علامہ اقبالؒ کی شخصیت اورانکی شاعری کا ابتداء سے 1938ء تک اجمالی جائزہ

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دید ہ ور پیدا
علامہ اقبالؒ بلا شبہ بیسویں صدی کے شعرا ء میں اپنے فکر وفن کے اعتبار سے سب سے ممتاز شاعر ہیں اورنہ صرف اپنے معاصرین بلکہ متاخرین میں بھی ممتاز اور عظیم تسلیم کیے جاتے ہیں؛ کیونکہ وہ محض ایک شاعر نہ تھے بلکہ ایک فلسفی، مصلح، مفکر، عظیم اسلامی وسیع النظرمدبر اور نظریہ پاکستان کے بانی تھے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ علامہ اقبالؒ نے اپنے آپ کو ایک شاعر کی حیثیت کبھی متعارف نہیں کرایا بلکہ انہوں نے ہمیشہ اس سے گریز کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے شاعر کہلانے کو ناپسند کیوں کیا؟ تو اس کی وجہ بادی النظر میں یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کے ہم عصر شعراء بنیادی طور پرپروفیشنل تھے اور شعر کہتے ہوئے ان کے ذہن میں قوم و ملت کے لیے کوئی مقصد نہیں تھا۔ ان کے لیے شاعری کرنامحض شغل، دل لگی یا ذریعہ معاش تھا۔اس کے برعکس علامہ اقبال ؒنے شاعری کو بہت سنجیدگی سے لیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ شاعری اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایک ایسا عمدہ تحفہ ہے جس سے قوموں کی زندگی میں انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔

کسی فرد کی شخصیت کا تعین اس کی موروثی صلاحیتوں، اس کے ماحول اور ان دونوں کے مابین تعلق سے ہوتا ہے چنانچہ کسی شخص کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے لیے اور معاشرے میں اس کے کردار کوسمجھنے کے لیے مذکورہ عوامل کی سمجھ بوجھ نہایت ضروری ہے۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جو لوگ معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں وہ معاشرے کے دیگر افراد کے مقابلے میں اہم مقام پر فائز ہوتے ہیں اور نسل انسانی کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کا امتیاز اس حقیقت میں پنہاں ہوتاہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہو کر اس کی طرف مائل نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے موروثی خصائص اور صلاحیتوں کو نیز اللہ کی ودیعت کرد خوبیوں کو بروئے کارلاکر معاشرے میں میں تبدیلی لانے کی سعی کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی اندھا دھند تقلید کرنے کے بجائے اس سے صرف اور صرف اچھے اثرات قبول کرتے ہیں۔

علامہ اقبالؒ کی شخصیت کوسمجھنے کے لیے بانگِ درا اوران کی دیگرتصانیف میں ان کے فکرو فلسفہ کو سمجھنا ہوگا۔ان کی علمی صلاحیت اور زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے عوامل نے جس طرح ان کے فطری حساس دل کو متاثر کیا، اس نے انہیں ایک کثیر جہتی شخصیت بنا دیا۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل ضرور تھے لیکن وہ محض معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے وقفے وقفے سے بیرسٹر کی حیثیت سے پریکٹس کرتے تھے۔ انہیں اس بات کا قطعی ادراک تھا ا کہ امتِ مسلمہ دوسری قوموں کے مقابلے میں ایک الگ اور مختلف ہے۔ لہذا اس کے مسائل اور ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کو حل کرنے کے طریقے بھی دوسری قوموں سے منفرد اور مختلف ہوں گے۔ وہ سمجھتے تھے کہ انہیں صرف اور صرف پوری امت کے تعاون اور کوششوں سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔چنانچہ اس بات کو ذہن نشین کرتے ہوئے انہوں نے اپنا پورا وقت ہندوستان اور بیرون ملک اسلام اور امت کی خدمت کے لئے وقف کر دیا۔ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ امت میں نظریاتی انقلاب اس وقت تک بپا نہیں ہوسکتا جب تک کہ مسلم نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار نہ کر لی جائے جسے اپنے اسلامی ورثہ پر فخر ہو اور وہ اس کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے ہمہ وقت تیار ہو نیز اس کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہ کرے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے فلسفہ خودی پیش کیا۔ان کے فلسفہ خودی کو سمجھنے کے لیے ان کی شاعری کے ادوار پر ایک نظر ڈالنا نہایت ضروری ہے۔علامہ اقبالؒ کی شاعری کے ادوار کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جو درج ذیل ہیں۔
پہلا دور (شروع سے 1905 تک)
دوسرا دور (1905 سے 1908 تک)
تیسرا دور (1908 سے 1924 تک)
چوتھا دور (1924 سے 1938 تک)

اب سطورِ ذیل میں ان ادوار کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جائے گا، جس سے علامہ اقبالؒ کے فکر وفن کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

پہلا دور (شروع سے 1905 تک)
علامہ اقبالؒ نے تقریبا ًسولہ سال کی عمر میں اپنی شاعری کا آغاز کیا اور اسے ساری زندگی جاری رکھا۔ جیسا کہ شیخ عبد القادر نے بانگِ درا (علامہ اقبال کی شاعری کی پہلی کتاب جو 1924 ء میں شائع ہوئی) کے دیباچہ میں لکھا ہے:
ابتدائی مشق کے دنوں کو چھوڑ کر اقبال کا اردوکلام بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ پہلے شروع ہوتا ہے۔
1901ء سے غالباً دو تین سال پہلے میں نے انہیں پہلی مرتبہ لاہور کے ایک مشاعرے میں دیکھا۔ اس بزم
میں ان کو ان کے چند ہم جماعت کھینچ کر لے آئے اور انہوں نے کہہ سن کر ایک غزل بھی پڑھوائی۔اس وقت تک لاہورمیں لوگ ان سے واقف نہ تھے۔ چھوٹی سی غزل تھی۔ سادہ سے الفاظ۔ زمین بھی مشکل نہ تھی۔مگر کلام میں شوخی اور بے ساختہ پن موجود تھا۔بہت پسند کی گئی۔

علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز غزلوں سے ہوا، ان میں سے کچھ کا تعلق اردو کی کلاسیک شاعری سے جڑتا ہے، جیسے بانگِ درا کی ایک غزل میں وہ کہتے ہیں:
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

علامہ اقبال ؒنے سیاست اور دیگر شعبوں کے بارے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے غزلوں اور نظموں کا استعمال شروع کیانیز انہوں نے اپنے سیاسی، فلسفیانہ، مذہبی اور صوفیانہ خیالات کو عام کرنے کے لیے شاعری کا موثر استعمال کیا کیونکہ یہ ان کے پاس ایک ایسا نادر تحفہ تھا جس سے وہ مطلوبہ اثرات پیدا کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ بانگِ درا حصہ اوّل کی تقریباً تمام نظمیں اس کی ترجمان ہیں۔ یہاں ان کی پہلی نظم”ہمالہ“سے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔
اے ہمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکنِ آبائے انساں جب بنا دامن ترا

کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پر غازہء رنگِ تکلف کا نہ تھا

ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو

علامہ اقبال کی ابتدائی نظمیں میرؔ، غالبؔ اور داغؔ کے انداز میں کہی گئیں، کلاسیکی غزلیں ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لئے کچھ نظمیں بھی لکھیں، جو بانگِ درا کے پہلے حصے کے آغاز میں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ بہت اعلیٰ درجے کی ہیں جو نوخیز اذہان کے سمجھنے کی دسترس سے کسی حد تک باہر ہیں؛ جیسے ''پرندے کی فریاد''۔ یہاں تک کہ اس ابتدائی مرحلے میں بہت سی نظمیں ایسی ہیں جن میں ان کے فلسفہ خودی کے کچھ عناصردیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً، انسان اور بزم قددرت۔

دوسرا دور (1905 سے 1908 تک)
یہ دور علامہ اقبالؒ کی شاعری کا سب سے مختصر دور ہے جس میں وہ اپنی تعلیم کے حصول میں زیادہ مصروف رہے۔ اسی وجہ سے، اس دور میں شاعرانہ کام بہت کم ہوا۔ ان کی شاعری کا دوسرا دور 1905 ء سے 1908 ء تک محیط ہے، جو انہوں نے یورپ میں گزارا۔ اس عرصے میں اقبالؒ نے شاعری ترک کرنے کا فیصلہ کیا؛لیکن سر آرنلڈ (علامہ اقبال کے استاد جنہوں نے انہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھایا) کے مشورے پر، انہوں نے شاعری جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ شاعری کے پہلے دور میں ان کی توجہ ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں پر مرکوز تھی لیکن قیامِ یورپ کے دوران، ان کا اولین مقصدپوری دنیا اور اس کے مسائل نیز مسلمانوں اور اسلام کی طرف ہوگیا اور بہت جلد انہیں معلوم ہوگیاکہ دنیا کے مسلمانوں کے بنیادی مسائل منفرد اور یکساں ہیں اور ان کے حل کے لئے پوری مسلم دنیا کی مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔

فلسفہ خودی کا تصور اسی دور کی نظموں میں شروع ہوا۔نیز بیخودی کے حوالہ جا ت بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ذیل میں ان کی نظم ”طلبہ علی گڑھ کالج کے نام“ سے چند اشعار رقم کیے جارہے ہیں جن سے ان کے اس دور کے فکر وفلسفہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے

طائرِ زیرِ دام کے نالے تو سن چکے
یہ بھی سنو کہ نالہ طائرِ زیرِ بام اور ہے

تیسرا دور (1908 سے 1924 تک)
علامہ اقبالؒ کی شاعری کا یہ طویل عرصہ ہے جو سولہ سالوں پر محیط ہے اور علامہ اقبال کی زندگی کا اہم ترین دور ہے۔ 1908 ء تک، انہوں نے ان تمام علوم پر دسترس حاصل کر لی تھی جن کی انہیں ضرورت تھی اوران کی سوچ میں پختگی آ گئی تھی۔ اس عرصے کے دوران، انہوں نے سب سے زیادہ نثری اور شعری ادب تخلیق کیا، جو اپنے معیار کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے لئے باعثِ فخر ہے۔ یہ اردو اور فارسی ادب کے لئے بھی ایک انمول دولت ہے۔ اس دور میں ان کی تین فارسی کتابیں (اسرارِ خودی — 1915، رموزِ بیخودی 1918 اور پیامِ مشریق — 1923) اور اردو میں ایک کتاب (بانگِ درا— 1924) منصہئ شہود پر آئیں۔ پہلی دو کتابوں میں، انہوں نے اپنا فلسفہ خودی اور فلسفہ بیخودی پیش کیا، جب کہ پیام مشرق میں مشہور یورپی شاعر گوئٹے کے ”سلامِ مغرب“ کا جواب لکھا اور انہوں نے بہت ہی دلکش اندازسے اپنے فلسفیانہ خیالات کا اظہار کیا۔”طلوع اسلام“جو کہ بانگِ درا کی آخری طویل نظم ہے، اس میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی نوید اور امید کا تذکرہ کیا گیا ہے۔اس شاہکارنظم سے کچھ اشعار ملاحظہ کریں:
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو، زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا،شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اسی دور کے چند اور اشعار دیکھیے:
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے
یقیں افراد کا سرمایہئ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملت ہے

اور وہ مزید کہتے ہیں:
تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا

علامہ اقبالؒ نے مسلم دنیا کے مسائل کوحل کرنے کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کیں نیز مسلمانوں کوان کا شاندار ماضی یاد دلا کردورِ انحطاط سے نکلنے اور روشن مستقبل کی طرف بڑھنے کی نوید سنائی کہ جس پر وہ بجا طور پر فخر کرسکیں اور اللہ کا نائب ہونے کا فریضہ ادا کر سکیں جس کے لیے درحقیقت انہیں پیدا کیا گیا۔

چوتھا دور (1924 سے 1938 تک)
علامہ اقبالؒ نے شاعری کے اس آخری دور میں متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں زبور ِعجم— 1927،افکارِ اسلامی کی تشکیلِ نو — 1930، جاوید نام—1932، بالِ جبریل— 1935، ضربِ کلیم — 1936 اور آخری ارمغانِ حجاز— 1938 (یہ کتاب ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی)۔ اس دور میں انہیں ذہنی سکون میسر آیا، جس نے انہیں خودی اور بیخودی کے نظریہ کے ساتھ ساتھ اس کے اجزاء کی وضاحت کرنے کے مواقع فراہم کیے۔

اس دور میں اللہ تعالیٰ،رسول اللہ ﷺ اور سرزمین حجاز سے ان کی محبت بھی عروج پر پہنچی۔ مغرب کی سیکولر قوم پرستی کی کوتاہیوں اور نقائص کو پوری طرح سے بے نقاب کردیا گیا اور نظریاتی قومیت اور اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا گیا۔ بالِ جبریل جو اس دور کی اردو شاعری کی پہلی کتاب ہے،اس میں پیغامِ خودی پورے جوبن پر ہے۔ ذیل میں ان کی مشہور نظم ”مسجد قرطبہ“ سے چند اشعارِ نمونے کے طور پر پیش کیے جارہے ہیں جس سے ان کی فکرِ رسا کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

عالمِ نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب

پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب

 

Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 198662 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More