پاکستان کے پرامن ترین شہر چترال میں واقع
کالاش وادی کے مکین ۔جو اس وقت دنیا کے انوکھے قبائل میں شمار ہوتے ہیں
جنکی اپنی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن یہ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ اکیس سو سال
پرانے کیلاشی لوگ جو کبھی اس علاقے کے حکمران تھے ۔ اور انکا سکہ موجودہ
پاک افغان علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں پر چلتا تھا ۔ آج نہ صرف انکی زبان
ثقافت بلکہ خود انہیں اپنے وجود کی معدوم ہونے کا خطرہ ہے ۔
سطح سمندر سے کم و بیش پینتیس سو فٹ بلندی پر رہائش پذیر کیلاشی قوم
پاکستان کے چترال اور افغانستان کے نورستان کے علاقوں میں رہائش پذیر تھے ۔
ان لوگوں کو افغانستان میں سرخ کافر جبکہ پاکستان میں کالا کافر کہا جاتا
رہا جس کی وجہ ان لوگوں کا مختلف علاقوں میں استعمال ہونے والے کپڑوں کا
استعمال تھا افغانستان میں سرخ رنگ کے کپڑوں کے استعمال پر انہیں سرخ کافر
جبکہ پاکستان میں کالے رنگ کے کپڑے استعمال کرنے پر انہیں کالا کافر کہا
جاتا رہا ہے ۔
وقت کیساتھ افغانستان میں رہائش پذیر افراد نے اسلام قبول کیا اور وہ شیخ
کہلائے جانے لگے۔
کیلاشی خواتین پر زرد آسمانی اور سرخ رنگ انکے کالے کپڑوں پر مخصوص ڈیزائن
کے پھولوں کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ کم عمر بچیوں کے کپڑوں پر سبز رنگ کے
ڈیزائن کے پھول جبکہ بڑی بزرگ خواتین کے کپڑوں پر سفید رنگ کے پھول نمایاں
نظر آتے ہیں ۔
سخت سرد موسم میں زندگی گزارنے والے ان افراد کی نہ صرف عمریں طویل ہوتی ہے
بلکہ موسم کا اثر کیلاشی خواتین کے جسموں پر بھی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس
علاقے کی خواتین خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہوتی ہے ۔
کیلاش کے لوگوں کے بارے میں جاننے کا شوق سبھی کو ہے اور یہی وجہ بھی ہے کہ
قدرتی ماحول میں پلنے والے ان لوگوں کے بارے میں نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی
افراد تجسس کا شکار رہتے ہیں اور یہاں انیوالے تین مختلف وادیوں میں رہائش
پذیر کیلاشی لوگوں کے علاقوں آیون ۔ رنبور اور بمبوریت کا چکر ضرور لگاتے
ہیں یہ الگ بات کہ تینوں علاقے مختلف ڈائریکشن میں ہے اور پہاڑوں پر خراب
روڈز کے باعث سفر کافی حد تک سیاحوں کو تھکا دیتا ہے جبکہ یہاں پر 1978
ماڈل کی پرانی جیپیں ہی چلتی ہے ۔
اس وقت کم و بیش چار ہزار کے قریب افراد کیلاشی ان تین وادیوں میں زندگی
گزار رہے ہیں ۔کیلاشی مرد بکریاں چرانے زمینداری اور کیلاش میں بننے والے
ہوٹلوں میں مختلف نوعیت کے کاموں میں مصروف عمل نظر آتے ہیں جبکہ انکی
خواتین گھروں میں کام کرتی نظر اتی ہے اور مخصوص مالاوں کی بنی اشیاء گھروں
میں تیار کرتی ہے جو نہ صرف خود استعمال کرتی ہے بلکہ اپنے چھوٹے چھوٹے
دکانوں میں فروخت کرتی ہے جسے بیشر سیاح ہی خریدتے ہیں ۔ سب سے مزے کی بات
کہ ان دکانوں کی مالک کیلاشی خواتین ہی ہوتی ہے ۔
سال میں چار مختلف تہواروں میں مل بیٹھ کر ناچ گانے کے ذریعے خوشی کا اظہار
کرنے والوں کے رسم و رواج ہی الگ قسم کے ہیں انکے ہاں میت پر بھی خوشی کا
اظہار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ روح انکے جسم میں قید ہوتی ہے۔
انکی خوشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میتوں پر کیلاشی سب سے
زیادہ اخراجات کرتے ہیں جو شخص عہدے میں زیادہ بڑا ہوگا اتنا ہی اس کے میت
پر خرچہ زیادہ ہوگا اور ناچ گانا بھی زیادہ ہوگا ۔
کبھی کبھار اگر کسی کیلاشی کے ہاں سال میں دو تین اموات ہو جائے تو وہ
اخراجات کی وجہ سے بعض اوقات دیوالیہ ہو جاتے ہیں ۔
کیلاش کے لوگ کھانے پینے میں خشک میوہ جات کا استعمال زیادہ کرتے ہیں مختلف
تہواروں پر اخروٹ اور لوبیا ایک دوسرے کو بھجوانے کی رسم ہے جس طرح ہمارے
ہاں ایک دوسرے کو مٹھائیاں بھیجنے کا رواج ہے انکے ہاں اخروٹ اور سرخ لوبیا
بھیجنے کا دستور ہے جو اس بات کا بھی ثبوت بھی ہے کہ ان میں ایک دوسرے کا
خیال رکھنے کا رجحان ہے اور تہواروں پر ایک دوسرے کو یاد رکھنے کا فن بھی
جانتے ہیں ۔
کیلاش کے رہنے والوں میں ایک چیز اور بھی مشترک ہے کہ جھگڑے کا کوئی تصور
نہیں ۔ شائد یہ یہاں کے موسم کا اثر ہے یا پھر انکے جینز میں امن ہی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ آج تک ان علاقوں میں کہیں پر بھی امن و امان کو کوئی مسئلہ
پیدا نہیں ہوا ۔
مقامی طور پر کیلاش کے لوگ اپنے لئے خود ہی شراب تیار کرتے ہیں چونکہ انکے
مزہب میں شراب پینے پر کوئی پابندی نہیں اس لئے یہ اپنی ضرورت کے مطابق
شراب تیار کرتے ہیں اور دیسی طریقے کی تیار کردہ شراب مخصوص دنوں میں ہی
استعمال کرتے ہیں البتہ کیلاش کا چکر لگانے والے ملکی اور غیر ملکی سیاح
اسکے شوقین زیادہ ہوتے ہیں ۔۔
نیلی آنکھوں والی ان خوبصورت کیلاشی لڑکیوں کی شادیاں مقامی افراد سے انکے
پسند کے مطابق ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں ارینج میرج کا کوئی تصور
نہیں ۔ کبھی کبھار یہاں پر انیوالے سیاحوں کی آنکھیں کیلاشی لڑکیوں سے لڑ
جاتی ہے اور پھر انکی شادی ہو جاتی ہے تاہم بعض لوگ اسے زبردستی مسلمان
بنانے کا واقعہ قرار دیتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔۔ عام زندگی
میں شرم سے انکھیں زمین میں رکھنے والی کیلاش کی لڑکیاں آج کے دور میں
تعلیم سمیت ہر شعبے میں آگے آنے کیلئے کوشاں ہے ۔
خوبصورت جھرنوں کی اس سرزمین پر خواتین اور مردوں کی اپنی زمہ داریاں ہے جس
کی پاسداری دونوں جنس کو لوگ کرتے ہیں مخصوص ایام میں خواتین کو گاؤں کے
اندر ہی بنے مشترکہ گھر بھیجا جاتا ہے اور مخصوص دن گزرنے کے بعد آپنے
گھروں کو جاتی ہے کیلاشی افراد ان دنوں میں خواتین کو ناپاک سمجھتے ہیں اس
لئے انہیں الگ رکھا جاتا ہے اور کسی دوسرے کو اس جگہ پر جانے کا کوئی تصور
نہیں نہ ہی مخصوص دنوں میں خواتین سے ہاتھ تک ملایا جاتا ہے ۔ یہ بھی انکی
ایک رسم ہے جو نسل درنسل چلتی آرہی ہے اور آج بھی تعلیم یافتہ لڑکیاں اس
بات کے حق میں ہے کہ انہیں گھر کے کام کاج سے نجات ایک ہفتے کیلئے مل گئی
ہیں ۔
لکشن بی بی کیلاشی خواتین کی پہلی لڑکی تھی جس نے کمرشل پائلٹ کا اعزاز
حاصل کیا بعد میں کچھ عرصہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز سے وابستہ رہی ۔
پھر کویت کے ایک شہری کیساتھ شادی کی اور امریکہ منتقل ہو گئی ۔ جس کے بعد
اس کا اپنے قبیلے سے کوئی تعلق نہیں اور تقریباً دو دہائیوں سے لکشن بی بی
نے اس علاقے کا رخ بھی نہیں کیا ۔ لیکن آج بھی کیلاش کے لوگ لکشن بی بی کو
عزت سے یاد رکھتے ہیں ۔
کیلاش کے لوگوں کی اپنی زبان مذہب ثقافت شادی اور غم کی تقریبات ہوتی ہے ۔
زبان نسل درنسل ایک دوسرے کو منتقل کرنے والوں کی اپنی کوئی کتاب نہیں ۔ نہ
ہی ان کا نمایاں کوئی شاعر ہے البتہ انکے لوک گیت ہے جسے خوشی اور غم میں
ضرور گاتے ہیں ۔
مالوش پہاڑ کی بلندی پر واقع وہ مذہبی مقام ہے جہاں پر کیلاشی خواتین کو
جانیکی اجازت نہیں اس جگہ پر جاکر مذہبی رہنما اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنے
کیلئے قربانی کرتے ہیں انکی قربانی بھی بکروں کی ہوتی ہے اور انکے دیوتاؤں
کی شکل بھی بکروں جیسی ہوتی ہے جو ان لوگوں نے لکڑی سے بنائی ہوتی ہے ۔ اور
قربانی کا عمل انہیں خوش کرنا ہوتا ہے اور ان دیوتاؤں سے منتیں بھی مانگتے
ہیں ۔۔
قربانی کے بعد ناچ گانے کا پروگرام ہوتا ہے اور یہ پروگرام مالوش سے کافی
نیچے بڑے ہال میں ہوتا ہے جس میں خواتین بھی حصہ لیتی ہے لیکن اوپر مالوش
کے مقام پر جانیکی اجازت ان کو نہیں ہوتی ۔
رنبور میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے جب ایک مقامی ٹورسٹ گائیڈ ایک اٹالین
خاتون کو اس علاقے کی سیر کیلئے لائے تھے ۔ خاتون نے مالوش دیکھنے کی خواہش
کا اظہار کیا ۔ گائیڈ نے اسے منع کیا لیکن انگریز خاتون نہ مانی اور مالوش
دیکھنے چلی گئی جس کی اطلاع مقامی لوگوں کو ہو گئی جس پر جمع ہو گئے اور
احتجاج کیا کہ خاتون نے انکے مزہبی جگہ کو ناپاک کیا ہے اس لئے اسے صاف
کرنے کیلئے اکیس بکروں کی قربانی دینی پڑیگی اور پھر مجبورا حالات کے پیش
نظر خاتون نے اکیس بکروں کی قربانی کی رقم ادا کی اور یوں انکی جان چھوٹی
۔۔
یہ ایسا واقعہ ہے کہ اس کے بعد کسی غیر ملکی خاتون کو بھی مالوش جانیکی ہمت
نہیں ہوئی ۔۔
اپنے ثقافت سےجڑے اور علیحدہ پہچان رکھنے والے کیلاش کی موجودہ ابادی میں
ستر فیصد نوجوان شامل ہے جو نہ صرف تعلیمی کے میدان میں نمایاں ہے بلکہ
ہرانی نسل کے مقابلے میں وہ چترالی پشتو اردو اور انگریزی زبان سمجھتے ہیں
لیکن پھر بھی انہیں بیروزگاری کا سامنا ہے نہ ہی کسی بھی حکومت نے انکے
روزگار کا کوئی منصوبہ شروع کیا یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کے نوجوان دوسرے
علاقوں میں روزگار کیلئے نکل جاتے ہیں جو انکی تہذیب و تمدن کیلئے بہت بڑا
خطرہ ہے کیونکہ شہروں کی طرف مائیگریشن اور آرام دہ زندگی انہیں ہر چیز
بھلانے پر مجبور کرتی ہے اسی طرح لڑکیوں کی دوسرے علاقوں میں شادیاں بھی
اسکی ایک وجہ ہے ۔
پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کیلاش کے رہنے
والے ایک نوجوان کو اقلیتی ممبر اسمبلی کے طور پر صوبائی اسمبلی پہنچا دیا
ہے جس سے امید ہے کہ نہ صرف اس علاقے میں ترقیاتی عمل بہتر ہوگا بلکہ اپنے
مسائل سمجھنے والے علاقے کے ممبر اسمبلی ہی کیلاشی نوجوانوں کیلئے روزگار
کے مواقع پیدا کرینگے اور انہیں معدومیت کے خطرے سے بچانے میں اپنا کردار
بھی ادا کریں گے ۔۔
|