اختر بیگ کا نام بزنس کی دنیا میں کوئی نیا نہیں تھا، بیگ
انڈسٹری نے اپنا ایک مقام بنایا ہوا تھا۔ فاطمہ سے شادی ان کی مرضی سے ہوئی
تھی ان کے دو ہی بیٹے تھے۔ افضل بیگ اور رضا بیگ ۔بڑا بیٹا افضل بیگ کچھ
سنجیدہ مزاج اور ذمہ دار تھا ۔ ایم بی اے کرنے کے بعد باپ کے ساتھ بزنس کو
بھی دیکھ رہا تھا ۔اب اختر بیگ چین میں بھی اپنے آفس کی برانچ کھولنے کی
تیاری کر رہے تھے۔ اور اس کے لیے انہوں نے افضل بیگ کو تمام اختیارات دئیے
تھے کیونکہ اس برانچ کو افضل بیگ نے چلانا تھا۔ چھوٹا بیٹا بھی باپ کے ساتھ
بزنس میں شامل تھا ، لیکن بڑے کے انکار کے بعد انہوں نے چھوٹے بیٹے کی شادی
اپنے دوست کی بیٹی ردا سے کر دی تھی ۔ باپ کا لاڈلا بیٹا زندگی کے ایک ایک
پل سے خوشی کشید کرنے والا زندہ دل۔
افضل بیگ نے جس پری کو دیکھا تھا وہ بھابی کی ایک پارٹی میں شریک ہوئی تھی۔
جس کو وہ پہلی نظر میں اپنا دل دے بیٹھا تھا جس کے نام اور پتہ سے وہ بالکل
نا آشنا تھا۔ آج ہی وہ اپنی بھابی سے اس سلسلے میں بات کرنے لگا تھا۔ بھابی
آپ سے کسی کے بارے میں تھوڑی معلومات درکار ہے ، باقی تفصیلات میں خود حاصل
کر لوں گا۔ کس کی بات کر رہے ہے افضل بھائی ، جس کو آپ اپنا سب کچھ دے
بیٹھے ہیں بھابی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
بھابی وہ جو سب سے جدا تھی ، میں نے حلیہ بیان کیا تو پتا چلا اُس کا نام
حنا ہے ۔اور وہ سردار نورالدین کی بیٹی ہے۔
قسم سے کل سے ابھی تک ایک لمحے کے لیے اس کا خیال دل و دماغ سے نہیں گیا۔
بھابی میں بہت سیرس ہوں ، اب چین جانے سے پہلے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ
الگ ٹائپ کی لڑکی ہے اور پھر سردار فیملی میرا نہیں خیال جیٹھ جی آپ کی دال
یہاں گل جائے۔ آپ کسی طرح میری اس سے ملاقات کروادیں ۔ پھر دیکھے میرا کمال
۔ الگے دن بھابی نے کال کر کے شاپنگ مال میں اُس کو بلایا تاکہ میں اُس سے
ملاقات کر لوں۔ میں اور بھابی باتیں کرتے ہوئے شاپنگ مال میں گھوم رہے تھے
۔ کہ سامنے سے وہ آ رہی تھی سیاہ اسکارف میں قید سرخ و سفید چہرہ جھکی جھکی
پلکیں ، وہ اس کے دل میں اُٹھنے والی ہلچل سے بے خبر پاس آئی۔ بھابی نے
ہیلو کہہ کر میرا تعارف کرایا ۔ حنا یہ میرے جیٹھ افضل بیگ ہے، بیگ انڈسٹری
کے سی ای او، اور یہ ہے میرے دل عزیز دوست حنا نور الدین ۔ شاپنگ مال میں
کھانے والی جگہ پر ہم لوگ بیٹھ گئے ۔ بھابی نے کھانے کا آڈر دیا اور کہنے
لگی تم ذرا باتیں کرو میں بس ١٥ منٹ تک واپس آئی میں نے ایک چیز لینی ہے ۔
اب ٹیبل پر میں اور حنا آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے نوٹ کیا تھا وہ
بہت کم بولتی ہے،میں نے پوچھا اگر آپ برا نہ مانے تو ایک بات پوچھوں حنا نے
جواب دیا جی ضرور۔
کیا آپ عشق پر یقین رکھتی ہے ؟ میں نے اُس کی طرف گہری نگاہ ڈالتے ہوئے
پوچھا ۔
کیا مطلب آپ کا حںا نے حیرانگی سے میری طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
میرا مطلب ہے وہ عشق جو پہلی نظر میں ہو جائیں جو دل کو بھا جائیں ۔
نہیں میں ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتی حنا نے بڑے سپاٹ لہجے میں جواب
دیا۔
حنا آپ مجھے پہلی نظر میں اچھی لگی بلکہ بہت اچھی لگی ، میں آپ کو اپنا دل
دے بیٹھا ہوں اور آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں میں نے ایک ہی سانس میں سب کچھ
کہہ دیا ۔
افضل بیگ صاحب ! شاید آپ کو پتہ ہو میں ایک سردار خاندان سے تعلق رکھتی ہوں
۔ہمارے خاندان میں یہ رواج ہے کہ ہم لوگ خاندان سے باہرشادی نہیں کرتے ،
لڑکی کو ساری زندگی گھر بٹھا لیں گئے مگر اپنے خاندان سے باہر شادی نہیں
کریں گئے۔ میں آپ کے جذبات کی قدر کرتی ہوں۔لیکن میں “ امیدوں کی تتلی کے
پر مسل کر اپنی انگلیوں کی پوروں کو رنگین نہیں کر سکتی“۔
مگر حنا میں نے کوئی غلط بات نہیں اپنے دل کا حال بیان کیا ہے اور میں ایک
با عزت طریقے سے تم کو بیاہ کر لائوں گا۔ (باقی اگلی قسط میں)
|