیہ آلسسٹس سے یہ تقاضا کرتاہے کہ وہ اپنی زندگی اپنے شوہر کی خاطر قربان کر دے ۔آلسسٹس جانتی تھی کہ درد کا رشتہ ایثار کا تقاضا کرتاہے اس لیے وہ خوشی سے اپنے شوہر کی زندگی بچانے کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دینے پر رضا مند ہو جاتی ہے اور آزاد مرضی سے ا پنی زندگی اجل کے دیوتا کے سپرد کر دیتی ہے ۔ آلسسٹس کے جذبۂ ایثار کو دیکھ کر دیوتاؤں ہیڈز (Hades) اورہیرا کلز( Heracles) کو ترس آ گیااور انھوں نے نہ صرف اس عورت کی جان بخشی کر دی بل کہ اس کے شوہر کی زندگی کو درپیش خطرات بھی ٹل گئے ۔
ناصر ناکا گاوا کی ہم شیر محترمہ سیدہ زہرہ عمران اور ناصر ناکاگاوا کی جاپانی اہلیہ محترمہ ماسومی کے بارے میں اس سفرنامے کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ان دونوں خواتین نے ناصر ناکاگاوا کی کردار سازی میں اہم کردا ر ادا کیا ہے ۔ اپنے طرز عمل سے ان خواتین نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت یہ یادرکھنا چاہیے کہ اجزا کی نسبت کل کی اہمیت و افادیت کہیں بڑھ کر ہے ۔اس عالمِ آب وگِل میں موجود زندہ اجسام کی زندگی حرکت و حرارت سے عبارت ہے ۔اس وسیع و عریض کائنات میں ہر ذی روح کا وجوداس فعالیت کاآئینہ دارہے جسے وہ کثرت سے بروئے کار لاتاہے ۔ناصر ناکاگاوا کی جاپانی اہلیہ محترمہ ماسومی نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی کام میں ستارے چُھو لینے کاراز کسی ایک کام کوپایہ تکمیل تک پہنچانانہیں بل کہ ستاروں پر کمند ڈالنے کامطلب یہ ہے کہ انسانیت کی فلاح کی خاطر صبح و مسا ایسے متعدد کام کیے جائیں جن کے اعجاز سے ہوائے جو ر و ستم کے بگو لے تھم جائیں ۔انسانیت کی فلاح وبہبود کے کام اگر عادت ثانیہ بن جائیں تو اس سے شخصیت کو استحکام اور کردار کو عظمت نصیب ہوتی ہے ۔
اپنی اہلیہ کے حسن سلوک کے بارے میں ناصر ناکاگاوا نے لکھا ہے کہ جب بھی وہ بیرونی ممالک کی سیر و سیاحت سے واپس اپنے گھر پہنچتے ہی ہیں تو ان کی جاپانی اہلیہ محترمہ ماسومی ان کے لیے چشم بہ راہ ہوتی ہیں ۔اس موقع پرناصرناکاگاوا کی جاپانی اہلیہ محترمہ ماسومی کا طرزِ تپاک جہاں ان کے خلوص کا مظہر ہے وہاں آلسسٹس کے مانند شوہر پرستی کی عمدہ مثال بھی ہے ۔ان سطور کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ محترمہ ماسومی بھی آ لسسٹس کی طرح اپنی جان پر کھیل کراپنے شوہر کو ممکنہ مصائب و آلام سے محفوظ رکھنے کی آ رزومندہیں :
’’جب بھی میں کسی ملک کے دورے سے واپس آتا ہوں تو بیگم دروازے پر میرا والہانہ استقبال کرتی ہے۔یہ والہانہ پن میرے آنے کی خوشی میں نہیں ہوتابل کہ اس لیے ہوتاہے کہ میں اپنا سُوٹ کیس اوردستی بیگ براہِ راست کمرے تک لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکوں اور بیرونِ ملک کے جراثیم گھر میں داخل نہ ہو سکیں ۔ وہ سر سری طورپر مجھے جاپانی انداز سے جی آیاں نو ں کہہ کر منھ اور ناک پر ماسک چڑھاتی ہے اور حکم دیتی ہے کہ یہ سُوٹ کیس دروازے پر ہی رکھا جائے ۔سُوٹ کیس پر جوچار وہیل لگے ہوتے ہیں اُنھیں گرم پانی سے بھیگے ہوئے کپڑے اور جراثیم کش اسپرے سے صاف کیا جاتاہے اور سُوٹ کیس اس اندا ز سے کھولتی ہے جیسے اس میں سے کوئی بم نمو دار ہونے والا ہو ۔‘‘(( ان جانی منزلوں کا مسافر:صفحہ ،43)
جاپانی خواتین کا ذوقِ سلیم اور حفظان صحت پر ان کی توجہ لائق صدرشک و تحسین ہے ۔اِدھر بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ حال ہے کہ لُنڈے بازار سے مرے ہوئے گوروں کی یادگار پرانی وضع کاخستہ حال جامہ جسے خود واسکوڈے گامانے پہنا تھا بونے کوڑیوں کے بھاؤ خریدتے ہیں او ر بزرگوں کے سائے کو غنیمت جانتے ہوئے اسی وقت زیب ِ تن کر کے باون گزے بن کر اکڑتے پھرتے ہیں۔
چین کے جنوب میں واقع خود مختار علاقے مکاؤ(MACAU)کے ذرائع آمدنی کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے ناصرناکاگاوا متعدد چشم کشا صداقتوں کی جانب متوجہ کیا ہے ۔آئینہ ٔ ایام میں مکاؤ کی یہ تصویر جہاں خطے کی تاریخ کاایک ورق ہے وہاں یہ عبرت کا ایک سبق بھی ہے :
’’ مکاؤ(MACAU)کے ذرائع آمدنی کا زیادہ تر جوئے اور سیاحت سے وابستہ ہیں یعنی یہاں دنیاکے بڑے بڑے جوئے خانے ہیں جہاں دنیا بھرسے ماہر جواری اپنی قسمت آزمانے کے لیے آتے ہیں جب کہ سیاحت میں بھی یہ ملک پیش پیش ہے ۔۔۔۔یہاں کے کسینو(Casino) یعنی جوئے خانے دنیابھر میں جواریوں میں مقبول ہیں یعنی دنیابھر سے جواری اپنی پُونجی یہاں بڑے شوق سے لُٹانے آتے ہیں ۔‘‘ ( ان جانی منزلوں کا مسافر: صفحہ ،154)
ڈنمارک (Denmark) کے ایک ہوٹل کے کمرے میں اپنے مختصرقیام کے مشاہدات بیان کرتے ہوئے ناصر ناکا گاوا نے جوکچھ لکھاہے اسے پڑھ کر عصمت چغتائی کا افسانہ ’’ لحاف ‘‘ یا د آ گیا۔حقیقت نگاری اورفطرت نگاری کا یہ انداز قاری کے لیے ایک لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ سے کم نہیں ۔جس معاشر ے سے اخلاقی اقدار و روایات عنقا ہو جائیں وہاں کے اُداس در و بام پر ذلت و تخریب کے کتبے آویزاں ہو جاتے ہیں اور ہر طرف سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھنے لگتے ہیں۔ جب کوئی معاشرہ احساس ِزیاں کے اندیشے سے بے نیازہوجائے تو اخلاقی پستی اسے بے حسی کے پاتال میں پہنچا دیتی ہے۔ اس قسم کے جعلی تعلقات سے شخصیت مسخ ہوکر رہ جاتی ہے ۔یورپ میں عہد شباب کی بے راہ روی پر گرفت کرتے ہوئے ناصرناکا گاوا نے اپنا چشم دید واقعہ لکھا ہے :
’’کمرے کی حالت دیکھ کر میرا سر چکر ا گیا۔۔۔میں یہاں قیام کروں گا؟؟؟اوہ! میرے خدایہ کمرہ ہے یا جیل خانہ؟؟؟یہ ہوٹل نہیں ایک جیل نما ہوسٹل تھا،ایک کمرے میں آٹھ بستر تلے اُوپر لگے ہوئے تھے اور میرا بستر اُوپر تھا۔کمرے میں ایک ٹوائلٹ اور شاورروم تھا۔ابھی میں کمرے کا معائنہ کر ہی رہا تھااور اپنی قسمت پر رو رہا تھاکہ اسی دوران آگے پیچھے دو نوجوان اچانک کمرے میں داخل ہوئے اور مجھے نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اپنے بسترں پر جمپ لگا کر تھوڑی دیر تک اوندھے ہو کر نہ جانے کیا کرتے رہے اور پھر اُٹھ کر کمرے سے باہر چلے گئے ۔‘‘ ( ان جانی منزلوں کا مسافر: صفحہ ،51)
معاشرتی زندگی میں حرص و ہوس نے نوع انسان کو شدید انتشارکی بھینٹ چڑھا دیاہے ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بغض و عناد ،کینہ پروری ،حسد اور انسان دشمنی بڑھ رہی ہے ۔خلوص و درد مندی کی مظہر بے لوث دوستی اب عنقا ہے ۔ محسن کش سفہا،احسان فراموش اجلاف و ارذال ،مارِ آ ستین اور سانپ تلے کے بچھو سادیت پسندی کا قبیح سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایسا محسوس ہوتاہے آج ہر طرف بروٹس قماش کے درندوں کا جھمکاہے جنھوں نے ضعف ِ پیری سے نڈھال جولیس سیزر کو ٹھکانے لگاکر اپنا اُلوّ سیدھا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔برادرانِ یوسف کی صورت میں برد ہ فروش اُمڈ آئے ہیں مگر کسی الم نصیب کو بے لوث دوستوں کا اتا پتا معلوم نہیں۔ایسامحسوس ہوتاہے ناصر ناکا گاوا نے چاہِ یوسف سے آنے والی صداسن لی ہے ۔ دنیا کی مسافت کو زندگی کی علامت سمجھنے والے اس جہاں گرد کی وسعت نظر کایہ عالم ہے کہ اس نے برادرانِ یوسف کی منافقت کا پردہ فاش کرتے ہوئے بر ملا یہ کہا ہے :
’’ حقیقت میں آج کل سگے بھائیوں کا کوئی حال نہیں ہے ۔میں نے اکثر وبیش تر دیکھا ہے کہ دیس ہو یا پردیس سگے بھائی ہی آخر کار دشمن ثابت ہوتے ہیں اور ان سگے بھائیوں کے شر سے بچانے کے لیے مخلص دوست ہی کام آتے ہیں۔اس لیے جب کوئی مجھے یہ کہتا ہے کہ آپ تو ہمارے بھائی ہو۔۔۔تو مجھے جھر جھری سی آ جاتی ہے اور میں اس شخص کی منت کرتا ہوں کہ مجھ پر رحم کیا جائے۔مجھے بھائی کارتبہ نہ دو میں اِتنا بُرا انسان نہیں ہوں۔‘‘ ( ان جانی منزلوں کا مسافر: صفحہ ،128)
چین کے جنوب میں واقع جنوبی ایشا کے ملک ویت نام(Vietnam) کے باشندے جس محنت سے اپنی قومی سلامتی ،ترقی اور استحکام کے لیے مصروف عمل ہیں وہ لائق تحسین ہے ۔ناصرناکا گاوا نے ویت نام کے جری اور خوددار باشندوں کے جذبۂ حب الوطنی کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ایسی قوم کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتاجن میں خودداری ،جواں مردی اور آگے بڑھنے کی ہمت ہواور کسی کے آگے ہاتھ پھیلاکر مانگنے کی عادت نہ ہو ۔‘‘ ( ان جانی منزلوں کا مسافر: صفحہ ،169)
تاریخ اور اس کے پیہم روا ں عمل سے ناصر ناکا گاوا کو اس لیے گہری دلچسپی ہے کہ تاریخ کا مطالعہ جبر کے ہر انداز کو مسترد کرتے ہوئے منزلوں کی جستجو پر مائل کرتاہے ۔دنیا کی سیر و سیاحت کے رسیا حریت فکر و عمل کو شعار بنانے والے اس سیاح کو یقین ہے بتانِ رنگ و خون کے مکمل انہدام کے لیے سفر وسیلۂ ظفر ثابت ہو سکتا ہے ۔ ناصر ناکاگاوا سے مل کر زندگی سے پیار ہو جاتاہے ۔دنیا کی سیروسیاحت نے اس سیاح کوتخلیقِ کائنات کے اسرار ورموز کی صلاحیت سے متمتع کیاہے ۔یہ جہاں بھی پہنچا اس علاقے کی فضا ،سیاست ،صنعت و حرفت ،وہاں کے باشندوں کی چاہت،لاگ ،لگاؤ ، انا،غذا،ادا، کی تلخ وشیریں
یادوں کو نہاں خانۂ دِل میں محفوظ کرنے کے بعد انھیں پوری دیانت،اخلاص اور اخلاق سے زیبِ قرطاس کر دیا۔خوب صورت رنگین تصاویر سے مزین یہ سفر نامہ ایک جام جہاں نما کے مانندہے جس میں ناصر ناکا گاوا نے قارئین کے لیے دل کش انداز میں اپنے مشاہدات کو پیرایۂ اظہار عطاکیاہے ۔معیاری کتابت اور طباعت اس کتاب کا امتیازی وصف ہے ۔گرانی کی موجودہ صورت حال کو پیش نظر ر کھتے ہوئے دو سوچار صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے مقر رکی گئی ہے۔
 )
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 597485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.