رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،
علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ (دینی) علم اٹھ جائے گا اور جہل ہی جہل ظاہر
ہو جائے گا۔ اور (علانیہ) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔
زنا کاری ایک قبیح فعل ہے اس سے معاشرے کا امن و سکون برباد ہوتا ہے اور
معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں اور ناقبل فراموش
سانحات رونما ہوتے ہیں۔ یہ گناہ بظاہر تو بڑا گناہ نظر نہیں آتا مگر اس کے
معاشرے پر انمٹ اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پھر معاشرہ اپنے زوال کا سفر شروع
کرتا ہے، لڑائیاں اور جھگڑے پھیلتے ہیں، فساد برپا ہوتے ہیں، لوگوں کی
جانوں کا ضیاء ہوتا ہے اور بلآخر خاندانوں کے خاندان اس جرم کی سزا کاٹتے
ہیں۔ اگر تاریخ اٹھا کر یا اپنے معاشرے کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ
معاشرہ اس طرح کے واقعات و سانحات سے بھرا پڑا ہے۔ جابجا اس کبیرہ گناہ کے
عنصر پائے جاتے ہیں، بلکہ دور جدید میں تو زناکاری پھیلتی ہی جارہی ہے۔ اور
پھر اس معاشرے میں رونما ہونے والے اور دل دہلا دینے والے واقعات سے کون
ناواقف ہے۔ زناکاری کسی بھی ہنستے مسکراتے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیتی ہے،
اس شر کے باعث فریقین میں سے بچت کسی کی نہیں ہوتی اور بھاری نقصان اٹھانا
پڑتا ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو
نماز پڑھائی۔ پہلے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک کھڑے رہے،
قیام کے بعد رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے۔ پھر رکوع سے اٹھنے کے
بعد دیر تک دوبارہ کھڑے رہے لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہلے قیام سے کچھ
کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر، پھر سجدہ
میں گئے اور دیر تک سجدہ کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے اسی طرح کیا، جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو گرہن کھل
چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اﷲ تعالیٰ کی حمد و
ثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اﷲ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی
موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اﷲ سے
دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا اے محمد کی امت کے لوگو! دیکھو اس بات پر اﷲ تعالیٰ سے زیادہ غیرت
اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے، اے امت محمد! واﷲ
جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہو جائے تو تم ہنستے کم اور روتے
زیادہ۔
اس واقعہ سے ہم بہتر انداز میں زناکاری کے اثرات کا جائزہ لے سکتے ہیں، اور
اس کبیرہ گناہ سے ہونے والے واقعات کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کس
قدر اثرات ہمارے معاشرے پر مرتب ہوسکتے ہیں اور انسانی زندگی اس قبیح فعل
سے کس قدر متاثر ہوسکتی ہے۔
دور حاضر میں زناکاری بہت آسان ہوچکی ہے، اور زناکاری کے سحر میں ہر کوئی
گرفتار ہورہا ہے۔ جس طرح سے ہمارے معاشرے میں ذرائع مواصلات ترقی کی جانب
گامزن ہیں اسی طرح ہمارے معاشرے میں زنا جیسی بدکاری بڑھتی چلی جارہی ہے۔
اور اس گناہ کبیرہ میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ جکڑے جارہے
ہیں اور زناکاری ہر ایک کو اپنے سحر میں جکڑنے کے لیے اپنے پھن پھیلائے
بیٹھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں زناکاری سے مرتب شدہ واقعات کی بڑی مثالیں،
واقعہ قصور، واقعہ چونیاں اور معصوم بچیوں سے بدکاری کے بعد قتل کے واقعات
ہم سب کے سامنے ہیں۔ اور پھر یہ قصہ یہیں مختصر نہیں اس جرم کے پس پردہ اور
بڑی بڑی جرائم کی وارداتیں موجود ہیں۔
اگر کوئی زناکاری جیسے قبیح فعل کا مرتکب ہوچکا ہو تو اسے اﷲ سے معافی مانگ
لینی چاہیے ہے اور صدق دل سے توبہ کرلینی چاہیے ہے، شاید اﷲ اس شخص پر رحم
والا معاملہ فرما دیں وگرنہ زنا کاری کی سزا انتہائی سخت ہے۔ مگر اﷲ تعالی
غفور الرحیم ہے۔ اور جو شخص زناکاری کے بارے جان کر بھی اس فعل کو نہیں
روکتا اپنے قرب و جوار کے لوگوں میں تو ایسے شخص کو دیوث قرار دیا گیا ہے۔
لہذا ہمیں اس معاملے میں احتیاط کرنے چاہیے وگرنہ ہمارا نام بھی کہیں
دیوثوں میں نہ لکھ دیا جائے۔
زنا اس قدر برا فعل ہے کہ جس قوم میں یہ برائی عام ہوجائے اﷲ پاک اس قوم ہر
قحط سالی کی شکل میں عذاب نازل کردیتا ہے۔
عمر بن عاص بیانؓ کرتے ہیں کہ،
میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس قوم میں زنا عام
ہوجائے وہ قحط سالی کا شکار ہوجاتی ہے۔
نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم اور رب واحد کے احکامات پر چلنے میں ہی ہم سب کی
بھلائی ہے وگرنہ ایک بہت بڑا عذاب ہم سب کے تعاقب میں ہے۔
|