پاکستان میں امیر ہو یا غریب بظاہر تو ہر
بچہ پڑھ سکتا ہے امیر بچوں کی طرح غریب بھی اسکولوں اور کالجوں میں جا سکتے
ہیں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں مگر ان کی تعلیم کا معیار بلکل مختلف ہے ان کے
تعلیمی اداروں کو معیار کے حساب سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جن میں
سے ایک کو ہم نجی اور دوسرے کو سرکاری ادارے کہتے ہیں بظاہر تو سرکاری اور
نجی دونوں ہی اداروں میں تعلیم مہیا کی جاتی ہے مگر دونوں کامعیار تعلیم
بلکل مختلف ہے۔
نجی اداروں میں طلبہ و طالبات کو بہترین اور اعلیٰ تعلیم مہیا کی جاتی ہے
جبکہ اس کے بر عکس سرکاری اداروں میں طلبہ و طالبات کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم
سے محروم رکھا جاتا ہے بلکہ ان کی اس طرح تربیت بھی نہیں کی جاتی جس طرح
ایک نجی اسکول میں طلبہ و طالبات کی تربیت کی جاتی ہے سرکاری تعلیمی اداروں
کا نظام اس قدر برباد ہو چکا ہے کہ اساتزہ شاگردوں سے اپنے گھریلو کام کروا
رہے ہو تے ہیں ان سے محنتیں کرواتے ہیں بعض اساتزہ تو شاگردوں پر ظلم اور
تشدد بھی کرتے ہیں ایسے نظام اور ایسے ماحول میں بچے کس طرح تعلیم حاصل
کریں گے جبکہ جتنا ایک امیر ماں باپ کا بچہ تعلیم حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے
اتنا ہی ایک غریب آدمی کا بچہ بھی اچھی تعلیم حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ |