بر صغیر کی تقسیم کو ہندوؤں نے بظاہر تو تسلیم
کر لیا تھا لیکن پاکستان کے قیام کو انہوں نے کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا
اور روز اول سے ہی اس کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بُننے شروع کر دیے
تھے۔کشمیر کے اُوپر اس کا حملہ اورسازش کے ذریعے اس کا اپنے ساتھ الحا ق،
پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنا اور قدم قدم پر اس کے لیے مختلف مشکلات
پیدا کرنا اس کا سب سے پہلا اور بڑا مشن تھا۔ایک نوزائیدہ مملکت کے معرض
وجود میں آنے کے پہلے ہی سال یعنی 1948 میں اس پر کشمیر کی جنگ مسلط کی
گئی۔1965 میں ایک بار پھر بھارت نے اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کیا اور رات کے
اندھیرے میں پاکستان کے دل لاہور پر حملہ کیا اور یہ عزم کر کے نکلا کہ
دوپہر کا کھانا لاہور کے جم خانہ میں کھائے گا لیکن یہ اور بات ہے کہ اُسے
تاریخی شکست کھانا پڑی اور پھر اُس نے اپنی سازشوں کا رُخ پاکستان کے مشرقی
حصے کی طرف موڑ دیا اوریہاں اپنی کاروائیاں تیز تر کر دیں۔ مشرقی پاکستان
مغربی پاکستان سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع تھا اور اس کی سرحدیں تین
طرف سے بھارت سے جُڑی ہو ئی تھیں بلکہ یوں کہیے کہ تین اطرف سے بھارت سے
گھرا ہوا تھا اور یوں بھارت کے لیے کسی بھی طرف سے اس میں اپنے جاسوسوں اور
کارندوں کا داخل کرا دینا بہت آسان تھا،دوسری طرف مشرقی پا کستان میں
ہندوآبادی کا تنا سب بھی کافی زیادہ تھا اور 1951 کی مردم شماری کے مطابق
تقریباٌ بائیس فیصد ہندو اس صوبے میں آباد تھے یوں بھارت کا کام آسان بنانے
کے لیے پاکستان کے اس حصے میں کئی سہولت کار موجود تھے بہر حال مشرقی
پاکستان میں نفرت کا بیج بونے کی کوششیں ابتداء سے ہی شروع تھیں تاہم
پاکستان اور پاکستانی بڑی کا میابی سے ان سازشوں کے خلاف اپنا دفاع کرتے
رہے لیکن1968میں بھارت کی خفیہ ایجنسی”را“کے قیام کے بعد ان سازشوں کو منظم
کیا جانے لگا۔شیخ مجیب الرحمان کی صورت میں بھارت کو کام کا ایک مہرہ ہاتھ
آگیا تھا جس نے اپنے اقتدار کی خاطر اُسی نظریے کو خاک میں ملانے کی سازش
کی جس کے لیے برصغیر پاک و ہند کے ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں دیں،اپنی
اولادوں اور ماں باپ کو قربان کیا۔ یہی مجیب الرحمان 1968میں اگرتلہ میں
بھارت کی حکومت کے کارندوں سے ملا اور ان سے مدد چاہی اور اس طرح بھارت کو
ایک کام کا آدمی مل گیا اور مشرقی پاکستان میں اُس کی سازشیں کامیاب ہونے
لگیں۔اُس نے بنگالی علحدگی پسندوں کو باقاعدہ جنگی تربیت دی اور مکتی باہنی
کے غنڈوں کو تربیت کے ساتھ ساتھ مسلح بھی کیا اور ایک دوسرے ملک میں مداخلت
کا ایک شرمناک کھیل کھیلا۔ اُس کے انہی تربیت یافتہ دہشت گردوں نے مشرقی
پاکستان میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے خون کی ایک ایسی
ہولی کھیلی جس کی مثال نہیں ملتی اور خود اپنے ہی ملک اور اپنے ہی لوگوں کے
خلاف ایک گھناؤ نی سازش کے ذریعے اپنے ہی ملک کے دوٹکڑے کر ڈالے۔ بھارت نے
تین دسمبر کو مشرقی پاکستان پر کھلم کھلا حملہ کیا اور تیرہ دن کے بعد اپنے
حکمرانوں کی نالائقی اور غیروں کی سازشوں کے نتیجے میں 16دسمبر1971 کو
ڈھاکہ ڈوب گیا، دشمن کی سازش کامیاب ہو گئی اور شکست کی دستاویز پر دستخط
ہوئے اور یوں یہ دن ہماری تاریخ کے صفحات پر ایک سیاہ دھبے کی صورت ثبت
ہوگیا۔لیکن دشمن کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں یہاں بھی نہیں رکیں اور اس کے
بعد بھی اُس نے ہر ہر محاذ پر پاکستان کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھی۔کشمیر تو
ہمیشہ سے ایک سلگتا انگارہ تھا ہی اُس نے اپنا رُخ مشرقی سرحد سے آگے بڑھ
کر ایک دوسری طرف سے وار کرنے کے لیے شمال مغرب کی طرف موڑ دیا اور
افغانستان کے راستے پاکستان کے شمال مغربی سرحدی یعنی قبائلی علاقوں کی طرف
سے مداخلت شروع کردی یہاں اُس نے افغانستان میں اپنے لوگوں کو تعمیر نو کے
کاموں کے بہانے اندر کیا اور پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ اپنے ایک درجن سے
زائد قونصل خانے بنائے اور پاکستان اور افغانستان کی دشوار اور کٹی پھٹی
سرحد کا بھی فائدہ اُٹھایا اور افغان مہاجرین کی صورت میں لاکھوں افغانیوں
کی پاکستان میں موجودگی کا بھی وہ دہشت گردی کو پاکستان میں داخل بھی کرتا
گیا اور بڑھاتا بھی گیا۔افغانستان کی جنگوں کا سب سے بڑا نقصان ہمیشہ
پاکستان نے اُٹھایا ہے لیکن اس بار تو ہم برا ہ راست متاثر ہوتے گئے اور اس
بار وہی افغانستان جس کے لاکھوں باشندوں کو روسی اور امریکی بمباری سے
بچانے کے لیے پاکستان نے اپنی زمین اور پاکستانیوں نے اپنی چھتیں پیش کیں
وہ اسی کے خلاف دشمن کے آلہ کار بنتے گئے۔پاکستان ڈیڑھ دو دہائیوں تک اس
پرائی جنگ کا مقابلہ کرتا رہا اور اُس نے ہزاروں قیمتی جانوں کی بھی قربانی
دی اور وسائل کی تباہی بھی ہوتی رہی لیکن ایک بار پھر سولہ دسمبر کی تاریخ
کا انتخاب کیا گیا اور ایک ایسی شرمناک دہشت گرد کاروائی کی گئی کہ جس کی
تاریخ میں کم ہی کوئی مثال ملے گی اور وہ تھی ایک سکول کے بچوں پر حملہ اور
اُن کا بے دریغ قتل۔ سولہ دسمبر 2014 کو دشمن نے ایک بار پھر کاری وار کیا
اور پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے اپنی حیوانیت پر مہر تصدیق ثبت
کر دی،قوم ایک بار پھر سولہ دسمبر کو روئی۔ ایک ہی سکول سے 147لاشیں اُٹھیں
جن میں 122کی عمریں تیرہ اور اٹھارہ سال کے درمیان تھیں ان معصوم شہادتوں
نے نہ صرف قوم کو بلکہ پوری دنیا اورہر دل رکھنے والے انسان کو ہلا کر رکھ
دیا لیکن یہی سانحہ تھا جس نے پاکستانی قوم کو متحد کر کے ایک صفحے پر
لاکھڑا کیا اور اُنہیں دشمن کے خلاف وہ قوت عطا کی جس نے دہشت گردوں پر
کاری ضرب لگانے کی ہمت دی،نیشنل ایکشن پلان بنا اور شدت پسندوں کے لیے کسی
بھی قسم کی نرمی کی ممکنات کو ختم کر دیا۔ قوم آج ان دونوں سانحوں یعنی
سقوط ڈھاکہ اور اے پی ایس حملے کو یاد کر رہی ہے لیکن اس دن یہ عزم بھی
ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اتنا مضبوط اور متحد بنائیں کہ دشمن کو تیسرے
وار کا موقع نہ ملے۔حادثوں اور سانحوں کو یاد رکھنے اور یاد کرنے کا مقصد
صرف اُن کی یاد تازہ کرنا نہیں ہونا چاہیے ملکہ اس کا مقصد دشمن کے خلاف
مضبوطی اور تیاری ہونا چاہیے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی تیاری تاکہ پھر
کوئی دشمن نہ تو ملک کی زمین پر اور نہ اس کے باشندوں اور خاص کر بچوں پر
کوئی غلط نگاہ ڈال سکے۔ آج کے سولہ دسمبر کو اگر ہم یہ عزم اور ارادہ کریں
اور ایسی منصوبہ بندی کریں کہ آئندہ کوئی دشمن ہمارے خلاف نہ اُٹھ سکے، نہ
کامیابی حاصل کر سکے تو ہم اپنے ان شہدا ء کے سامنے سرخرو ہو سکیں گے۔ اللہ
تعالیٰ دشمن کی سازشوں سے ہماری حفاظت کرے اور آئندہ ایسے حا وثات وسانحات
سے ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین۔
|