میرے کلاس فیلو ( محمد اسلم آرائیں ) سے بھی ملیئے

جس طرح انسان اپنے والدین اور اساتذہ کرام کو نہیں بھولتا اسی طرح کلاس روم میں اکٹھے بیٹھ کر پڑھنے والے بھی فراموش نہیں ہوتے ۔آج جبکہ میں خود بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ چکا ہوں اور دن بدن صحت کے حوالے سے جسمانی مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں لیکن جب بھی گلبرگ ہائی سکول کا نام کہیں دکھائی یا سنائی دیتا ہے تو مجھے اپنے وہ کلاس فیلو ضرور یاد آتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح میری ذات سے وابستہ رہے ہیں ۔اس لمحے میں صرف اس کلاس فیلو کا تعارف اپنے قارئین سے کروانے جارہا ہوں جو آٹھویں جماعت میں نہ صرف میرا کلاس فیلو تھا بلکہ کلاس کی مانیٹر ی بھی اسی کے سر کاتاج تھی اس کا نام " محمد اسلم آرائیں" ہے ۔ چوق و چوبند ‘ خوبصورت شکل وجاہت ‘ مضبوط جسمانی ساخت کا حامل یہ دوست کچھ منفرد اہمیت کا حامل اس لیے تھا کہ وہ مانیٹر تھا ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ پانچواں پیریڈ راجہ اختر صاحب ڈرائنگ ماسٹر کا ہوا کرتا تھا۔

راجہ اختر صاحب اپنے منفرد مزاج کے اعتبار سے دوسرے اساتذہ سے الگ تھلگ تھے ‘ ڈرائنگ میں انہیں اس قدر مہارت حاصل تھی کہ وہ جو چاہتے ‘ چند لمحوں میں بلیک بورڈ پر بنا کر دکھادیتے پھر ہمیں کہتے کہ اب تم ایسی ہی تصویر بناؤ۔جو طالب علم صحیح تصویر نہ بناتا تو اسے سزا ملتی ۔ پانچواں پیریڈ شروع ہوتے ہی وہ کلاس مانیٹر کو یہ کہہ کر باہر نکل جاتے کہ جو لڑکے شرارت کریں یا شور مچائیں ان کا نام لکھ کر رکھنا ۔ محمد اسلم آرائیں چونکہ اگلے بینچوں پر بیٹھتے تھے اور ان کا رعب دبدبہ بھی کلاس کے تمام لڑکوں پر خوب تھا اس لیے کلاس کے کچھ لڑکے ان کے حلقہ احباب میں شامل ہوکر ٹیچر کی مار پیٹ سے بچ گئے ‘ ہمارا بینچ چونکہ سب سے پیچھے تھا اس لیے مجھ سمیت تین چار لڑکے مانیٹر کی گڈبکس میں شامل نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب راجہ اختر صاحب کلاس میں واپس آتے تو اسلم آرائیں اپنی کاپی کے ایک صفحے پر لکھے ہوئے شرارتی لڑکوں کے نام بولتے تو سب سے پہلے میرا نام ان کی زبان پر ہوتا میں چونکہ ان کی چاپلوسی نہیں کرتا تھااور نہ ہی ان کی گڈ بکس میں شامل تھا اس لیے میں انہیں ایک آنکھ بھی نہیں بھاتا تھا ۔ صرف مجھے ہی ٹیچر سے ڈنڈے نہیں پڑتے تھے بلکہ میرے حلقہ احباب میں شامل باقی لڑکوں کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا۔

یہ سلسلہ دراز سے دراز ہوتاجارہاتھا ۔ ایک دن ہم نے مشورہ کیا کہ اگر اسی طرح معمولات چلتے رہے تو روزانہ آٹھ دس ڈنڈے کھانے پڑیں گے ‘ذہنوں میں پکنے والا لاوا ہمیں بغاوت پر اکسا رہا تھا ۔ ہم چاروں لڑکوں نے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر عہد کیا کہ آج ہم بغاوت کردیں گے ۔ حالانکہ اس فیصلے کے بھیانک اثرات سے ہم خوفزدہ بھی تھے ‘ ہمیں سکول سے نکالا بھی جا سکتا تھا۔

جیسے ہی راجہ اختر صاحب کلاس روم میں تشریف لائے ۔ حسب معمول انہوں نے شرارتی لڑکوں کے نام پوچھے ۔ اسلم آرائیں تو پہلے ہی اشارے کا منتظر تھا چنانچہ اس نے مجھ سمیت ہمارے گروپ کے تمام لڑکوں کے نام ایک بار پھر بول دیئے ۔ راجہ اختر صاحب ہاتھ میں ڈنڈا لیے میرے پاس آئے اورحکم دیا اپنا ہاتھ نکالو ۔ میں نے انکار کردیا ‘انہوں نے پھر یہی الفاظ دھرائے میں پھر خاموش رہا ۔ وہ حالات کو بھانپ گئے ‘ لڑکا مارکھانے کے موڈ میں نہیں ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ آج موڈ آف کیوں ہے ؟ میں نے کہا سر ۔ یہ اسلم آرائیں جسے آپ نے مانیٹر بنا رکھا ہے یہ ہمارا دشمن بن چکا ہے شور وہ خود کرتے ہیں اور نام ہمارا لکھ دیتے ہیں ‘ جیسے ہی یہ الفاظ میری زبان سے ادا ہوئے تو راجہ صاحب بات کو سمجھ گئے انہوں نے اسی وقت اعلان کردیا کہ کل سے میرے پیریڈ میں مانیٹر محمد اسلم لودھی ہوگا ۔مانیٹری کیا ملی ہم تو پھولے نہیں سمار ہے تھے ‘ میرے حلقہ احباب میں شامل لڑکے بہت خوش تھے ہم نے فیصلہ کیاکہ اسلم آرائیں اور اس کے تمام چمچے کڑچھوں کا نام کل شور مچانے والوں میں لکھنا ہے ۔یہ فیصلہ کرکے ہم خوشی خوشی اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے ۔

دوسرے دن پانچواں پیریڈشروع ہواتو میں بلیک بورڈ کے پاس کھڑ ا ہوگیا اور بلند آواز میں شور مچانے والوں کے نام اپنے سیکرٹری عتیق ( اﷲ جنت نصیب کرے وہ نویں جماعت میں ہی فوت ہوگیا تھا) لکھانے شروع کردیئے۔ ان میں اسلم آرائیں اور حسن عباس کے نام بھی شامل تھے ۔ راجہ اختر صاحب کلاس میں تشریف لائے تو میں نے شور مچانے والے لڑکوں کی لسٹ انہیں تھما دی۔ وہ اسلم آرائیں اور حسن عباس کانام دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا آج موٹے مرغے پھنسے ہیں ان کو ڈبل سزا دی جائے گی ۔جیسے جیسے ٹیچر انہیں ڈنڈے مارتے ۔ وہ ہمیں غصے سے گھور تے جارہے تھے ۔خطرناک حالات دیکھ کر ہم نے مشورہ کیا کہ اسلم آرائیں ‘ حسن عباس سمیت جن لڑکوں کو ٹیچر سے پھینٹی لگی ہے وہ بہت غصے میں نظر آرہے ہیں ‘ یقینا آدھی چھٹی کے دوران لڑائی ہوگی اس لیے جیسے ہی آدھی چھٹی کی
گھنٹی بجی ‘ تو ہم دوڑلگا کر ریلوے لائن کے اس پار عتیق کے گھر جا پہنچے ۔اسلم آرائیں ‘ حسن عباس اور ان کے ساتھی لڑکے ہاتھوں میں پتھر پکڑے ہمارا تعاقب کررہے تھے میں تھے ‘شکر ہے ان کا کوئی پتھر ہمیں نہیں لگا اور ہم محفوظ پناہ گاہ میں پہنچ گئے ۔ دوسرے دن میں نے راجہ اختر صاحب سے کہا سر .....ہم مانیٹری سے باز آئے آپ اسلم آرائیں کو ہی مانیٹر بنا دیں یہ لوگ طاقت اور تعداد میں زیادہ ہیں اس لیے ڈر ہے یہ ہمیں ماریں گے ۔کل بھی یہ آدھی چھٹی کے بعد مارنے کے لیے ہمارے پیچھے بھاگ رہے تھے ۔

حسن اتفاق دیکھیئے کہ جو کلاس مانیٹر روزانہ ہمیں ٹیچر سے پٹواتا تھا ‘پچاس سال کے بعد اچانک میری زندگی اس طرح لوٹ آیا کہ اس جیسا ہمدرد ‘ شفیق اور غمگسار کوئی شخص نہیں ہوسکتا ۔ اس نے بغیر کچھ خرچ کیے میری آنکھوں کا آپریشن کروایا ‘ بجلی کا بل بہت زیادہ آتا تھا ‘ اسی کی مہربانی سے ایک اور میٹر لگنے سے بل آدھا ہوگیا وہ میری قوت سماعت کی کمی کو دور کرنے کے لیے بھی خوب دوڑ دھوپ کررہاہے ۔ بدقسمتی سے اسے شوگر کی بیماری لاحق ہے لیکن وہ مجھے اپنے گھر میں پکا ہوا زردہ اور کھیر کھلانا نہیں بھولتا ۔ کہیں آنا جانا ہوتو اپنی گاڑی کو خود ڈرائیو کرکے مجھے لے جاتے ہیں او بہت آرام کے ساتھ واپس بھی لے کر آتے ہیں ۔ اتفاق دیکھیں ایک ہی محلے میں رہتے اور ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے ہمیں علم نہیں تھا کہ ہم کلاس فیلو بھی ہیں یہ انکشاف بھی اس وقت ہوا جب ہم رحمت اﷲ آئی ٹرسٹ ہسپتال سے گاڑی پرواپس آرہے تھے ۔میں نے انہیں کہا اگر کسی دن آپ کے پاس وقت ہو تو ہم گلبرگ ہائی سکول بھی جائیں گے ‘ میں وہاں پڑھتا رہا ہوں اس لیے میں سکول جاکر اپنی یادوں کو تازہ کرنا چاہتا ہوں ۔ میری اس بات پر اسلم آرائیں چونکے اور بولے ‘ میں بھی اسی سکول کاطالب علم ہوں پھر انہوں نے پوچھا آپ نے کونسے سال میں میٹرک کی ۔میں نے کہا 1970ء میں ۔ انہوں نے کہا میں بھی اسی سال فارغ التحصیل ہوا ہوں ۔باتوں ہی باتوں میں ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب آتے چلے گئے کہ ہم دونوں خوشگوار حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئے ۔ پھر اسلم آرائیں بولے میرا ایک دوست جس کانام اسلم تھا وہ بنک آف پنجاب میں جاب کرتا تھا وہ کتابیں بھی لکھتا تھا‘ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا وہ تو میں ہوں ۔ میں نے ہمارا بھی ایک دوست اسلم آرائیں تھا جو ہمیں روز پٹواتا تھا ۔ اسلم صاحب نے کہا وہ تو میں ہوں ۔میں ہی آٹھویں بی کا مانیٹر تھا ۔جب یہاں تک بات پہنچی تو گاڑی کو سڑک کی ایک جانب روکااور اتر کر ہم دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گئے اور خوب ہنسے ۔کہ قدرت نے ہمیں زندگی کے آخری عشرے میں کس طرح ہمیں ملا دیا ہے۔ اس پر ہم اﷲ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ گھر سے روانہ ہوئے تھے تو محلے دار تھے لیکن جب واپس آئے تو ہم دونوں نہ صرف کلاس فیلو اور پکے دوست بن چکے تھے ۔ ہم آپس میں محلے دار بھی ہیں جس کی وجہ سے ایک ہی مسجد میں پانچ دقت کی نماز بھی ادا کرتے ہیں۔

چلتے چلتے میں ان کی ذاتی زندگی پر بھی روشنی ڈالتا چلوں-

محمد اسلم آرائیں یکم مئی 1954ء میں GOR-1میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد( طفیل محمد )رہائش پذیر تھے ۔ ان کے دادا نظام دین جالندھر شہر کے رہنے والے تھے جہاں ان کا پیشہ زمینداری تھا ۔ 14اگست 1947ء کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ان کے والدین جالندھر سے ہجرت کرکے پہلے والٹن مہاجر کیمپ پہنچے پھر یہاں سے انہیں حکومت کی جانب کچھ اراضی دے کر سیالکوٹ شفٹ کردیا ۔ دو مہینے بعد ہی طفیل محمد سیالکوٹ کو خیر باد کہہ کرلاہور آگئے اور نہر کے قریب جہاں آج کل نیپا کا دفتر ہے وہاں اس وقت ایک ہوٹل ہوا کرتا تھا اس ہوٹل میں ملازمت کرلی ۔ ان کے ہاں ایک بیٹے ( محمد اشرف) کی ولادت جالندھر میں ہی ہوچکی تھی ۔جبکہ محمد اسلم آرائیں شاہراہ قائداعظم ملحقہ GOR-1میں پیدا ہوئے ۔ محمد اسلم آرائیں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول میاں میر میں حاصل کی ۔پانچویں جماعت پاس کرکے وہ گلبرگ ہائی سکول میں آ پہنچے ۔اپنی بہترین ذہانت اور مستعدی کی بنا پر وہ ہر کلاس کا امتحان بہترین نمبروں سے پاس کرتے چلے گئے ۔میٹرک سائنس میں پاس کرنے کے بعد آپ نے گورنمنٹ پولی ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ میں شعبہ ائیرکنڈیشنگ میں داخلہ لے لیا۔ ایک سال یہاں پڑھنے کے بعد پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کو خیر باد کہہ کر آپ گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائن میں جا پہنچے ۔1973میں آپ نے ایف ایس سی کا امتحان نمایاں پوزیشن لے کر پاس کرلیا ۔ حسن اتفاق سے آپ کے بڑے بھائی ( محمد اشرف ) انہی دنوں وبئی میں تھے وہاں انہوں نے اپنا ہوٹل بنا لیا۔ انہوں نے چھوٹے بھائی کو 1976ء میں اپنے پاس دوبئی بلا لیااور کسی کو کہہ کہلاکر سمندر سے تیل نکالنے والے رگز(کمپنی) کے شعبہ مینٹینس میں بھائی کو ملازمت دلا دی ۔وہیں پر آپ کرین آپریٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔ایک سال یہاں کام کرنے کے بعد آپ واپس دوبئی آگئے ۔دوبئی میں ایک پرفیوم کی دوکان پر بطور سیل مین کام شروع کردیا ۔چھ ماہ تک یہاں کام کرنے کے بعد 1978ء میں آپ پاکستان واپس آگئے ۔ پاکستان واپسی کے بعد لاہور میں آپ نے فردوس مارکیٹ میں سب سے پہلے برگر متعارف کروایا اس وقت برگر کی قیمت صرف 2روپے تھی ۔1984ء میں آپ کی شادی ہوگئی ۔1988میں برگر کے کاروبار کو خیر باد کہہ کر ایک فرنیچر کی کمپنی میں سیل مین کی حیثیت سے کام شروع کردیا ‘ محنت کی بنا پر جلدہی آپ کو سپروائزر بنا دیا گیا اس کمپنی کا نام ٹرینڈ سیٹر لمیٹڈ تھا۔ نیس پاک (NesPak) آفسکا فرنیچر تیار کرنے کا ٹھیکہ جب ٹرینڈ سیٹر کمپنی کوملا تو کمپنی کی جانب سے آپ کویہ ذمہ داری سونپی گئی ۔ آپ کی ہی زیر نگرانی تمام فرنیچر تین سال میں تیار کیا گیا ۔اس کے بعد ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے گرلز کالج کا فرنیچر بھی آپ ہی کی زیر نگرانی تیار ہوا ۔کویت ائیر لائن کے دو دفاتر جو لاہور اورکراچی میں تھے ‘ وہاں بھی فرنیچر سازی کا کام آپ نے اپنی نگرانی میں کروایا۔ بعد ازاں پاکستان ٹور ازم ڈویلپمنٹ کارپویشن کے لاہور ‘ راولپنڈی ‘ مری اور پشاور کے ہوٹلوں میں فرنیچر سازی کا کام آپ کی زیر نگرانی میں ہوا ۔ جبکہ فلیٹز ہوٹل کے کمرہ نمبر 18 کی رنیویشن بھی کرنے کااعزاز حاصل ہوا جو اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کاحامل ہے کہ اس کمر ے میں علم دین شہید کے مقدمے کی تیاری کے لیے حضرت قائد اعظم لاہور میں اپنے قیام کے دوران ٹھہرے تھے ۔2005ء میں فرنیچر کمپنی کو خیر باد کہہ کر انٹریٹر ڈیکوریشن کاکام شروع کردیا۔اس دوران تقریبا تمام بنکوں کی منتخب برانچوں کو خدمات فراہم کیں جو ایک اعزاز بنتا ہے ۔اﷲ تعالی نے آپ کو دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی نعمت سے نوازا۔ جو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آجکل دوبئی اور امریکہ میں سیلٹڈ ہیں ۔بیٹوں کے باہر جانے کی بناپر اسلم آرائیں نے ہر قسم کی کاروباری سرگرمی ختم کرکے خاندان کی سرپرستی اور کفالت کا ذمہ سنبھال لیا ۔ماشا ء اﷲ 66 سال کی عمر میں وہ اب بھی صحت مند‘ خوش باش اور چوق و چوبند دکھائی دیتے ہیں ۔اﷲ تعالی نے ان پر اتنا کرم کیا ہے کہ وہ ہر لمحے سجدہ شکر ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔ اﷲ ان کو عمرخضر اور صحت کاملہ عطا فرمائے ۔ زندگی کے آخری لمحات میں اسلم آرائیں جیسے بااعتماد اور وفا دار دوست کا ملنا یقینا میرے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے ۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 667594 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.