عبداﷲ یوسفزئی
ہر انسان کو ماضی اچھا لگتا ہے۔ تنہائی کے لمحات میں ماضی کے اوراق پلٹنا،
دنیا سے بے خبر ہوکر یادوں کی بستی میں گھومنا بنی آدم کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
کچھ یادیں انفرادی ہوتی ہیں، کچھ مشترکہ یعنی قوم کی یادیں،شجر ونسب کی
یادیں یا دنیا کی یادیں۔ انفرادی یادیں انسان کی باؤ گرافی کی طرح ہوتی ہے
جس کا تعلق براہ راست اس انسان سے ہوتا ہے۔ جبکہ مجموعی یادوں کا تعلق کسی
قوم کی تاریخ سے ہوتی ہے، جس کے ساتھ قوم کے ہر فرد کا براہ راست تعلق
ضروری نہیں۔
ہم بھی کھو جاتے ہیں کچھ پرانی یادوں میں،دیکھتے ہیں ہم کیا سے کیا بنے۔
قومی یادوں کی کہانی1857ء سے شروع ہوتی ہے۔ جنگ آزادی سے لے کر حصول آزادی
تک ہم ایک مسلم قوم کی حیثیت سے آزادی کے لئے لڑتے رہیں۔ 1906ء میں مسلم
لیگ کی بنیاد رکھی گئی جو سیاسی طور پر مسلمانوں کی شناخت بن گئی۔ مسلم لیگ
نے ایک قوم کی حیثیت سے الگ ریاست کا مطالبہ کردیا۔ مسلم رہنماوں نے
ہندوستان کے مسلمانوں کو جگایا۔ یہ وہ دور تھا جب الیکٹرانک میڈیا کا تصور
نہیں تھا، اخبارات کے ذریعے آزادی کے لئے جدوجہد ہوتی رہی۔ یوں 1947ء میں
ہندوستان کے مسلمانوں کو بنام پاکستان ایک الگ ریاست ملا۔ آزادی کے اس سفر
میں ہم صرف بحیثیت مسلمان لڑتے رہیں۔ نہ کوئی شیعہ تھا نہ کوئی سنی، نہ
کوئی مہاجر تھا نہ کوئی دیسی، اور نہ ہی ہم علاقائی یا لسانی طور پر خود کو
دوسرے مسلمانوں سے الگ سمجتھے تھے۔ سرسید احمد خان سے لے کر محمد علی جناح
اور علامہ اقبال تک سارے رہنما بطور مسلمان پہچانے جاتے رہے۔ ان سے نہ کسی
نے مسلک کا پوچھا اور نہ ہی یہ پوچھا گیا کہ وہ پنجابی تھے، پٹھان تھے،
بلوچی تھے، سندھی تھے، بنگالی تھے یا کشمیری تھے۔
آزادی کے بعد تلخ یادوں کا دور شروع ہوتا ہے۔ نو آزاد مسلم قوم کی اتحاد
میں پہلی دراڑ مشرقی اور مغربی پاکستان کی صورت میں پڑگئی۔ مشرقی پاکستان
کے لوگ گلہ کرنے لگے کہ ہمیں تعصب کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ہمیں حقوق
نہیں مل رہے۔ جس کا خمیازہ ہمیں 1971ء میں بھگتنا پڑا،جب پاکستان کے دو
ٹکڑے ہوگئے۔ علاقائی اور لسانی تعصب کا افسانچہ افسانے میں اس وقت تبدیل
ہوا جب بھارت سے ہجرت کرنے والے مہاجرین خصوصی طور پر کراچی میں بسنے والے
مہاجرین وہی شکوہ دہرانے لگے جو مشرقی پاکستان کے لوگوں نے کیا تھا۔ یہاں
پر قابل غور بات یہ ہے کہ مہاجرین تو پورے ملک میں آباد ہوئے تھے لیکن صرف
کراچی کے مہاجر ابھی تک مہاجر کے نام سے کیوں پہچانے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ باقی مہاجرین خود کو پاکستان میں ضم کرنے لگے، لیکن سندھ کے مہاجر
خود کو علاقائی لوگوں میں ضم نہیں کرسکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعصب کا
افسانہ ناول میں تبدیل ہونے لگا۔ بلوچستان کے لوگوں نے بھی بغاوت کا علم
بلند کیا۔ ان کے شکوے اور تحفظات دور کرنے کے بجائے اکبر بگھٹی اور ان کے
ساتھیوں کے خلاف اپریشن کیا گیا، جس میں اکبر بگھٹی کو شہید کیا گیا۔ اس
سانحے سے بلوچ عوام میں ریاست کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی جو پریشان کن ہے۔ اس
کے بعد خیبر پختونخوا میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پیدا ہوگئی۔ لیکن حکومت
نے انہیں بھی دبانے کی کوشش کی۔
یادوں کی اس کہانی میں مذہبی تعصب کی باب مزید تکلیف دہ ہے۔ مذہبی تعصب کا
پہلا بڑا واقعہ 1962 میں خیر پور سندھ میں پیش آیا۔ اس کے بعد مذہبی انتہا
پسندی میں اضافہ ہوتا گیا۔ 80 کی دہائی میں مذہبی انتہا پسندی میں شدت
آگئی۔ 1987ء سے 2008ء تک 3564 افراد مذہبی دہشت گردی کے بھینٹ چھڑ گئے۔ اور
یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ یادوں سے نکل کر اب دیکھتے ہیں ہم کس موڑ پہ کھڑے
ہیں۔ ماصی کے ان اوراق سے بس ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ ہم قوم بن کر ابھرے
تھے اور پھر اقوام میں بکھر گئے۔ مسلمان سے شیعہ،سنی،دیو بندی اور بریلوی
بن گئے جبکہ پاکستانی سے بلوچی، سندھی،پختون اور پنچابی بن گئے۔
ہم شروع سے مسائل نظرانداز کرتے آرہے ہیں جبکہ مسائل حل کرنے سے ہی ختم
ہوتے ہیں اگر مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ہم نظرانداز نہ کرتے تو شاید آج
حالات مختلف ہوتے، اگر مہاجرین کے مسائل وقت پر حل کئے جاتے یا کم از کم
زبانی جمع خرچ سے انہیں یہ احساس دلاتے کہ تم اب مہاجر نہیں بلکہ پاکستانی
ہو اور ملکر مسائل ختم کریں گے تو شاید وہ ہم سے نہ روٹھتے۔ اگر بلوچ اور
پختونوں کی آواز سننے کے لئے حکمران وقت نکال دیتے اور ان پر دہشت گردی کے
الزامات نہ لگاتے تو شاید آج ہمیں ایک خوشحال پاکستان دیکھنے کو ملتا۔ اگر
مذہبی فرقہ واریت کو قابل توجہ مسئلہ سمجھنے کی جرات کرتے تو شاید آج ہم
مسلمان بن کر اسلاموفوبیا کو شکست دینے کے اہل ہوتے۔ لیکن اب بات شاید سے
بہت آگے نکل چکی ہے لیکن کاش سے آگے نہیں۔ اگر بیڈ گورننس کو گڈ گورننس میں
تبدیل نہ کیا گیا تو بات کاش سے بھی آگے نکل جائے گی۔ آسان الفاظ میں ہم
مذید فرقوں میں بٹ جائیں گے۔ اور قوم سے بننے والی اقوام مزید اقوام بن کر
دنیا کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجور ہوجائیں گے۔
|