عجیب سی دعائیں مانگتی رہتی ہے وہ،وہ مانگتی کیاتھی بلکہ
اب بھی اس کی دعاؤں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔اب بھی ویسی ہی دعائیں اس کی
زبان پررہتی ہیں۔آپ بھی سن لیں!
“مالک!مجھے لنگڑی لولی بنائے رکھنا،میرے ہاتھ توڑے رکھنا،مجھے اپاہج ہی
رکھنا،مالک مجھے توجاننے کاشوق بھی نہیں ہے ،بس بےخبررکھنا، اچھا برا
کیاہوتاہے میں کیاجانوں،بس مجھے تنہاکبھی نہ چھوڑنا،تجھے تیری عظمت
کاواسطہ،تجھے میری بے بسی کی قسم،تجھے انسانیت کی حرمت کاواسطہ،کچھ بھی
تونہیں کرناچاہتی،میں چاہتی کیاہوں،کیوں بتاؤں،وہ تو بخوبی جانتاہے، توبس
اپنی امان میں رکھنااورنجانے کیاکچھ،آنسوؤں کی مالامیں وہ پکارتی رہتی
تھی،پھروہی بھول ہوگئی تھی،نہیں، پکارتی رہتی ہے،ایک اسرارہے اس میں،ایسی
ویسی نہیں،بہت ہی محبت کی مورت ہے وہ،محبت کی مٹی میں گندھی ہوئی،اعلیٰ
تعلیم یافتہ،بے شمارمیڈیکل کی ڈگریاں ہیں اس کے پاس،ایک پل میں بات کی تہہ
تک پہنچ جانے والی، ہمیشہ مسکرانے والی،جب اپنے کلینک میں ہواورچاروں طرف
مریض ہوں تب اس کارنگ انوکھاہوتاہے،بہت دیرتک سوچتی ہے اورپھرسب سے سستی
دواتجویزکرکے رب سے کہتی ہے ۔صحت توتیرے حکم میں ہے،منشاءمیں ہے،غریب
ہے،کہاں سے خریدے گا،توچاہے تومٹی کوشفابنادے،پانی کوحیات بنا دے ۔
میں اسے ایک عرصے سے جانتاہوں جب اس کے بالوں میں ابھی چاندی بھی نہیں
جھلکی تھی،اب تواسے اپنے مریضوں کے علاوہ کسی اورچیزکاہوش نہیں۔رئیس ماں
باپ کی اکلوتی لاڈلی اولاد،لندن کے ایک معروف پرائیویٹ ہسپتال میں ایک
اعلیٰ جاب پرمعمور،زندگی کی ہرنعمت سے مالامال، جس کی ہرکوئی خواہش
رکھتاہو۔کوئی بیس سال پہلے میری پہلی ملاقات جہازمیں ہوئی ،میں احرام
پہنےقرآن پڑھ رہاتھاکہ اس نے ایک دعاؤں کی ایک چھوٹی سی کتاب میری طرف
بڑھاتے ہوئے اپناتعارف کروایا۔مجھے ڈاکٹرعائشہ حبیب کہتے ہیں اورمیں آپ کے
دوست ڈاکٹرحبیب کی اہلیہ ہوں اور غالباً آپ بھی ہماری شادی کی دعوت میں
شریک تھے۔میں نے آپ کوپہچان لیا!مجھے ڈاکٹرحبیب کی برسوں کی رفاقت اوراس کی
ناگہانی جواں مرگ موت،ایک پل میں سب کچھ یادآگیا۔یادیں بھی کسی کونے کھدرے
میں چھپی بیٹھی ہوتی ہیں۔پتہ چلا کہ یہ بھی اپنے والدین کے ہمراہ عمرہ کی
سعادت حاصل کرنے جارہی ہے ۔
لند ن واپسی پراس سے اکثر کسی نہ کسی پروگرام میں ملاقاتوں کا سلسلہ
بڑھتاچلاگیا۔میں نے بہت سوچ سمجھ کر اس کانام “میڈم باجی”رکھاتھا۔وہ ہے ہی
ایسی،اگرمیدان میں اترآئے،بڑے بڑے سورمامیدان چھوڑدیں،لیکن”میڈم باجی”کبھی
اپنا تعارف نہیں کرواتی۔مجھ جیسے کئی اوروں کی اونگیاں بونگیاں جس کاکوئی
سرپیرنہیں ہوتااتنی توجہ سے سنتی ہے کہ اس کی برداشت پرحیرت ہوتی ہے،اپنی
قابلیت جھاڑنے کیلئے کوئی بھی اس کے پاس آجائے تووہ اتنی توجہ سے اس کی بات
سنتی ہے کہ مقرراپنی تقریرطویل کرتاچلاجاتاہےلیکن کسی دھوکے میں مت رہئے
گا۔توجہ سے ضرورسنتی ہے،ہربات سمجھتی ہے،لیکن جب پوچھو توکہہ دیتی ہے کہ
میں کیاجانوں ویراجی،وہ مجھے”ویرا”کہتی ہے۔بہت اسرارہے اس میں،پردہ ہی
پردہ، اخفا ہی اخفااورمیرامسئلہ یہ ہے کہ میں واقفِ اسرارپہلے بھی نہیں
تھا،بس ایک مان ہے تووہ سنتی ہے۔
ایک دن میں نے کہا”میڈم باجی”،”جی ویرا”کہہ کربیٹھ گئی۔تب میں نے اس سے
پوچھایہ بتاکہ یہ کیادعامانگتی رہتی ہے۔ مسکرائی پھرہنسی اورکہنے لگی،آپ
کوکیابتاؤں،کچھ آتانہیں توکیابتاؤں،کچھ جانتی ہی نہیں توکیسے آگاہ کروں
لیکن جب میری پانچ سات بے نقط سن لیں توپھربڑے سکون سے
بولی،اچھاتوویراجی!بات یہ ہے کہ مالک اندھابنائے رکھے ناں کہ میں وہ کچھ نہ
دیکھ سکوں جس سے اللہ جی نے منع کررکھاہے،بس وہی دیکھوں جو اللہ جی کو
پسندہو،مجھے لنگڑی لولی بننااس لئے پسندہے کہ اس طرف میرے قدم اٹھ ہی نہ
سکیں جہاں اللہ جی نے پسندنہیں کیا،میرے ہاتھ توڑے رکھےاورناکارہ رکھے کہ
میں وہ کام ہی نہ کرسکوں جومیرے اللہ جی کواچھے نہیں لگتے اوردیکھو
ویراجی!جتنابندہ جانے گااتناحساب بھی دیناہو گاتوبس انجان رہنے میں،لاعلم
رہنے میں عافیت ہے،بندہ بشرکیاجانے کہ اس کی کیااوقات کہ اچھائی اوربرائی
میں تمیز کر سکے بس رب وہ خودکردے۔وہ کچھ کرادے،جواللہ کی رضاکاسبب بن
جائے،دیکھومیرے ویراجی!رب جس کانگہبان ہوجائے ،سائبان بن جائے تواس سے بڑی
نعمت اورہے ہی کیا،ساری دنیاسنگ رہے اوراللہ جی سنگ نہ رہیں توکیسابڑانقصان
ہے،تو بس یہ ہے دعاکہ سب کچھ خودکرے مجھے تنہامت چھوڑنا،پکڑے رکھنا۔
میں اس کی باتیں بڑی توجہ سے سن رہاتھااوریہ جوتواس کی عظمت کے ساتھ اپنی
بے بسی کاواسطہ دیتی ہے یہ کیا ہے؟ ویرا جی،یہ تومان ہے ناں،اس کے شایانِ
شان اس کی عظمت ہے،اوردوسراواسطہ اس کاحبیب ﷺہے اس کامحبوب ﷺ ہے، اپنی نفی
اپنی بے بسی میں ہے۔جب ہم کچھ کرہی نہیں سکتے تونفی کی منزل
پرہوناچاہئے۔”لیکن نفی کی منزل توتوفیق پر ہے؟”میں نے پوچھا!جی ویراجی
بالکل ایساہی ہے توپھرتوشکراداکرنا چاہئے کہ وہ اپنی نعمتوں کااتمام
کرتاچلاجائے،آپ شکر کرتے چلے جائیں اورآپ کاانت اخیرعافیت سے ہوجائے،کیابات
ہے میڈم باجی،واہ،ہاں یہی ہے اصل جوہرزندگی،جوہربندگی ، ہمارے بابے بھی
تویہی کہتے ہیں،رضا،صبرورضا،تسلیم ورضا،اپنی تگڑم نہیں،بس تسلیم ہی
تسلیم،ہروقت رضاہی رضا، جناب حضرت علی المرتضیٰ نے پتہ ہے
کیاارشادفرمایاہےکہ میں ایسی دنیاکی طلب ہی کیوں کروں جس کے حلال میں حساب
اورجس کے حرام میں آگ ہے۔
ہمارے بابے کہتے ہیں اوربالکل سچ کہتے ہیں،جوخلقِ خداکومعاف کردے گااللہ جی
اس کومعاف کردیں گے۔جومظلوموں کو ،بے آسرا لوگوں کوگلے سے لگائے گا،اللہ جی
اس کوسینے سے لگائیں گے،جوبندوں کی ضرورتوں کوپوراکرے گا،اللہ جی اس
کانگہبان بن جائے گا،توبس رب سے ناطہ جوڑنا ہے توبندگانِ خداسے رشتہ
جوڑو،اللہ جی کومناناہے تواللہ جی کے بندوں کو راضی رکھو،اگرسکون چاہتے
ہوتوبندوں کے چہروں پرمسکراہٹ لاؤ،اپنے لئے توتھکتے رہتے ہو،ہلکان رہتے
ہو،کبھی اوروں کیلئے بھی تھکو،ہلکان رہو،اشک بہاؤ،دیکھوکیسی رحمتِ باری
تعالی جوش میں آتی ہے،رم جھم،رم جھم ،وہ تومردہ زمین کوزندہ
کردیتاہے،بادلوں سے آنسوؤں سے،دلوں کو،ویران دلوں کوزندہ رکھتاہے تونیناں
رم جھم برساؤ۔جی جناب،بہت سعادت ہے یہ،نیناں برسیں رم جھم،رم جھم،یہ تواللہ
جی کی دین ہے یارو،جسے چاہے سعادت بنادے اورجسے چاہے سعدیہ۔
میرے مالک نے کیسااحسان کیاہوااس پر،رشک آتاہے مجھے،اک میں ہوں بے
صبرابھی،ناشکرابھی،ٹنڈ منڈ درخت کی طرح ،بس رب اپنا کرم کردے فضل کردے،اسے
میں نے ہمیشہ دوسروں کیلئے ہلکان دیکھاہے،کیسی عظیم سعادت ہے یہ!
آتشِ جاں کوجودامن کی ہوادے،وہ حبیب
دردِدل کوجوبڑھادے،وہی ہے میراطبیب
جام سے اپنے دے اک جرعہ مے ہوش اڑا
کسی باہوش کو لذت نہیں اس مے کی نصیب
|