آبائی کائنات؟
ہوائی جہاز سے وہاں نیچے دکھائی دے رہی دھرتی اُس کے اپنے ملک کی تھی،اس کی
اپنی سر زمین، جہاں وہ پید ا ہوا تھا، آج وہ برسوں بعد واپس لوٹ رہا تھا،
اُس کے دل اور دماغ میں جیسے ہلچل سی مچی ہوئی تھی،اپنا ملک، اپنا شہر،
اپنا قصبہ، اپنا گاؤں، اُسے اپنا چھوٹا سا قصبہ بہت یاد آتا تھا، اور اس
چھوٹے سے قصبے میں وہ چھوٹا سا محلہ اورگھر۔
بچپن میں گھر سے دورشام ڈھلے یا پھر کسی اور رشتہ دار کے ہاں، یا کہیں محلے
سے باہر جانے پر کیسے اُسے اپنا گھر کھینچتا تھا، اُس کی نیند اڑ جاتی،
بھوک لگنا بند ہو جاتی، آرام ملتا تو گھر واپس لوٹ کر، کیسی جڑت تھی اُس کے
بھیتر میں کہیں جو اُسے ایک چار دیواری سے باندھے ہوئے تھی۔
یہ کیسا احساس تھا؟
شاید تحفظ کا احساس یا پھر کوئی فطری جذبہ جو اس کے ذہن کی رگوں میں کہیں
سرایت کیے ہوئے تھا، شاید انسان جس چار دیواری میں ہوش سنبھالتا ہے اس سے
باہر کی اجنبی دنیا اُسے ڈراتی ہے، خوف میں مبتلا کرتی ہے، یا ایسا ہی کچھ
اور، جو بھی تھا، عجیب بھی تھا اور دلچسپ بھی، اور جب پہلی بار اسے ایک
دوسرے قصبے میں جانے کا اتفاق ہواتو اسے اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنے قصبے
کی یاد بھی ستانے لگی، گھر سے باہر کی دنیا کے راستے، گلیاں اور محلہ
اورمحلے کے آس پاس کی جگہیں اس کو پکارنے لگیں اور تب بھی کچھ ایسا ہی ہوا
جب وہ ایک بڑے شہر میں رہنے کے لیے گیا۔
سوچوں کا ایک ریلا تھا۔
ہوائی جہاز کے پہیے جلد ہی اس کی آبائی سر زمین کو چومنے والے تھے، آبائی
گاؤں، آبائی شہر، آبائی ملک۔اسے وہ انکل یاد آئے جن کی وصیت کے مطابق
بیرونِ ملک سے لا کر ان کی لاش کو ان کے آبائی گاؤں میں سپردِ خاک کیا گیا
تھا، نہ جانے کتنی ہی کہانیاں، فلمیں اور ناول اس حقیقت کو آشکار کرنے کے
لیے لکھے گئے کہ مٹی سے،وطن سے محبت انسانی فطرت کا حصہ ہوتی ہے، دھرتی ماں
ہے،ہم جس مٹی سے اٹھائے گئے ہیں اسی مٹی میں لوٹ کرہمیں واپس جانا ہے، جیسے
یہ کوئی الوہی قانون ہو،وہ سوچ رہا تھا کہ سچ ہی کہا جاتا ہے، انسان کے
مشاہدے نے بھی تو اسے یہی کچھ سکھایا ہے۔
وہ تعلیم یا نوکری کے سلسلے میں جب بڑے شہر اور پھر اس سے بھی بڑے شہر گیا
تو اس کی پہچان اس کا آبائی ضلع بن گیا، خاص کر دارلحکومت میں کئی برس رہنے
کے دوران میں وہ کسی کے پوچھنے پر اس کو یہی بتاتا کہ وہ فلاں ضلع سے ہے،
ایسے میں اسے اپنے ضلع سے عجب طرح کی انسیت محسوس ہوتی، خاص کر جب اسے پتہ
چلتا کہ فلاں شخص اس کے اپنے علاقے کا ہے۔
اپنا علاقہ؟ یعنی اپنا قصبہ؟
نہیں ساتھ والا قصبہ چھوڑ کر اس سے اگلے قصبے کا یا اس قصبے کے نواح میں
کسی گاؤں میں رہنے والا کوئی شخص بھی اس کو اپنے علاقے کا ہی لگتا۔
اور جب وہ ملک سے باہر چلا گیا، تو پھر پورا ملک اس کا اپنا تھا،اس کا
آبائی ملک،کسی اور شہر، ضلع یا پھر کسی اور صوبے کا رہنے والا بھی بیرونِ
ملک اس کے اپنے علاقے کا ہوتا، آج جبکہ وہ برسوں بعد لوٹ رہا تھاتواس کے دل
اور دماغ میں جیسے ہلچل سی مچی ہوئی تھی۔
ہوائی جہاز لینڈ کر چکا تھا۔
اُس نے ائیرپورٹ سے باہر قدم رکھا اور سرشاری کی سی کیفیت میں گہرا سانس
لیا، وہ اپنی سر زمین پر کھڑا تھا، پھر ایک فلائینگ کوچ اسے لیے اس کے
آبائی ضلع کی جانب اڑی چلی جا رہی تھی، پھر اپنا علاقہ، پھر اپنا قصبہ، اور
پھر اپنا محلہ اورگھر۔
وہ گھر کے سامنے کھڑا سوچوں میں گم تھا، جیسے اس نے کوئی راز پا لیا ہو،یا
پھر جیسے کہا جاتا ہے کہ شرطیہ کوئی مقدس جذبہ پور اہو گیا ہو،اُس کے بھیتر
سے کہیں جیسے آواز آئی۔۔۔ آبائی سیارہ، آبائی ستارہ، آبائی کہکشاں اور
آبائی کائنات؟؟ اور۔۔۔۔اور اُس نے مسکراتے ہوئے ڈور بیل بجا دی۔
……
اسپیس شٹل کے فرنٹ گلاس کے اس پار نیلا سیارہ اُس کی ساری توجہ کھینچے ہوئے
تھا۔
اُس کی دونوں آنکھوں میں پتلیوں کی جگہ نیلا سیارہ چمک رہا تھا، اُس کا
آبائی سیارہ۔
وہ ایک مشن کے سلسلے میں کسی اور سیارے پر کئی برس گزار کر واپس زمین پر
لوٹ رہا تھا۔
سوچوں کا ایک ریلا تھا۔
اسپیس شٹل زمین کے مدار میں داخل ہونے والی تھی، وہ مشن پر جانے اوراب واپس
آنے تک کے تمام تر سفر کو ذہن میں دہرا رہا تھا، وہ بحفاظت سامنے دکھائی دے
رہے نیلے سیارے پر اتر جانے کے لئے بے تاب تھا، لیکن اس کی فکر کی تشکیل
میں اور بہت سی باتیں بھی جگہ بنا چکی تھیں، اس دوسرے سیارے پر قیام کے
دوران میں وہ قصبوں،شہروں، علاقوں، ملکوں یا پھر مشرق و مغرب کی تفریق اور
تخصیص کے بغیر پورے کے پورے نیلے سیارے کے لیے شدید محبت اور انسیت محسوس
کرتا رہا تھا، اور اب اربوں انسانوں میں سے ایک انسان تھا جو زمین پر لوٹ
رہا تھا۔
اسپیس شٹل زمین پر اترنے والی تھی۔
وہ اُن دو ساتھیوں کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا جو واپسی پر اُس کے ساتھ
نہیں تھے، وہ ایک حادثے کے باعث اب اسی سیارے کا حصہ بن چکے تھے، وہ جس مٹی
سے اٹھائے گئے تھے اس کے علاوہ دور بہت دو ر کہیں کسی اور سیارے کی مٹی میں
لوٹ چکے تھے۔
اجنبی سیارے پر۔دور تک گہری خلا میں پھیلے ستاروں کو دیکھتے ہوئے کسی پرکیف
لمحے میں اُس نے ارادہ کیا تھا کہ وہ واپس لوٹ کر ایک کتاب لکھے گا،جیسے اس
نے بھی کوئی راز پا لیا تھا۔
وہ دستِ تصور سے اُس کتاب کے اوراق پلٹنے لگا۔
انسان اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے مشرق یا مغرب میں نہیں، وہ مسکرایا۔
پھر اس نے سوچا تھا کہ انسان ایک کہکشاں میں پیدا ہوتا ہے کسی سیارے پریا
شمسی نظام میں نہیں اور پھر اس نے یہ بھی سوچاتھا کہ انسان اس کائنات میں
پیدا ہوتا ہے کسی کہکشاں یاپھرکہکشاؤں کے کسی جھرمٹ میں نہیں، اوراپنی کتاب
کے اختتامی جملوں کو یادکر کے اس کی مسکراہٹ اور بھی گہری ہو گئی۔
انسان شاید بے شمار کائناتوں میں سے کسی ایک کائنات میں پیدا ہوتا ہے۔۔
اور۔۔۔۔اور۔۔۔
اسپیس شٹل زمین کے مدار میں داخل ہو چکی تھی،اُس اجنبی سیارے پر انھیں کچھ
خاص نہیں ملا تھا، لیکن وہاں باہر اُس گہری خلا میں طویل اورانتہائی دلچسپ
سفر سے وہ ایک بالکل نئی سوچ لے کر لوٹ رہا تھا،سامنے دکھائی دے رہے (بے
شمارٹکڑوں اوردائروں میں بٹے)ننھے منے اُس نیلے ذرّے پر اترنے سے پہلے اُس
کا ذہن جیسے کہیں بھیتر تک آزاد ہو چکا تھا۔۔۔
|