ٹریفک وارڈنز سے میرا واسطہ تقریبا پچھلے پانچ سال سے ہے
اور میڈیا میں ہونے کی وجہ سے اکثر ان سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہی ہیں میڈیا
ہی کی وجہ سے ان کی حرکات و سکنات پر بھی نظر رہتی ہے پہلے ان کے بارے میں
بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں لیکن ان کا کام ان کی انتھک محنت دیکھ کر
اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ نہایت ہی عظیم فورس ہے جسے نہ تو دھوپ اور نہ
ہی سخت سردی کی پرواہ ہے بلکہ ان کا کام سخت سے سخت موسمی حالات کا مقابلہ
کرنا ہے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر چوکوں میں کھڑے رہنے والوں کو یہ بھی
معلوم نہیں ہے کہ نہ جانے کب کوئی بے قابو گاڑی ان سے جا ٹکراتی ہے لیکن وہ
یہ سب کچھ جاننے کے باوجود چوک ہیں بلا خوف وخطر اس طرح کھڑے ہوتے ہیں کہ
جیسے یہ چوک ہی ان کے لیے محفوظ ترین جہگہ ہے گرمیوں میں کچھ ماہ ایسے بھی
آتے ہیں جن میں گھروں سے باہر منہ نکالنا ہی جان جوکھوں کا کام سمجھا جاتا
ہے مگر اس عظیم فورس کے سپاہی روڈ پر کھڑے نظر آتے ہیں ان کے اندر ایک جزبہ
کار فرما ہے جو ان کو درس دیتا ہے کہ آپ کے فرائض کی راہ میں کوئی بھی چیز
رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے آپ کا کام سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور
اسی جذبے کومدنظر رکھ کر وہ اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں یہ پڑھے لکھے
نوجوان خود کو عوامی خدمت گار کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اس عظیم فورس
کی ایک عظیم ٹیم انسپکٹر چوھدری قاسم محمود اور انسپکٹر قاضی سعیدکی
سربراہی میں کلرسیداں ٹریفک سرکل میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہی ہے
عمران نواب خان ڈھوک میجر تا منگال بائی پاس اور عنصر محمود منگال بائی پاس
تا دھان گلی بطور بیٹ آفیسر اپنی زمہ داریاں نبھا رہے ہیں اس ٹیم کے دیگر
زمہ داروں میں مطیع الرحمان،واصف محمود،حافظ مدثر،راشد محمود،ماجد حسین،
نجم الحسن،سجاد حسین،محمد عمر،محمد امین، قاضی عمیر،قاضی بدر بطور وارڈن
آفیسر،اور دو لیڈیز سدرہ اور فوزیہ بطور ٹکٹنگ آفیسر اپنی اپنی زمہ داریاں
سر انجام دے رہی ہیں انچارج صاحبان اور بیٹ آفیسرز کی بہترین حکمت عملی کے
باعث کلرسیداں ٹریفک سرکل میں ٹریفک مسائل میں اب پہلے کی نسبت بہت زیادہ
بہتری آ چکی ہے اس محنتی ٹیم کی کارکردگی پر اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو اس
بات پر حیرت ہوتی ہے کہ یہ چھٹی کب کرتے ہیں اپنے گھروں کو کب جاتے ہیں
کیوں کہ جس وقت بھی دیکھا جائے یہ لوگ روڈ اور چوکوں میں کھڑے دکھائی دیتے
ہیں سرکاری چھٹی والے دن بھی بہت سے اہلکاران ڈیوٹی دیتے نظر آتے ہیں بارش
کے موسم میں بھی یہ بھیگتے دیکھے جاتے ہیں تمام وارڈنز اپنی ڈیوٹیاں بہت
ایمانداری کے ساتھ ادا کر رہے ہیں لیکن بیٹ انچارج عمران نواب خان، عنصر
قریشی اور وارڈنزواصف محموداور ماجد حسین زیادہ جانفشانی کے ساتھ اپنے کام
کرتے دکھائی دیتے ہیں چوھدری قاسم انچارج ہونے کے باوجود شہر بھر کا گشت
کرتے دکھائی دیتے ہیں میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ وہ مسافروں کی طرف سے آنے
والی شکایات کا ازالہ بہت جلد کرتے ہیں عمران نواب خان صبح سویرے چوکپندوڑی
شہر میں مختلف کاروائیاں کرتے نظر آتے ہیں اور جب ہم شام کو کلرسیداں سے
اپنے کام کاج ختم کرنے کے بعد واپس جا رہے ہوتے ہیں تو بھی وہ وہیں کھڑے
ہوتے ہیں وہ اپنی ڈیوٹی نہایت ہی زمہ داری کے ساتھ ادا کرتے ہیں ان کے
حوالے سے اکثر و بیشتر ٹرانسپورٹرز حضرات سے بات ہوتی رہتی ہے سب کہتے ہیں
کہ یار بہت سخت بندہ ہے بلکل کوئی بات نہیں سنتا ہے کارکردگی کے حوالے اب
تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ چوھدری قاسم اور عمران نواب خان سوشل میڈیا
پر چلنے والی شکایات پر بھی نوٹس لینا شروع ہو گئے ہیں ان تمام تر
کاروائیوں سے عوام علاقہ کی طرف سے ان کی کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے پانچ
یوم قبل میری طرف سے ایک شکایت کی گئی تھی جس میں کلرسیداں روٹ پر چلنے
والی ایک گاڑی کے کنڈیکٹر کی طرف سے ایک بزرگ کے ساتھ بدتمیزی کی گئی تھی
انچارج چوھدری قاسم اور بیٹ آفیسر عمران کان نے فوری ایکشن لیتے ہوئے
ڈرائیور و کنڈیکٹر کو گاڑی سمیت بند کردیا اور ان کو تحریری معافی نامہ کے
بعد پندرہ سو روپے کا چالان بھی کیا ہے ان کے بارے میں ایک غلط فہمی جو چل
رہی تھی کہ ٹریف پولیس راجہ بازار تا کلرسیداں چلنے والی اے سی بس سروس کے
چالان نہیں کرتی ہے عمران نواب خان نے صرف تین روز قبل ایک شہری کی شکایت
پر اے سی بس آر آئی ایس 1511 کاچالان بھی کیا ہے تو یہ ہوتی ہے کارکردگی
جہاں عوامی مسئلہ درپیش آ جائے وہاں پر ہماری ٹریفک پولیس کوئی بھی رکاوٹ
برداشت نہیں کرتی ہے بزرگ شہری کے ساتھ بد سلوکی پر ایکشن لینے پر علاقہ
میں ٹریفک پولیس کا امیج بہت بلند ہوا ہے جس وجہ سے لوگوں نے اب ٹریفک
پولیس کلرسیداں سرکل کا نام واقع ہی عظیم فورس کے طور پر لینا شروع کر دیا
ہے دوسرا چوکپندوڑی بازار میں پنڈی جانے والی گاڑیوں کا سٹاپ تبدیل کرنا
بھی عمران نواب کا کارنامہ سمجھا جا رہا ہے ان کے اس اقدام سے بازار میں
ٹریفک مسائل میں کمی واقع ہوئی ہے رہا بعض کمی بیشیوں کا معاملہ تو پوری
ذات صرف اﷲ تعالی ہی کی ہے اتنے بڑے کاموں میں کوئی تھوڑی بہت کمی ضرور رہ
جاتی ہے جن کو بنیاد بنا کر ہم ساری ٹریفک پولیس کو بدنام کرنا شروع کر
دیتے ہیں جو اس کام کرنے والی فورس کے ساتھ بلکل زیادتی تصور کی جاتی ہے
ٹریفک کے تمام معاملات پر نظر رکھنا بہت مشکل کام ہے یہ سب کچھ تب ہی ممکن
ہو سکتا ہے جب ہر شخص اپنی زمہ داری خود محسوس کرے کچھ زمہ داریاں ہم پر
بھی عائد ہوتی ہیں تمام تر بوجھ ٹریفک پولیس پر ڈال دینا بھی ایک زیادتی ہے
بلکہ ہمیں چاہیئے کہ ہم ٹریفک قوانین پر عمل کر کے ٹریفک پولیس کی مشکلات
کم کرنے میں ان کے ساتھ تعاون کریں ٹریفک پولیس ہر ماہ لاکھوں کے حساب سے
محصولات قومی خزانے میں جمع کروا رہی ہے اس محنتی ٹیم کی سخت کاروائیوں کی
بدولت آ ج سوزوکی ڈرائیورز طالبعلموں کو چھت پر چڑھنے کا نام نہیں لینے
دیتے ہیں مسافر گاڑیوں والے سواریوں کو ٹاپے پر بٹھانے میں خوف محسوس کرتے
ہیں انچارج چوھدری قاسم بہت زیادہ متحرک ہیں ان کی ہر وقت اپنے سرکل میں
موجودگی ٹریفک مسائل میں واضح کمی کے لحاظ سے بہت بہتر ثابت ہوئی ہے میری
ٹریفک پولیس کے اعلی حکام سے گزارش ہے کہ وہ کلرسیداں میں تعینات اس فرض
شناس فورس کو محکمانہ سہولیات باہم پہنچائیں تاکہ یہ مزید جانفشانی سے کام
کر سکیں
|