|
کالے فریم والی عینک لگائے ایک آٹھ سالہ چینی بچہ ویڈیوز کی ایک ویب سائٹ
پر لاگ ان کر رہا ہے۔ وہ ایک ٹیچر ہے جو اپنے شاگردوں کو آن لائن کوڈنگ
سکھاتا ہے۔
ویٹا نامی اس بچے نے چین کی ایک ویڈیو اسٹریمنگ ویب سائٹ پر کوڈنگ سکھانے
کے لیے چینل بنایا ہوا ہے۔
رواں سال اگست سے اب تک اس کی کئی ویڈیوز 10 لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھی جا
چکی ہیں جب کہ اس کے فالوورز کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
چین میں ایسے بچوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جو پرائمری اسکول میں داخلے
سے قبل ہی کوڈنگ سیکھ رہے ہیں اور ویٹا بھی انہی میں سے ایک ہے لیکن ویٹا
نے جو کچھ سیکھا ہے وہ مقامی ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ کی مدد سے مزید بچوں کو
سکھا رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق چینی والدین میں یہ رجحان تیزی سے
فروغ پا رہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نو عمری میں ہی کوڈنگ کی صلاحیتیں
سکھائیں۔ چینی والدین کا ماننا ہے کہ کوڈنگ سیکھنا ان کے بچوں کے لیے بہت
ضروری ہے۔
|
|
چین کے شہر شنگھائی کے رہائشی آٹھ سالہ ویٹا کا خیال ہے کہ کوڈنگ آسان
نہیں ہے، لیکن کچھ خاص مشکل بھی نہیں ہے۔ 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے
انہوں نے کہا کہ کوڈنگ کم از کم اتنی مشکل نہیں ہے جتنا آپ اسے سوچتے ہیں۔
ویٹا اپنے شاگردوں کو مختلف ایپلی کیشنز کے ذریعے کوڈنگ کی مرحلہ وار تربیت
دیتے ہیں۔ ویٹا کے کئی شاگرد عمر میں ان سے بھی چھوٹے ہیں۔ ویٹا کا کہنا ہے
کہ وہ جب کوڈنگ سکھاتے ہیں تو ساتھ ہی وہ خود بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔
کوڈنگ سیکھنے اور لوگوں کو سکھانے میں ویٹا کے والد ژو ژینگ بھی ان کی
معاونت کرتے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کو پانچ برس کی عمر سے کوڈنگ کی تربیت دے
رہے ہیں۔
ژو ژینگ کا کہنا ہے انہوں نے بھی کوڈنگ کم عمری میں ہی سیکھی تھی۔ اس لیے
اُنہیں لگتا ہے کہ اس عمر میں پروگرامنگ کی تربیت حاصل کرنا بالکل عام بات
ہے۔
البتہ وہ والدین جو اپنے بچوں کو کوڈنگ سکھانے میں خود مدد نہیں کر سکتے،
وہ بچوں کو کوڈنگ ایجنسیوں میں بھیجتے ہیں۔ کوڈنگ سکھانے والے ادارے چین
میں کافی فروغ پا رہے ہیں۔ کیوں کہ مڈل کلاس گھرانے اپنے بچوں کو کوڈنگ
سکھانے کی غرض سے مختلف سینٹروں میں بھیج رہے ہیں۔
پین وانگ بو بیجنگ میں ایک کوڈنگ سکھانے والے ادارے کے جنرل منیجر ہیں۔
انہوں نے 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ چونکہ ترقی یافتہ ملکوں کی نسبت چین
کے سرکاری اسکولوں میں بچوں کو پروگرامنگ سکھانے کے عمل کا آغاز دیر سے
ہوتا ہے۔ اس لیے ان کا ادارہ بچوں میں یہ کمی پوری کر رہا ہے۔
اس ادارے میں پروگرامنگ کی تربیت حاصل کرنے والے سب سے کم عمر بچہ صرف تین
برس کا ہے۔ چھ برس تک کی عمر کے بچوں کو کوڈنگ کے ابتدائی کورس پڑھائے جاتے
ہیں جو خاص طور پر چھوٹے بچوں کو سکھانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
|
|
پین وانگ بو کے مطابق چھ سال سے بڑی عمر کے بچے پروگرامنگ کے باقاعدہ کورسز
پڑھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت کو کم نہ سمجھیں، کچھ کورسز تو
یہ بچے نوجوانوں سے بھی زیادہ جلدی سیکھتے ہیں۔
جی ینگ ژی کی عمر صرف 10 برس ہے۔ وہ گزشتہ چھ ماہ سے اسی ادارے میں
پروگرامنگ کی ایک زبان 'پائیتھن' سیکھ رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ روبوٹ بنانا
بھی سیکھتے رہے ہیں جو ان کے بقول بہت ہی آسان تھا۔
جی ینگ ژی کو ویڈیو گیمز کھیلنے کا شوق تھا۔ لہٰذا ان کے والد نے اُنہیں
پروگرامنگ سکھانے والے ایک ادارے میں داخلہ دلا دیا اور ساتھ ہی ان پر
پابندی لگا دی کہ اب اُنہیں صرف وہی گیمز کھیلنے کی اجازت ہو گی، جو وہ خود
کوڈنگ سے بنائیں گے۔
اے ایف پی کے مطابق چین روبوٹکس اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت)
پر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ حکومت نے 2017 میں مصنوعی ذہانت کا ایک
منصوبہ بھی لانچ کیا ہے جس کے تحت پروگرامنگ کے کورسز بچوں کو پرائمری اور
سیکنڈری اسکولوں میں ہی پڑھائے جائیں گے۔
علاوہ ازیں چین نے بچوں کے لیے مصنوعی ذہانت کی تدریسی کتاب بھی شائع کر دی
ہے جو اُنہیں نصاب میں پڑھائی جائے گی۔
چین میں انٹرنیٹ کا تجزیہ کرنے والی ایک فرم 'اینالیسز' کے مطابق چین میں
بچوں کے لیے پروگرامنگ کی صنعت کا مجموعی حجم 2017 میں 7 ارب 50 کروڑ یوان
تھا۔ چین 2020 تک اپنی اس صنعت کا مجموعی حجم 37 ارب یوان تک لے جانا چاہتا
ہے جس کے لیے وہ ہر ممکن کوششیں کر رہا ہے۔
|
Partner Content:VOA |