نظم و ضبط کے متعدد معنی اور تعریفیں بیان کی گئی
ہیں۔بامقصد سرگرمیوں میں ایک تناسب سے ترجیحات کی بنیاد پر لائحہ عمل کے
تعین کو نظم و ضبط کہتے ہیں۔بہ الفاظ دیگر نظم و ضبط تدبیر اور کام کی
تقسیم اور مستقبل میں اسے انجام دینے کے فیصلے سے عبارت ہے۔’’کام کی انجام
دہی سے قبل تدبیر اور منصوبہ بندی آدمی کو پشیمانی سے محفوظ رکھتی
ہے۔‘‘کردار کو ابتدائے آفرینش سے آدمی کے برتاؤ پر قابوپانے والی ایک طاقت
ور عامل کی حیثیت حاصل رہی ہے جو کسی کے طرز عمل اور صحیح طرز عمل کوسمجھنے
،مطلوبہ عادات و برتاؤ کی تشکیل اور زندگی کی کارکردگی میں توازن و حسن
پیدا کرنے میں معاون ہوتا ہے۔درس و تدریس کے دوران ماہر اساتذہ عمدہ برتاؤ
و کردار کی اہمیت، وضاحت اور اسے مثبت طرز زندگی سے مربوط کرنے میں ہمیشہ
کوشاں رہتے ہیں۔عمدہ برتاؤ،پسندیدہ رویوں ،بہترین کردار کو طلبہ کی زندگیوں
کا جزو لاینفک بنانے کے لئے اسکول تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی خاص اہتمام
کریں اور کردار ورویوں کی تشکیل و فروغ میں اساسی نکات پر خصوصی توجہ مرکوز
کریں۔اچھے اساتذہ کے ذریعے روبہ عمل لائے جانے والے بہتر پروگرامس جو بچوں
میں عمدہ کردار کی قدرو قیمت کو اجاگر کرتے ہیں دراصل طلبہ میں خود
انضباط(Self Control)کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں۔اساتذہ مدارس میں ایسے
پروگرامس کا آغاز کریں جوانفرادی شخصیت کی نشوونما،اعتماد،تحفظ اور احترام
کے احساس کو جاگزیں کرنے میں معاون ہوں تاکہ طلبہ کی ایک متوازن ہمہ جہت و
ہمہ گیر شخصیت ابھر اور نکھر سامنے آسکے۔طلبہ کی شخصیت وکردار کو موثر و
بہتر بنانے کے لئے ان کے اند پائے جانے والے جذبہ خیرخواہی و نیک نیتی کی
مناسب حوصلہ افزائی اورمسلسل رہبری ورہنمائی کی انجام دہی ضروری ہے۔ انسان
کے اچھے یا برے ہونے میں عموماً تین عوامل اثر انداز ہوتے ہیں
(1)فطری صلاحیتیں جو بچے کو میراث میں ملتی ہیں جسے وہبی صلاحیت کہا جاتا
ہے۔
(2)دوسرا بچوں کی ذہنی، جسمانی نشوونما ، تربیت و کردار سازی میں وہ ماحول
جہاں وہ اپنی عمر گزارتا ہے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔بچہ اپنے
ماحول سے اچھائیاں اوربرائیاں سیکھتا ہے۔
(3)شخصیت و کردار کی تعمیر میں تیسرا عامل تعلیم و تربیت ہے۔تعلیم و تربیت
میں اساتذہ کے علاوہ سب سے بنیادی کردار والدین کا ہوتا ہے۔والدین سب سے
پہلے بچے کے ذہن میں اچھائی اور برائی کا تصور پیوست کرتے ہیں۔والدین ہی
اچھائیوں اور برائیوں کے درمیان تمیز اور احساس کا عملی نمونہ پیش کرتے
ہیں۔بچوں کے کردار میں والدین کے اثرات،گھر کا ماحول ،خاندان،پڑوس ،محلہ
اسکول،اساتذہ اور تدریسی مواد (نصابی کتابوں)کا اہم کردار ہوتا ہے۔ماہرین
تعلیم و نفسیات کا اس بات پر اجماع ہے کہ مذکورہ عوامل انسان کی شخصیت پر
اس حد تک اثراندازہوتے ہیں کہ یہ انسان کی فطرت تک کو بدل سکتے ہیں۔ایک بچے
کی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو اس کی ابتدائی زندگی گھر(خاندان،محلہ )،ماحول
اور مدرسہ کے اردگرد گردش کرتی نظرآتی ہے۔بچوں کی تربیت اور کردار سازی میں
ان تینوں مقامات کا بنیادی کردار ہے۔ان تینوں مقامات میں کسی ایک مقام پر
کہیں کچھ نقص رہ جائے تو بچے کی نشوونما پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے
ہیں۔ بچے کی ذہنی،جسمانی ،روحانی،تعلیمی،اخلاقی نشوونما کے لئے ان تینوں
اداروں کے مابینہم آہنگی ،یکسانیت اور تعاون نہایت ضروری ہے۔ اسی لئے بچوں
کی تربیت کے لئے ان تینوں مقامات کی اصلاح بے حد ضروری ہے تاکہ بچے کے
کردار پریہ مثبت اور موثر طریقے سے اثر انداز ہوسکیں۔مستقبل کا معاشرہ بچوں
سے تعمیر ہوتا ہے ۔ تربیت کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو بچوں کی نظرسے ہی
دیکھا جائے،ان کی شخصیت کو تسلیم کریں ،ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے،ان
پر بھروسہ و اعتبارکریں۔
گھر اور ماحول: ایک مثالی معاشرہ جس معیار کے انسانوں کا ہم سے تقاضہ کرتا
ہے درحقیقت وہ آسمان سے نہیں اترتے ہیں بلکہ ان کی نمو بھی اسی خاک سے ہوتی
ہے۔معاشرہ افراد کی یکجائی کا نام ہے۔کسی بھی فرد کی تربیت میں اس کا گھر
اہمیت کا حامل ہوتاہے۔بیشتر گھروں کا ماحول ہی ایسا ہے جہاں بچے والدین کی
توجہ،محبت وشفقت سے محروم ہیں روحانی اور اخلاقی تربیت کا کوئی پرسان حال
نہیں ہے۔خاص کر مسلم گھرانوں میں ضروری ہے کہ گھر کی اینٹیں اﷲ کی اطاعت
اور حب رسول پر رکھی جائے۔اسلام بچوں کوابتدائی عمر سے ہی اخلاقی اور
معاشرتی خوبیوں کا خوگر بنا ناچاہتا ہے۔ قابل غور بات ہے کہ کیا حقیقی
معنوں میں ہم اپنی اولاد کا حق ادا کررہے ہیں۔والدین پر بچوں کی جو ذمہ
داری ہمارے مذہب نے ہم پر عائد کی ہے کیا اس سے ہم عہدبرآں ہورہے ہیں۔جہاں
باپ کی کمائی شرعی کسوٹی پرپوری نہیں اترتی ہے وہیں ماں کی جگہ
انٹرنیٹ،موبائل فون اور ٹی وی معلم بن کر بیٹھی ہے۔اب تو مائیں بچوں کو
کھانا کھلانے اور انھیں چپ کرانے فون دے کر گلوخلاصی میں عافیت سمجھ رہی
ہیں تاکہ انھیں کسی قسم کی مشقت نہ اٹھانی پڑے۔ماضی بعید کا جائزہ لیں تو
معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت نہ تو باضابطہ اسکول ،کالج ،یونیورسٹیاں ہواکرتی
تھیں نہ آج کی طرح تعلیم کا آسان چلن عام تھاپھر بھی ناخواندہ ماؤں نے اپنے
پانچ پانچ چھ چھ بچوں کو حافظ قرآن بنایا اور اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ان
ناخواندہ ماؤں کے بچوں نے اپنے علوم و فنون کا ساری دنیا میں لوہا
منوایا۔آج اعلیٰ ٹکنالوجی وسیع و وافر وسائل رکھتے ہوئے بھی نہ ہم اچھے
والدین بن سکے اور نہ ہی اچھے استاد۔بچوں کی کردار سازی کے لئے اپنے گھروں
کے ماحول کو پاک بنانا بے حد ضروری ہے۔تربیت میں نفرت ،سختی اورکجی کے
بجائے محبت،شفقت اور نرمی سے کام لیں۔عربی کا قول ہے ’’قلوب الرجال وحشیتہ
فمن تالفھااقبلت علیہ‘‘ ترجمہ ؛انسان کا قلب وحشی ہوتا ہے جو اس سے محبت
کرتا ہے وہ اس کی جانب جھک جاتا ہے۔والدین اپنی اولاد سے محبت و شفقت کا
اظہار کرنے لگیں گے کہ تو بچے بھی ان کی باتوں کو مزید توجہ سے سننے اور
ماننے لگیں گے۔اپنی محبت سے والدین بچوں سے عاطفی و قلبی تعلق خاطر کو
مستحکم کرسکتے ہیں اور انھیں نیکی اور بھلائی کے کاموں کی جانب راغب و مائل
کرسکتے ہیں۔
اسکول معاشرے کی تعمیر میں دوسری اینٹ کا درجہ رکھتا ہے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں
پر مردم سازی کا کام انجام دیا جاتا ہے۔جہالت کی ظلمتوں میں بھٹکتی انسانیت
کے لئے اسکول ایک پاور ہاؤس کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے ساری انسانیت کو
روشنی کی تقسیم عمل میں آتی ہے۔بچہ جب اپنے گھر سے باہر اسکول کی دنیا میں
پہلا قدم رکھتا ہے تب تک وہ آداب ،ظرافت ،شائستگی،نظم و ضبط سے بڑی حد تک
بے خبر رہتاہے۔اسکول صرف معلومات کی فراہمی کا کام انجام نہیں دیتا ہے بلکہ
بچے کو صحیح طرز زندگی سے واقف کرواتا ہے۔ اسے مثبت اور کارآمد زندگی
گزارنے کے رہنما اصولوں سے آگاہ کرتا ہے۔اسکول بچے کو اچھائی اور برائی میں
تمیزسکھانے کے ساتھ خوف خدا،سچائی وحق پرستی سے کام لینے و اس کا ساتھ دینے
،انسانیت ،محبت ،مروت،مودت،احسان ،سلوک کی تعلیم و تربیت فراہم کرتا ہے
۔تغیر پذیر دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لئے تیار کرتا ہے۔باہمی
تعاون و اتحاد اور عمدہ اخلاق ،عادات و کردار کی تشکیل و فروغ میں نمایاں
کردار ادا کرتا ہے۔صبر وتحمل اور اجتماعیت کا درس بھی بچے اسکول سے ہی
سیکھتے ہیں۔
بچوں کی تربیت و کردار سازی میں مذکورہ عناصر نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں
جن کا منشاء و مقصد بچوں کو نیک و صالح بنا نا ہوتا ہے۔اگر ان تینوں اداروں
میں سے کوئی کوتاہی یا خراب کا شکار ہوجائے یا ان میں صحیح تامیل و تعاون
نہ ہو تب انجام کار بہت ہی خراب ہوتا ہے۔والدین ،ماحول اور مدرسے کو منظم و
مربوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔گھروں میں اگر اچھے برے کا التزام ہوگا تب بچے
بھی ان اصولوں کے تحت پرورش پائیں گے اور جب اسکول کا رخ کریں گے تب حقیقی
معنوں میں تعلیم وتربیت سے فیضیاب ہوسکیں گے۔اگر گھر میں نظم و ضبط ،اخلاق
و کردار پر توجہ نہ دی جائے تو ایسے گھروں کے بچے اسکولوں میں داخل بھی
ہوجائیں تو بھی حقیقی معنوں مین تعلیم و تربیت سے فیض نہیں اٹھا سکتے
ہیں۔ایسے بچوں کی فکر و عمل میں لاشعوری طور پرتضاد پایا جاتا ہے جو مستقبل
میں خطرناک نفاق کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ والدین ،اساتذہ اور ذمہ داران
مدرسہ اپنے فرائض کو اتم طریقے سے انجام دیں۔والدین گھر کو اعلیٰ اخلاق اور
نظم و ضبط کا نمونہ بنائیں۔اساتذہ طلبہ کو معاشرے کے لئے کارآمد اور
انسانیت کا علمبردار بنائیں۔ذمہ داران مدارس تعلیم و تربیت میں مددگار
وسائل و ذرائع کی فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ بچوں میں اعلیٰ درجے کا نظم
و ضبط ،اخلاق و کردار پروان چڑھ سکے۔
رویوں کی نگرانی(Monitoring the Behavior):۔
نظم و ضبط (ڈسپلن) ،اچھے رویے و کردارکی تعمیر پر جہاں خاطر خواہ توجہ نہیں
دی جاتی وہاں بداخلاقی برے برتاؤ جیسے چوری،فریب،دھوکے بازی،کذب
بیانی(جھوٹ)، ہم جماعت ساتھیوں سے لڑائی جھگڑا،اسکول کی املاک کو نقصان
پہنچانا یا تباہ وبرباد کرنا،خلل پیدا کرنا(Creating Distrubances)،گندی
اور فحش زبان کا استعمال،دوسروں کو پریشان کرنا،اساتذہ سے بے عزتی سے پیش
آنا اور اس طرح کے کئی خراب رویے طلبہ میں جگہ بنانا لیتے ہیں۔عموماً
اساتذہ بچوں کے ان خرابوں رویوں کو نظرانداز کردیتے ہیں اور اگر کبھی طلبہ
کے خراب رویوں سے ان کا سامنا بھی ہوجاتا ہے تو اپنی کوتاہی کی پردہ پوشی
کے لئے ’’ہم طلبہ کے ہر مسئلے پر نظر نہیں رکھ سکتے‘‘جیسی لنگڑی تاویلات سے
کام لیتے ہوئے اپنے فرائض سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن اساتذہ
اگر اپنے پیشے سے حقیقی و دیانتدارانہ وابستگی رکھتے ہیں تب انھیں ایسے
مسائل کو حل کرنا اور بچوں کے خراب برتاؤ پر قابو پانا ضروری ہے تاکہ ان
میں عمدہ کردار و اخلاق کو فروغ دیا جاسکے۔ہر تغیر وتبدیلی کے عمل میں جس
طرح شعور (آگہی)،عمل پیرائی اور تبدیلی کی خواہش کلیدی کردار ادا کرتی ہے
بالکل برتاؤ کی تبدیلی میں بھی شعور(آگہی)،عمل پیرائی اور تبدیلی کی خواہش
یہ تین عنا صر بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
برے برتاؤ کی تبدیلی کا آغاز خراب برتاؤ کے شعور واادراک سے ہوتا ہے اور جب
خرا ب برتاؤ کا ادراک ہوجائے تو اسے درست کئے بغیر نہیں چھوڑنا چاہئے۔عمل
درآمدگی یا عمل پیرائی سے مراد دوسروں کے مقبول و پسندیدہ رویوں کو اپنی
زندگی کا جزو بناناہے۔ اپنے تمام خراب اور مستردشدہ رویوں کو مقبول و
پسندیدہ رویوں سے تبدیل کرنے کو تبدیلی کہا جاتا ہے۔اساتذہ حدود سے تجاویز
کرنے والے ،معاشرتی و سماجی اصولوں سے روگردانی اور غیر پسندیدہ سرگرمیوں
میں ملوث طلبہ پر گہری نگاہ رکھیں۔طلبہ کے خراب اور برے برتاؤ کے جو مسائل
عمومی طورپرمشاہدے میں آئے ہیں ان میں ہم عمر ساتھیوں سے تال میل ومیل جول
کی خرابیاں ، ٹکراؤ،سماج دشمن رویے،خود تخریبی (خود اذیتی)رویے،شخصیت کی
خراب شبیہ ،عزت نفس کا فقدان و کمی کے مسائل جذباتی عدم توازن سے پیدا ہونے
والے مسائل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں ان میں از خود
ایک ادارکی صلاحیت فروغ پانے لگتی ہے جوصحیح اور غلط کے درمیان فرق کو
سمجھنے میں معاون و رہنما ہوتی ہے جسے ہم ضمیر کہتے ہیں۔ضمیر کی حقیقی طاقت
طلبہ کے اچھائی اور برائی کے مابین تمیز کرنے کے واقعات و تجربات کی شرح پر
منحصر ہوتی ہے۔طلبہ کو مختلف اقدار سے روشناس کرتے ہوئے اساتذہ تدریسی
حالات و تجربات کو موثر طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے بچوں میں اچھی راہوں
ا ور بہتر اقدارکی منتقلی کا کام احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔طلبہ کے
برتاؤ کی نگرانی میں اساتذہ کو غایت درجہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی
ہے۔ طلبہ اپنے خراب برتاؤ و رویوں کو درست وتبدیل کرنے یا پھر ان پر قابو
پانے کے لئے اگراساتذہ سے مدد نہ بھی طلب کریں تب بھی اساتذہ پوری دیانت
داری سے طلبہ کے برتاؤ و رویوں کی اصلاح میں مددفراہم کریں۔ خراب برتاؤ و
طرز عمل کے مسائل کا علیحدہ جائزہ لئے بغیر اصول ،ضوابط ور تحدیدات کے
سہارے اساتذہ اگر خراب رویوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے منفی
عواقب و نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بچوں کا طرز عمل اور بدتر ہوجاتا
ہے ۔اساتذہ ان حقائق کی روشنی میں بڑی سنجیدگی و توجہ سے طلبہ کے برتاؤ اور
رویوں پر مبنی مسائل کا جائزہ لیں،ان کے تدارک کے لئے موثر طریقے کار اور
ضروری اقدامات کریں جو خراب و غیر پسندیدہ رویوں کی اصلاح میں معاون و
مددگار ہوتے ہیں۔ مثبت شخصیت کی نشوونما میں حائل خراب و نا پسندیدہ رویوں
سے طلبہ کو شخصی طور پر آگاہ کریں۔اساتذہ کی جانب سے بروقت کئے جانے والے
یہ بیش قیمت اقدامات بچوں میں ہر طرح کے برے رویوں کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے
میں مددگار ہوتے ہیں۔
بعض اوقات اساتذہ کوطلبہ میں پائے جانے والے رویوں و برتاؤ کے مسائل کی
تجزیاتی تشخیص انجام دینی ہوتی ہے۔موثر لائحہ عمل اور اصلاح و رہبری کے لئے
مسائل کی وجوہات و حل سے متعلقہ تمام مناسب اعداد و شمارکو اکٹھا کرنا
ضروری ہوتا ہے۔بعض طلبہ اپنے رویوں کی خرابی کے مسائل جو ان کی شخصی
نشوونما اور ترقی میں سدراہ بن جاتی ہے سے لا علم رہتے ہیں اور بعض ایسے
بھی ہوتے ہیں جنھیں اپنے مسائل کا علم تو رہتا ہے لیکن خود سے اسے حل کرنے
یا قابو پانے سے قاصر رہتے ہیں ۔اساتذہ کوچاہئے کہ وہ ایسے مسائل کا جائزہ
لیں اور ان کا سد باب کریں۔طلبہ کو جذباتی عدم توازن سے نبرد آزمائی کے
راستے اور طریقے تلاش کرنے ،مناسب رویوں کے فروغ کی اساتذہ تحریک دیں تاکہ
وہ ان مسائل کا کامیابی سے سامنا کریں اور ان میں مثبت طرز زندگی بسرکرنا
کا جویا پیدا ہو۔
برتاؤ و رویوں کے مخصوص مسائل:۔
اسکولی زندگی میں موثررویوں کے انصرامی پروگراموں پر کامیاب عمل آوری کے
لئے پہلے سے موجودا و ردرآنے مختلف رویوں کے مسائل کا علم و آگہی ،وسیع
پیمانے پر ان خراب رویوں اور ان مسائل سے مرتب ہونے والے منفی اثرات ،اس کے
تدارک او رسدباب کا علم اساتذہ کے لئے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ذیل میں بچوں
میں پائے جانے والے متعدد طرزعمل و رویوں کے مسائل کی اہم وجوہات بیان کی
گئی ہیں جس سے بچوں میں برتاؤ ورویے کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
(1)بچوں کا ذہنی خلفشار و کشمکش جو کہ عموماًگھریلو حالات کی بنا پیدا
ہوتاہے یہ بچوں میں بدنظمی اور چڑچڑا پن پیدا کرنے کی ایک اہم وجہ ہے۔
(2) جذباتی عدم توازن اور جذباتی خلفشار کا سامنا کرنے کی وجہ سے بچوں میں
بد نظمی اور بے قابو طرزعمل کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
(3)اساتذہ اور طلبہ کے مابین بہتر تعلقات اور گفت و شنید کے فقدان کی وجہ
سے بچے ذہنی خلفشار کا شکار ہوجاتے ہیں اور جس کے نتیجے میں ان سے باغیانہ
برتاؤ کا اظہار ہونے لگتا ہے۔
(4)پست عزت نفس کے حامل طلبہ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ایسی حرکات
کر بیٹھتے ہیں جو خراب برتاؤ کی زمرے میں آتی ہیں اور اس طرح کے برتاؤ کے
مسلسل ارتکاب سے ان میں برے برتاؤ کی خراب عادت جڑپکڑلیتی ہے۔
(5)اساتذہ جب طلبہ کو ان کے حقیقی جوہر ،اختراع،تخلیقیت اور قابلیت کی
نمائش و اظہار کے مواقع فراہم نہیں کرتے ہیں تب بچوں میں عدم اطمینان کی
فضا پیدا ہوجاتی ہے جو انھیں برے برتاؤ پر مائل کرتی ہے۔
(6)طلبہ جب یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کو اساتذہ کی محبت اور شفقت حاصل نہیں
ہے تو وہ خود کو جذباتی طور پر جکڑے ہوئے محسوس کرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے ان
میں عدم تحمل اور بے صبری کی کیفیت جاگزیں ہوجاتی ہے جو انھیں خراب برتاؤ
پر ابھارتی ہے۔
(7)طلبہ کو جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ دوسرے طلبہ کی طرح پڑھائی نہیں
کرسکتے ہیں اور ان میں صلاحیتوں کا فقدان ہے تو ان میں پڑھائی سے عدم
دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے اسکولی اوقات کو ایسی سرگرمیوں
میں صرف کرنے لگتے ہیں جو ہرگز قابل قبول نہیں ہوتی ہیں۔ایسے طلبہ کو جب
مناسب طریقے سے نہیں سنبھالاجائے تب ان کا برتاؤ دیگر کئی جماعتوں کے لئے
باعث تشویش ہوجاتا ہے۔
(8)کمرۂ جماعت میں خود کو الگ تھلگ رکھنا،دوسروں سے تعاون و تعامل میں
ہچکچاہٹ وگریز کرنا،معمولی معمولی بات پر پریشان ہوجانا،لگاتار خراب مظاہرہ
کرنا وغیرہ بچوں کے ذہن کوسیکھنے کے اصل دھارے سے کاٹ دیتا ہے اور اس طرح
کے یہ منفی ردعمل ان کے لئے ایک مسئلہ بن جاتے ہیں۔
اچھے برتاؤ و نظم و ضبط کا فروغ
کمرۂ جماعت ہی مدرسہ کی (کلاس روم) وہ واحد جگہ ہے جہاں نظم و ضبط (ڈسپلن)
کے تمام اصول و ضوابط کا اطلاق اور عمل پیرائی ممکن ہے۔کمرۂ جماعت میں
اساتذہ اپنی بھر پور شفقت توجہ اور اخلاق کردار اور رویوں کی احسن تعلیم و
تربیت کے ذریعہ طلبہ میں اطاعت فرمانبرداری اور اصولوں پر عمل پیرائی کے
جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔ کوئی بھی شخص سخت گیری ،ترش روی اور طاقت کے زور
پر بچوں میں اطاعت ،فرمانبرداری اور نظم و ضبط کی فضا کو ہرگز پروان نہیں
چڑھا سکتا ۔یہ آفاقی حقیقت ہے کہ سخت مزاجی اور طاقت کے ذریعہ نظم و ضبط
قائم ہی نہیں ہوسکتاہے ۔چند سخت اصولوں کو بچوں پر مسلط کرتے ہوئے ہم نظم و
ضبط کی صورت حال کو ہرگز درست نہیں کرسکتے۔ ایسے اقدامات توانائی اور وقت
کے ضیائع کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔نظم و ضبط کے حاکمانہ طریقے ،یہ مت
کرو،وہ مت کرو کی بے جا بندشوں سے بچوں میں صحت مند آزادی اظہار وآزادی
بودو باش کے جذبات تنزلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔لگاتار سزاؤں،ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ
نظم و ضبط کی حقیقی روح کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔اساتذہ کو اس حقیقت سے آگاہ
کرنا لازمی ہے کہ سخت گیر رویے اور دھمکی آمیز مکالمات و اقدامات سے عمدہ
نظم و ضبط کی فضاکبھی بھی ہموار نہیں کی جاسکتی۔
ا ساتذہ جب طلبہ کو ایسے حالات جو انھیں صحیح طرزعمل،ردعمل کے درست طریقہ
کار،زندگی کے صحیح و بہتر رویوں سے روشناس کرنے اور ان کی اہمیت و معنویت
پر غورو فکر کرنے پر مائل کرتے ہیں تو ان میں اپنی تبدیلی کا ایک جذبہ
ومحرکہ ازخود جنم لینے لگتا ہے۔اساتذہ بچوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا جب
اہتمام کرتے ہیں تو بچے اپنے رویے اور برتاؤ پر قابو پانے کے لئے خود سے
چند اصول و طریقے وضع کرلیتے ہیں۔اساتذہ اچھے طرز عمل ،صحیح رویوں اور
مطلوبہ پسندیدہ عادات کو طلبہ میں استوار کرنے کے لئے کلاس روم کی سرگرمیوں
کے دوران ہونے والی گفتگو اور مواقعوں سے بہتر طریقے سے استفادہ کریں۔ کلاس
روم کو اگر تبدیلی کی مثالی تجربہ گاہ (Ideal Transforming Laboratories)سے
معنون کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ کمرۂ جماعت ہی وہ واحد جگہ ہے جہاں
شخصیت کی کامیاب نشوونما میں معاون ،مقبول و پسندیدہ رویے جیسے
تعاون،اکتساب بذریعہ امداد(Learning by Helpiing) ،باہمی احترام واکرام
،مہذب و شائستہ طریقہ اظہار اور دوسروں کے بارے میں احساس فکرمند ی جیسے
تجربات کامیابی سے سرانجام دیئے جاتے ہیں ۔یہ تجربہ گاہیں (کلاس رومس) بچوں
کو آنے والی زندگی کے نشیب و فراز میں بھی اخلاق و اقدار کا دامن ہاتھ سے
نہ چھوڑنے کی تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں۔ طلبہ میں پائے جانے والی ہر
قسم کی بے راہ روی جو عام طورپر سرکش رویوں، زبانی جارحیت،توڑپھوڑ،مارپیٹ
،لڑائی جھگڑے اور غنذہ گردی کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے جو زندگی کے حسن و
نغمگی کو تباہ کردیتی ہے کی بروقت اصلاح کی متقاضی ہوتی ہے تاکہ منفی رویوں
کا تدارک ہوسکے۔
بچوں میں نظم و ضبط پیدا کرنا اور نظم و ضبط کے کارگر اصولوں کو ان کے
ذہنوں میں پیوست کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بچوں میں تعمیری نظریات،ذمہ
داری اور رواداری کی برقراری کے لئے اسکولی سطح پر تمام ڈسپلن پالسیوں پر
فعال عمل آوری سے قبل موثرمنصوبہ بندی،نتیجہ خیز اقدامات اور گہر ے فکر و
تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اساتذہ اور اسکول انتظامیہ ہمیشہ ایک نکتہ اپنے
ذہنوں میں محفوظ کرلیں کہ مناسب اور تعمیری ڈسپلن کے بغیر درس و تدریس کے
مطلوبہ مقاصدکا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔اساتذہ طلبہ کے علم و
معلومات کے افق کو وسعت دینے کے ساتھ ان میں معیاری طرز عمل اور پسندیدہ
اطوار کے فروغ کی باقاعدگی سے سعی و کوشش کریں۔اساتذہ کی یہ کوشش نہ صرف
طلبہ کو ایک خوشحال اور محفوظ زندگی فراہم کرنے میں مددگار ہوگی بلکہ طلبہ
سماج اور معاشرے کی آرزؤ ں اور ارمانوں کی تکمیل کا بھی ذریعہ بن جائیں
گے۔اساتذہ بچوں میں ایک ایسا احساس جاگزیں کردیں جو انھیں ہمیشہ صحیح کاموں
کی انجام دہی اور ترقی کی سمت آمادہ کرتا رہے۔ذیل میں چند ایسے بنیادی
عوامل کا ذکر کیا جارہا ہے جو طلبہ میں اچھے طرزعمل(برتاؤ) اور نظم و ضبط
کو تقویت دینے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
(1)اساتذہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کمرۂ جماعت کے حالات ان کے سبق کی
ضروریات کے لئے موزوں و مناسب ہوں اورجو طلبہ کی زندگی میں صحیح
طرزعمل(برتاؤ) اور عمدہ اخلاق و اقدار کو جاگزیں کرسکیں۔
(2)طلبہ میں ایک زندہ و متحرک ضمیر کو یقینی بنائیں تاکہ وہ اچھی عادات
،عمدہ اخلاق ،بہتر رویوں اور اقدار کے انتخاب میں ان کی رہبری کرے ۔مذکورہ
رویوں کا طلبہ میں جاگزیں ہونا ہی درحقیقت اخلاقی نشوونما کی معراج ہے۔
(3)کلاس روم کے انضباطی کاروائیوں کا ایک خاکہ تیارکریں،جو لکچدار ہو لیکن
مضبوط کردار کی تعمیر میں معاون رہے۔انضباطی اصول بہت زیادہ سخت اور قابل
تعزیر نہیں ہونے چاہئے کیونکہ ایسے اصول سخت ناراضگی اور آزردگی کا باعث
بنتے ہیں۔
(4)کمرۂ جماعت میں دوران تدریس طلبہ کواخلاقی اقدار سکھانے کے کسی بھی موقع
کو ہاتھ سے جانے نہ دیں ۔زندگی میں اصول اور اقدار کی اہمیت کو اجاگر کریں
اور بتلائیں کہ زندگی اور دنیا کا حسن ان ہی سے قائم ہے۔ طلبہ کے ذہنوں میں
یہ بات نقش کردیں کہ اخلاق و کردار کی قدر و قیمت اور اہمیت تمام مادہ
پرستانہ کامیابیوں اور فوائد سے بالا تر ہے۔
(5) بچوں کی عزت نفس کو مجرو ح اور نقصان پہنچانے والے جارحانہ اظہار،دھمکی
آمیز لہجوں اور انتہائی رویوں اور تاثرات سے اساتذہ گریز کریں۔یہ طرزعمل
طلبہ کو ان سے متنفر کردیتا ہے اور ان میں خراب رویے جڑپکڑنے لگتے ہیں۔
(6)نیکی کے حسن اور بدی کی قباحتیں ،مثبت طرز عمل کے فوائد اور منفی برتاؤ
کے نقصانات سمجھانے سے طلبہ میں اچھے رویوں اور اخلاقی اقدار کی جانب رغبت
بڑھتی ہے اور اعلیٰ طرزعمل رویوں اور اخلاقی اقدار کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
(7)کمرۂ جماعت یا کسی گروہ میں جب بچوں میں اجنبیت کا احساس باقی نہ رہے تب
ان میں ایک مثبت محرکہ پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بہتر طرز عمل اور رویے
وجود میں آتے ہیں ۔یہ مثبت رویے طلبہ کے جذباتی استحکام اور ذہنی نشوونما
میں آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔طلبہ سے اساتذہ کا رویہ ایسارہے کہ وہ خود کو
اجنبی نہ تصور کریں اور اتنا دوستانہ بھی نہ ہو کہ ادب و احترام ملحوظ نہ
رکھا جاسکے۔
(8)بچے کے کسی خاص برے سلوک پر جب ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کیا
جائے تو یہ بہت ضروری ہے کہ بچوں کو اس کے متباد ل مطلوبہ سلوک و طرزعمل سے
آگاہ کیا جائے تاکہ خراب برتاؤ کی جگہ اچھے اورعمدہ طرزعمل کو تقویت و
فوقیت حاصل ہوسکے۔
(9)بچوں کو کبھی ایسے زبانی (Verbal)اور غیر زبانی(Non verbal)پیغامات کے
ذریعے عتاب و سزا کا شکارنہ بنائیں جس سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہو۔اگر
بچوں میں عزت نفس کا جذبہ مفقود ہوجائے تو وہ خوداستحسان (خود کی خوبی کے
احساس) سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جس کے نتیجے میں ان سے متعدد خراب رویوں
اور بدتر طرزعمل (برتاؤ) کا اظہار ہونے لگتا ہے۔
(10)طلبہ کو مختلف معاشرتی مہارتوں جیسے تعاون، اشتراک،رواداری،صبرو تحمل
اور دوسروں کی مدد کرنا وغیرہ کی تعلیم دینا ضروری ہے۔باہمی اشتراک اور
تعاون کے جذبے کے ساتھ بچوں کو ایسے کام کرنے کے مواقع فراہم کریں جس سے
گروہی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔
(11)طلبہ کو کمرۂ جماعت کا ڈسپلن (نظم ضبط )کی برقراری کی ذمہ داری سونپنے
سے طلبہ میں مثبت نظم و ضبط(ڈسپلن)جاگزیں ہوتا ہے۔اساتذہ طلبہ کو جب یہ ذمہ
داری تفویض کریں تو ان کے برتاؤ اور طرزعمل پر نگاہ رکھیں تاکہ نظم و ضبط
،رویوں اورطرزعمل کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ازالہ کیا جاسکے۔
(12)جب طلبہ کے برتاؤکو اساتذہ درست کرنے پر توجہ مرکوز کریں تو اپنا
طرزعمل بالکل مثبت اور مہذب رکھیں ۔بچے اساتذہ کو اپنے لئے خطرہ نہ
سمجھیں۔اساتذہ برتاؤ اور اخلاق کی درستگی کے لئے درست لائحہ عمل اور اس پر
بہتر طریقے سے عمل درآمدگی نہایت ضروری ہے۔
(13)کبھی کبھی کسی برتاؤ کی وجہ سے پیدا ہونے والی گڑبڑ پر تادیبی نقطہ نظر
سے سوچنے کے لئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔اساتذہ تادیبی کاروائی میں تب تک
تاخیر سے کام لیں جب تک کہ مناسب طریقہ کار وہ فیصلہ نہ کرلیں۔
(14) اساتذہ اپنی روزمرہ کے مضامین کی تدریس کے دوران ایسے اخلاقی اقدار کو
بھی شامل درس رکھیں جس سے بچوں میں زندگی بسرکرنے کی چاہت اور زندگی کو
کارآمد اور فیض مند بنانے کا جذبہ پیدا ہو۔
(15)بداخلاقی اور بدتمیزی کے مرتکب طلبہ کو علیحدہ علیحدہ طلب کرتے ہوئے ان
سے اپنے برتاؤ کو درست کرنے کے لئے کہاجائے ۔منفی و خراب برتاؤ کو مثبت
کردار میں وہ کس طرح تبدیل کرسکتے ہیں اس سلسلے میں ان سے گفتگو کی جائے
۔برتاؤ کی خرابی کو دور کرنے میں معاون مشورے طلبہ کو دیں۔
(16)بچے اگر گھریلو حالات کی وجہ سے ذہنی خلفشار کا شکار نظرآئیں تو اساتذہ
اولیائے طلبہ سے موثر گفتگو کا اہتمام کرتے ہوئے بچوں کی نفسیاتی مسائل کی
جانب ان کی توجہ مبذول کروائیں جس کی وجہ سے بچے خراب اور پریشان کن برتاؤ
کے مرتکب ہورہے ہیں۔
(17)بچوں کو شخصیت اور کردار کے اکہرے پن کی تعلیم دیں اور ایسے رویوں کو
فروغ دیں جس کے سہارے وہ ایک متوازن ،بہتر ،پرسکون اور باہمی تعاون سے پر
زندگی بسرکرسکیں۔
(18)جب آپ نوجوان و بالغ طلبہ کی اصلاح کا ارادہ کریں تو غایت درجہ احتیاط
سے کام لیں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آپ کے طرزعمل سے ان کی تضحیک و
تذلیل نہ ہوتی ہو۔انھیں تنہائی میں تنبیہ کریں۔انھیں اپنی بات رکھنے کا
موقع دیں تاکہ آپ کو ان کے مسائل سے آگہی حاصل ہو۔مسائل کی روشنی میں مثبت
متبادل رویوں سے طلبہ کو روشناس کریں جس سے وہ اپنی غلطی کی خود اصلاح کرنے
کے لائق ہوسکیں۔
خود پر قابو و انضباط ذات(Self Control and Self Discipline)
کوئی بھی ڈسپلن(نظم وضبط) اور قانون اتنا موثراور دیر پا نہیں ہوتا جتناکہ
وہ ڈسپلن اور ضوابط جو کوئی شخص جنہیں وہ خود اپنی ذات پر نافذکرتا ہے۔نظم
و ضبط دراصل خود پر قابوپانے،شخصی عزائم وارادہ اوراپنی فکر وعمل کو درست
سمت دینے کا نام ہے۔اپنی ذات پر قابو اور کنٹرول متعدد تجربات اور زندگی کے
نشیب و فراز کے احساس و ادراک سے تدریجاً حاصل ہوتا ہے۔آج کل اساتذہ کی ایک
کثیر تعدادخود کو مثبت نظم و ضبط کے اصول و قواعد سے آراستہ کررہی ہے جس کی
وجہ سے طلبہ میں خودانضباطی کااحساس فروغ پارہا ہے۔
موقع محل کی مناسبت سے طلبہ کو اس طرح چابکدستی سے رہنمائی اور تربیت فراہم
کی جانی چا ہئے کہ وہ اپنے طرز عمل پر خود سے قابو رکھ سکیں۔اپنی منشاو
مرضی سے یا پھربلاارادہ بے ساختہ ان سے مثبت و بہتر برتاؤ کا اظہار ہونے
لگے۔جب طلبہ اس طرح نظم و ضبط(ڈسپلن) کے مالک ہوجاتے ہیں تواساتذہ کے لئے
آسان ہوجاتا ہے کہ وہ انھیں کچھ ذمہ داریاں تفویض کریں۔طلبہ جب دوسروں کے
گمراہ کن محرکات و ترغیبات کا اثر قبول کئے بغیرکسی کاروائی یا ردعمل پر
درست فیصلہ لینے لگتے ہیں تب ان میں بالغ نظری اور پختگی راسخ ہونے لگتی
ہے۔
طلبہ میں ہمیشہ متحرک و فعال رہنے والا جذبہ خودانضباط نہ صرف کمرۂ جماعت
کے مسائل کو کم کردیتا ہے بلکہ تدریسی ماحول کی برقراری میں بھی مددگار
ہوتا ہے۔خود انضباط جیسے عظیم فن میں مہارت کے حصول کے لئے اپنی ذات اورنفس
پر قابو اور اس پر عمل پیرا رہنے کے لئے مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہوتی
ہے۔اگرچیکہ خودانضباط کا جذبہ نوجوانی اورعنفوان شباب میں کسی قدر کمزور
ہوتا ہے لیکن اس کے استحکام کے لئے اولین شرط نوجوانوں کو مسائل سے دور
رکھنا ہے۔سماج سے بہتر مطابقت رکھنے والے افر اد کی تیاری کے لئے طلبہ میں
خودانضباط کو فروغ دینے والے درکار وسائل،ہدایات اور خدمات کی فراہمی کو
یقینی بنانا ضروری ہے۔طلبہ کو انفرادی اور اجتماعی (گروہی)طورپر موزوں ذمہ
داریاں تفویض کرنے سے نظم و ضبط کے بہت سارے مسائل اور دشواریوں کو حل کیا
جاسکتا ہے اور اس طریقہ کار سے طلبہ میں خودانضباط(Self Discipline)کے جذبے
کو بتدریج آہستہ آہستہ فروغ ملتا ہے۔ اکتسابی ماحول کے دوران وقو ع پذیر
واقعات و تجربات اور طلبہ میں نظم و ضبط کو پروان چڑھانے کے تیئں اساتذہ کی
دلچسپی بچوں کو سلف ڈسپلن کی جانب راغب کرنے کا حوصلہ و ہمت فراہم کرتی ہے۔
نظم و ضبط اور مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے تمام دستیاب مواقع اور وسائل سے
زیادہ سے زیادہ اور بروقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ڈسپلن کا سب سے اہم
فائدہ یہ ہے کہ انسان کے اندر بہت سی مفید اورکارآمد عادتیں پیدا ہوجاتی
ہیں جن کی بدولت وہ ہرکام بآسانی اور سہولت کے ساتھ احسن طریقے سے سر انجام
دے سکتا ہے۔نظم و ضبط سے انسانی زندگی اور اس کی پسندیدہ روش کو چار چاند
لگ جاتے ہیں اور آدمی زندگی کی دوڑ میں ان لوگوں پر سبقت حاصل کرلیتا ہے جو
اپنی زندگی اور کام میں منصوبہ بندی اور نظم و ضبط کا خیال نہیں رکھتے
ہیں۔انسانی زندگی کی بیشتر پریشانیاں ،محرومیاں ،ناکامیاں اور نامرادیاں
نظم و ضبط کے فقدان کا نتیجہ ہی ہوتی ہیں۔انفرادی و اجتماعی رویوں میں نظم
و ضبط انسان کی فکری تنظیم کا مظہر ہوتی ہے۔آدمی کے جب سب کام منظم و مربوط
ہوجائیں تو اس کی فکر میں ایک خاص نظم و ضبط پیدا ہوجاتا ہے۔انسان میں جب
نظم و ضبط جیسی قیمتی صفت پیدا ہوجاتی ہے تو وہ ترقی اور کمال کے زینے
باآسانی طئے کرنے لگتا ہے۔اگر طلبہ اپنی زندگی ،افعال و کردار میں نظم و
ضبط پیدا کرلیں تو ان کی فکربھی منظم ہوجائے گی اور جب فکر منظم ہوجاتی ہے
تو انسان خدا کے فکری نظام کا عکاس بن جاتا ہے۔
|