شاہ میر گھر سے غصے سے پیر پٹختا ہوا نکلا تھا۔ اور اپنی
بلیک پراڈو کو بے مقصد کراچی کی سڑکوں پر دوڑاتا پھر رہا تھا۔ اسے غصہ اس
بات پر نہیں تھا کہ ثریہ بیگم نے اسے تھپڑ کیوں مارا۔ اسے غصہ اس بات کا
تھا کہ اس کی والدہ جان گئی تھیں کہ وہ اپنے بھائی سے نفرت کرتا ہے اور
حنین سے شادی بھی اسی نفرت کی وجہ سے کی تھی۔ وہ جو نہیں چاہتا تھا وہی
ہوگیا تھا۔ اس نے کبھی اپنی نفرت کا اظہار تو حنین کے سامنے بھی نہیں کیا
تھا۔ مگر اب بھیا جانی کی منگنی حنین سے بھی زیادہ حسین لڑکی سے ہونے والی
تھی۔ بھیا جانی بھی خوش خوش رہنے لگے تھے تو وہ یہ کیسے برداشت کر پاتا۔
مگر جو بھی ہوا تھا غلط ہوگیا تھا۔ حنین جان کر بھی اس کے دل میں چھپی نفرت
سلمان کے لیے سب کے سامنے اس کی اصلیت بتا نہیں سکتی تھی۔ مگر وہ اپنی
والدہ کو جانتا تھا۔ ہمیشہ اس کی سلمان کے ساتھ نا انصافی پر وہی اسے سرزش
کرتی رہتی تھیں۔ سلمان کا یوں بھائی کے حق میں دستبردار ہوجانا انہیں قطعی
پسند نہیں آیا تھا۔ اور وہی واحد فرد تھیں جو اس کے حنین سے نکاح ہونے تک
سلمان کو حنین کے لیے راضی کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ شادی کے بعد بھی کافی
دنوں تک اس سے بات نہیں کی تھی انہوں نے۔ مگر حنین کو خوش دیکھ کر اس کے
ساتھ پھر ان کا دل پسیجا تھا۔ مگر اب۔ اب کیا ہوگا یہی بات اسے کھائے جا
رہی تھی۔ اس نے گاڑی ساحل پر اب روک دی تھی۔ ابھی نکلنے ہی لگا تھا گاڑی سے
کہ سیل فون بج اُٹھا۔ بغیر دیکھے نمبر سیل فون کان سے لگایا تھا۔
"ہیلو۔"
"ہیلو ۔۔۔۔ ثاقب لودھی بات کر رہا ہوں۔"
"ثاقب لودھی ؟ سوری آئی ڈونٹ نو یو ؟"
"حیرت ہے جس کی بیٹی کے ساتھ پورے شہر میں پھر رہے ہو اسے ہی نہیں جانتے ؟"
"اوہ! آئیم سوری سر میں آپ کو پہچان نہیں پایا کیسے ہیں آپ؟"
"فارمیلٹیز رہنے دو تو بہتر ہے۔ کیا تم مجھ سے مل سکتے ہو ابھی اور اسی
وقت؟"
"جی کیوں نہیں ۔۔ آپ جہاں چاہیں میں وہاں آپ سے ملنے آجاؤنگا۔"
"اگزینڈرز ریسٹورینٹ۔"
"سر آئیم ویری نئیر ٹو اگزینڈرز ۔۔۔ دس منٹ میں پہنچ جاؤنگا۔"
"اوکے بائے۔"
"بائے۔"
تھوڑا پریشان ہوا تھا کہ ثاقب لودھی اس سے کیوں ملنا چاہتا ہے۔ جب سے وہ
نکی سے ملا تھا تب سے اسے حنین کھٹکنے لگی تھی۔ وہ ان تین مہینوں میں ہی اس
سے اُکتا گیا تھا۔ جس مقصد کے لیے اس نے اس سے شادی کی تھی جب وہ ہی فوت
ہوگیا تو اسے خود سے باندھے رکھنا بیکار تھا۔ حنین سادہ مزاج گھریلو ٹائپ
لڑکی تھی۔ اس کے برعکس نکی اس کی ہم مزاج قدم سے قدم ملا کر چل سکتی تھی۔
وہ جانتا تھا نکی بھی اسے ٹوٹ کر چاہتی ہے۔ اور نکی کی محبت کا خمار اس کے
بھی سر چڑھ چکا تھا۔ وہ پور پور ڈوب چکا تھا۔ ہر طرف اسے نکی ہی نظر آتی
تھی اب۔ وہ نکی کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مگر جب تک حنین اس کی بیوی تھی وہ
ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ نکی کی بھی شرط یہی تھی کہ پہلے حنین کو طلاق دے کر
اسے اپنی زندگی سے بےدخل کرے گا. تب ہی وہ اس سے شادی کریگی۔ اور اسے یہ
شرط خوشی سے قبول تھی۔ حنین اس کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔
مگر وہ اسے بغیر کسی وجہ کے طلاق دینا نہیں چاہتا تھا۔ اگر ایسے ہی طلاق دے
دیتا تو سارا الزام اور نفرت شاہ میر کے ہی حصے میں آتی۔ اور وہ سب کی
مخالفت مول لینا نہیں چاہتا تھا۔ بلکے چاہتا تھا کہ سارا الزام طعنے تشنے
حنین کے حصے میں آئے۔ مگر سب کچھ غلط ہوگیا تھا۔ مگر ابھی تو اسے صرف ثاقب
لودھی کی ٹینشن کھائے جا رہی تھی۔ ثاقب لودھی ایک امیر کبیر کامیاب بزنس
مین تھا اور نکی اس کی اکلوتی بیٹی تھی۔ خیر اس کا خاندان بھی کچھ کم نہ
تھا۔ جدی پشتی رئیس تھے۔ زمینیں تھیں ہوٹلز اور کوٹن کی پانچ ملیں تھیں۔
ثاقب لودھی سے زیادہ نہیں تو کم بھی حثیت نہیں تھی اس کے باپ دادا کی۔ خیر
وہ دل میں سو اندیشے لیے اگزینڈرز پہنچا تھا۔ ویٹر نے اسے سیدھا ریزروڈ
ٹیبل پر پہنچا دیا تھا۔ جہاں ثاقب لودھی کیژول ڈریس یعنی ہلکے نیلے رنگ کے
کرتا شلوار پر ڈارک نیوی بلو واسکٹ پہنے بیٹھا تھا۔
"ہیلو انکل۔"
"ہیلو ۔۔۔ تم کافی پنکچؤل لگتے ہو ۔۔۔ ٹھیک وقت پر پہنچے ہو ۔۔۔"
"جی ۔۔۔ شکریہ."
"ویل! اب ذرا کام کی بات ہوجائے ۔۔۔۔ کب سے جانتے ہو نکی کو یہ میں تم سے
نہیں پوچھونگا ۔۔۔ ہاں یہ بتاؤ اپنی بیوی کو کب چھوڑ رہے ہو؟"
ایک دم چونک کر شاہ میر نے ثاقب لودھی کو دیکھا تھا ۔۔۔
"اگر تم یہ سمجھ رہے ہو کہ مجھے نکی نے کچھ بتایا ہے تو غلط سمجھ رہے ہو
۔۔۔ اسے پتہ بھی نہیں ہے کہ میں اس کے اس افئیر کے بارے میں جانتا ہوں ۔۔۔
میں اپنی بیٹی کو اچھی طرح سے جانتا ہوں اور اب تمہارے بارے میں بھی مجھے
سب کچھ پتہ ہے اس لیے جھوٹ مت بولنا... اس میں نقصان صرف تمہارا ہی ہوگا
۔۔۔ مجھے جھوٹ سے نفرت ہے ۔۔۔ ویل اب بولو کب دے رہے ہو طلاق اس لڑکی کو؟
۔۔۔ اس کے ہوتے تو میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے نہیں کرسکتا۔"
"ایک ہفتے کے اندر ہی دے دونگا سر ۔۔۔ مگر اسے طلاق دینے کا مطلب اپنے حق
یعنی جائداد سے دستبردار ہونا پڑیگا مجھے۔"
"یہ تو تمہیں نکی سے محبت کرنے سے پہلے سوچنا چاہیئے تھا ۔۔۔ خیر... تم فکر
مت کرو... ابھی صرف نکی اور اپنے بارے میں سوچو۔"
"تھینکس سر۔"
"ہممم!"
ثاقب لودھی کے ساتھ پھر بڑے بے فکرے انداز میں ڈنر کیا تھا اس نے۔
×××××××××××
ان کی گاڑی تیزی سے ہاسپٹل کی مین انٹرنس پر رکی تھی۔ اپنے دوست ڈاکٹر
اسرار جو ایمرجنسی کیسز کو ہینڈل کرتے تھے سے پہلے ہی بات ہوچکی تھی وہ کچھ
نرسز اور وارڈ بوائے کے ساتھ ہسپتال کی انٹرنس پر موجود تھے۔ تیزی سے آگے
بڑھے تھے۔ سلمان نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا تھا۔
"السلام علیکم! آنٹی پلیز آپ ایک طرف ہوجائیے تانکے نرسز انہیں اُٹھا کر
اسٹریچر پر لٹا سکیں۔"
ثریہ بیگم انہیں سلام کا جواب دے کر گاڑی سے باہر نکل کر ایک سائیڈ پر کھڑی
ہوگئیں تو دو نرسز نے آگے بڑھ کر بے ہوش دھان پان سی حنین کو گاڑی سے نکال
کر اسٹریچر پر لٹایا تھا۔
"انہیں ایمرجنسی روم میں لے کر جائیں ۔۔۔ اور ڈاکٹر یاسمین کو انفورم کر
دیجیئے۔" ڈاکٹر اسرار یہ کہتے ہوئے سلمان کی طرف مڑے تھے ۔۔۔۔
"سلمان اتنی بلیڈنگ ؟ کیا یہ پریگننٹ تو نہیں ؟ آئی مین اگر ایسا ہے تو ان
کا مسکیریج ہوا ہے۔"
"اوہ! اگر ایسا ہے تو مجھے نہیں معلوم ۔۔۔ ماما کیا حنین؟"
"نہیں بیٹا... اس نے ہمیں تو ابھی تک کچھ ایسا بتایا تو نہیں۔"
ثریہ بیگم بیٹے سے بولی تھیں۔ لیکن سو اندیشے اب ان کے دل میں اُٹھنے لگے
تھے۔
"کیا اگر واقعی حنین پریگننٹ تھی تو ۔۔۔ نن نہیں میں شاہ میر تمہیں کبھی
معاف نہیں کرونگی ۔۔۔ کبھی نہیں۔"
سلمان جو تیزی سے حنین کے اسٹریچر کے پیچھے قدم بڑھا چکے تھے اپنی والدہ کو
وہیں ساکت لرزتے ہوئے دیکھا تو پلٹ کر ان کی طرف آئے تھے۔
"ماما پلیز پریشان نہ ہوں ۔۔۔ اللہ سب بہتر کریگا ۔۔۔ بس حنین کے لیے دعا
کریں۔" بیٹے کی بات پر ڈبڈبائی آنکھوں سے انہیں دیکھا تھا۔ ماں کودلاس دیتے
سلمان خود کافی ٹینس لگ رہے تھے۔
"کاش حنین کی شادی تم سے ہوتی ۔۔۔ تو پھول سے بھی زیادہ نازک بچی کا ایسا
حال تو نہ ہوتا۔" وہ یہ بات ان سے کہہ تو نہیں سکتی تھیں بس صرف سوچ کر رہ
گئیں۔ اور دور ہوتے اسٹریچر کو دکھ سے دیکھا تھا اور پھر اندر کی طرف قدم
بڑھا دیے تھے۔
××××××××
وہ لق دق صحرا میں ننگے پاؤں دوڑ ے جا رہی تھی۔ صحرا تپ رہا تھا اس کا جسم
ہی نہیں روح بھی جھلس رہی تھی۔ اسے تنہائی سے ڈر لگتا تھا اور وہ اس وقت
تنہا تھی۔ اسے شدید پیاس لگی تھی مگر دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں
تھا۔ وہ دوڑتے دوڑتے اب تھک چکی تھی۔ اور بے دم سی ہوکر گرم ریت پر اوندھے
منہ گری تھی۔
"پپ پانی ۔۔۔ ام امییییی (امی) مم میں مر رہی ہوں ۔۔۔۔ کک کوئی
ہے ۔۔۔۔ مم مجھے مجھے پپ پیاس لگی ہے ۔۔۔۔ اللہ!" اس کی آواز بھی گھٹی گھٹی
سی تھی۔ آخر میں اپنے رب کو مدد کے لیے پکارا تھا۔ اچانک ٹھنڈی ہوائیں چلنے
لگی تھیں۔ اور بادل گرجنے برسنے لگے تھے۔ وہ جو اوندھے منہ لیٹی ہوئی تھی
اب اٹھ بیٹھی اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھنے لگی۔ پھر سامنے نظر گئی
تو کسی کو آتے دیکھا۔ دور سے واضح نہیں ہورہا تھا کہ کون ہے مگر جیسے جیسے
وہ نزدیک ہوتا گیا۔ اس کی شکل بھی واضح ہونے لگی۔ اسے یقین ہی نہیں آرہا
تھا کہ وہ وہی ہے۔ لبوں پر نرم مسکراہٹ لیے وہ اب اس کے سامنے کھڑا تھا۔
"آ آپ! "
"ہاں میں ۔۔۔۔ کیوں یقین نہیں ہورہا کیا؟"
"کیسے یقین کرلوں ۔۔۔ آپ تو مجھے چھوڑ کر آگے چل دیے تھے ۔۔۔ پھر واپس میری
طرف کیوں؟"
"تمہارے لیے ۔۔۔ صرف تمہارے لیے تم تک واپس آیا ہوں ۔۔۔ تمہیں ٹوٹتے بکھرتے
نہیں دیکھ سکتا۔ "
"فیصلہ بھی تو آپ کا تھا دور جانے کا۔"
"ہاں ۔۔۔۔ وہ فیصلہ غلط تھا ۔۔۔ مگر اب اور غلط نہیں ہونے دونگا۔" یہ کہتے
ہوئے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا.
"نہیں ۔۔۔ اب بہت دیر ہوچکی ۔۔۔۔ مجھے آپ سے نفرت ہے ۔۔۔ شدید نفرت ۔۔۔۔
چلے جائیں پلیز ۔۔۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں ... پلیز ۔۔۔ ( وہ اس شخص کی
طرف پشت کرکے رونے لگی تھی اور چیخ چیخ کر بول رہی تھی )۔"
"حنین ! بیٹا ۔۔۔ حنین۔"
اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول کر اپنی امی کو دیکھا تھا۔ جو آنکھوں میں
آنسو لیے اس پر جھکی اس کے چمکدار سیاہ بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھیں۔
اسے ہوش میں آتا دیکھ کر ان کے چہرے پر ایک گونا اطمینان چھایا تھا۔
"ام ۔۔۔ می ۔۔۔ مم میں۔"
"پلیز کچھ مت سوچو ۔۔۔۔ اللہ کا لاکھ لاکھ احسان ہے ۔۔۔ میری بچی میری
جان۔" شفق بیگم اس کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے بولی تھیں۔
"حنین اب پوری طرح سے ہوش میں آچکی تھی۔ اسے اب سب کچھ یاد آگیا تھا کہ ایک
چھوٹی سی بات پر شاہ میر نے اسے کلون کی بھاری بوتل پھیک کر ماری تھی جو اس
کے پیٹ پر جا کر زور سے لگی تھی اور پھر وہ شدید تکلیف ہونے کے باعث بےہوش
ہوگئی تھی۔ مگر وہ بےچاری نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کھو چکی ہے۔ کتنا بڑا
نقصان اُٹھا چکی ہے۔ ڈاکٹر یاسمین نے اس کی حالت اب خطرے سے باہر بتائی تو
سب کی جان میں جان آئی تھی۔ ورنہ یہ تین چار گھنٹے جس پریشانی میں گزرے تھے
یہ تو ان سب کا دل ہی جانتا تھا۔ صفدر صاحب نے اپنے بیٹے شاہ میر کو
کانٹیکٹ کرنے کی بڑی کوشش کی تھی۔ مگر اس کا سیل فون بند جا رہا تھا۔ یار
دوستوں سے اس کا معلوم کرنے کی کوشش کی تو بھی مایوسی ہوئی تھی۔ کسی کو خبر
نہیں تھی کہ وہ کہاں ہے۔ ثریہ بیگم نے ابھی تک کسی کو کچھ بتایا نہیں تھا۔
پہلے وہ اپنے ناخلف بیٹے سے خود اس سلسلے میں بات کرنا چاہتی تھیں۔ انہیں
ابھی تک اپنے کانوں سے سننے کے باوجود یقین نہیں ہورہا تھا کہ شاہ میر اپنے
ہی بھائی سے اتنی نفرت کرتا ہے۔ سلمان کے لیے دل میں بغز اور کینہ رکھتا
ہے۔ کہاں ان سے یا صفدر صاحب سے غلطی ہوئی تھی انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا۔
ہمیشہ بیچارے سلمان کی ہی حق تلفی ہوتی رہی۔ سلمان کی ہر چیز پر شاہ میر حق
جما کر بیٹھ جاتا۔ اور وہ بھی خوشی خوشی اپنی پسند کے ٹوائز اور ویڈیو گیمز
اسے تھما دیتے۔ کبھی نہ کا لفظ اپنے بیٹے سلمان کے منہ سے نکلتا بھائی کے
لیے نہیں سنا تھا۔ انہیں شاہ میر پر غصہ بھی بہت آتا تھا۔ اور وہ اسے
ڈانٹتی اور سرزش بھی کرتی رہتی تھیں۔ اب تو وہ سلمان سے حنین کو بھی چھین
چکا تھا۔ جس پر انہیں غصہ بھی بہت آیا تھا دونوں بیٹوں پر۔ لیکن ان چند
مہینوں میں شاہ میر کا سلوک حنین کے ساتھ سب کے سامنے بڑا اچھا تھا۔ اس لیے
اسے قسمت کا لکھا سمجھ کے اپنی ناراضگی دونوں بیٹوں سے ختم کردی تھی۔ لیکن
جو کچھ انہوں نے اپنے کانوں سے اتفاق سے سن لیا تھا۔ اس نے ان کے ہوش اُڑا
دیے تھے۔ شاہ میر کا کمرہ ساؤنڈ پروف تھا۔ اصل میں یہ پہلے لائیبریری تھی۔
جسے شادی سے پہلے شاہ میر نے حشمت صاحب سے ضد کر کے اپنے کمرے کے لیے منتخب
کرلیا تھا۔ اور اپنے کمرے کو لائیبریری میں بدل دیا تھا۔ پتہ نہیں اس بند
کمرے کے اندر حنین کے ساتھ کس طرح پیش آتا ہوگا۔ شفق بیگم ہسپتال میں حنین
کے ساتھ تھیں۔ اور ثریہ بیگم گھر واپس جا چکی تھیں ۔۔۔ انہیں شدت سے شاہ
میر کا انتظار تھا۔
*******
سلمان اپنی والدہ کو گھر چھوڑ کر واپس ہسپتال پہنچے تھے۔ گاڑی پارک کرکے
اور ثریہ بیگم کے دیے کھانے کا ٹفن اور کچھ پھلوں کا بیگ بیک سیٹ سے اٹھا
کر ہسپتال کی مین انٹرنس کی سیڑھیاں چڑھنے لگے تھے کہ سیل فون بجنے لگا۔
پینٹ کی جیب سے سیل فون نکال کر دیکھا تو شفق بیگم کا نمبر بلنک کر رہا
تھا۔
"ہیلو... السلامُ علیکم ۔۔۔ چچی میں ہوسپٹل میں۔"
"وعلیکم السلام ۔۔۔ بیٹا حنین کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے ۔۔۔ وو وہ ہوش میں
آکر پھر بے ہوش ہوگئی ہے۔"
"اوہ! آپ پریشان نہ ہو میں آرہا ہوں۔" یہ کہتے ہوئے فون ڈسکنکٹ کیا تھا اور
تیزی سے اندر کی طرف بڑھے تھے ۔۔۔۔
یہ ایک بہت بڑا اور مہنگا ہسپتال تھا۔ حنین کو جس پرائیویٹ روم میں رکھا
گیا تھا وہ چوتھی منزل پر تھا۔ لفٹ کے ذریئے جب چوتھی منزل پر اس پرائیویٹ
کمرے میں پہنچے تو ڈاکٹرز کو حنین پر جھکے دیکھا۔ شفق چچی ایک طرف پریشان
روتے ہوئے کھڑی تھیں۔ وہ تیزی س آگے بڑھے تھے۔
"کیا ہوا ہے ڈاکٹر حنین کو؟"
"ابھی کچھ کہہنا مشکل ہے.. بٹ.. سمپٹمز سے تو یہی لگ رہا ہے کہ انہیں
اسکیمک اسٹروک ہوا ہے۔" وہ شاکڈ کی سی کیفیت میں آگئے تھے ۔۔۔
"بٹ ڈونٹ وری ۔۔۔ جلد ٹریٹمنٹ شروع کرنے سے فردر سائیڈافیکٹس سے بچا جا
سکتا ہے۔" وہ ان کی پیٹ تھپتھپاتے ہوئے بولا تھا۔
اتنے میں روم میں وارڈ بوائے اور کچھ نرسز اسٹریچر لیے داخل ہوئے تھے۔ اور
ان کے پیچھے ڈاکٹراسرار بھی روم میں داخل ہوئے تھے۔ حنین کو جلدی سے بیڈ سے
اسٹریچر پر لٹا دیا گیا۔ سلمان نے اسی وقت حنین کو دیکھا تھا۔ اس کا اوپر
کا جبڑا اور نیچے کا جبڑا کچھ عجیب انداز میں لٹک گیا تھا۔ اور منہ کچھ
ٹیڑا سا ہوگیا تھا۔ اسے اس حال میں دیکھ کر ان کا دل اندر سے بری طرح دکھا
تھا۔ آنکھوں میں بےاختیار آنسو آگئے تھے۔
"یا اللہ! اس لڑکی کو جلد صحت یاب کردے مالک۔"
دل نے دہائی دی تھی۔ اپنے رب کو پکارا تھا چپکے سے۔ شفق چچی ان کے قریب آکر
کھڑی ہوگئی تھیں۔ وہ ہولے ہولے لرز رہی تھیں۔ رو رہی تھیں۔
"شفق چچی حوصلہ رکھیں ۔۔۔ اللہ حنین کو جلد صحت یاب کردے گا۔ "
"اسے ابھی تک یہ بھی نہیں پتہ ہے کہ وہ پریگننٹ تھی اور اس کا مسکیریج
ہوگیا ہے ۔۔۔ اور دیکھو میری بچی پر یہ کیسی افتاد پڑی ہے۔"
"پلیز آنٹی حوصلہ رکھیں ۔۔۔۔ میری ڈاکٹر زاہد سے بات ہوچکی ہے۔ بہت مائینر
اٹیک ہے۔۔۔ ٹریٹمنٹ سے جلد ریکوری ہوجائے گی۔۔۔ انشاء اللہ۔" ڈاکٹر اسرار
نے شفق چچی اور سلمان کو تسلی دی تھی ۔۔۔
××××××××××××××××
باقی آئندہ۔۔۔
|