ـگزشتہ روز پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور
پر وکلاء کی جانب سے پرتشددحملے کا دلخراش واقعہ پیش آیا۔ اس حملے میں کئی
افراد زخمی ہوئے اور افراتفری کی صورت حال پیدا ہونے کی وجہ سے کئی مریض
جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔اس سارے واقعے کی اصل وجہ گزشتہ ماہ اسی ہسپتال میں
ہونے والی چند وکلاء اور ڈاکٹرز کی لڑائی تھی جس میں ڈاکٹرز اور پیرا
میڈیکل اسٹاف کی جانب سے نہتے وکلاء کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا
تھا۔ اس لڑائی کے بعد وکلاء نے ایف آئی آربھی درج کروائی اور ملزمان کی عدم
گرفتاری پر کئی احتجاج بھی کیے لیکن چند دن ڈاکٹرز کی جانب سے غیر مشروط
معافی سے ان دونوں فریقین میں صلح ہوگئی تھی جس سے یہ مسئلہ بظاہر ختم
ہوگیا تھا مگر صلح کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اپلوڈ ہوئی جس میں ایک
ڈاکٹرکچھ پیرامیڈیکل اسٹاف کے درمیان کھڑا ہوکر وکلاء کی تضحیک کرتے ہوئے
اپنی بہادری کے قصے سنا رہا تھا اور باقی اسٹاف بہت خوش ہورہا تھا۔یہ ویڈیو
سوشل میڈیا پروائرل ہوئی اور متاثرہ وکلاء تک پہنچی جس سے وکلاء میں مسلسل
اشتعال بڑھ رہاتھا۔ حملہ سے ایک دن پہلے بار کے الیکشن کمپین کی میٹنگ میں
وکلاء نے اپنی طاقت دیکھانے اور ڈاکٹرکو سبق سکھانے کیلئے پنجاب انسٹی ٹیوٹ
آف ٹیکنالوجی جانے کا فیصلہ کیااور پھر پلان کے مطابق اگلے دن وکلاء ہسپتال
پہنچے۔ہسپتال کے باہر ایف آئی آر میں نامزد ڈاکٹر کی گرفتاری کیلئے احتجاج
شروع کیا اسی دوران کچھ وکلاء گیٹ پر کھڑے پولیس اہلکاروں کو دھکا دے کر
ہسپتال میں ایسے ٹوٹ پڑے جیسے بھوکے شیر شکار پر۔ہسپتال میں داخل ہوتے ہی
دروازے کھڑکیوں، گملوں کی توڑ پھوڑ شروع کردی اورجو ڈاکٹریاپیرامیڈیکل
اسٹاف نظر آیا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔وکلاء نے مریضوں کو بھی نہیں
بخشاانکے بھی وینٹی لیٹر ہٹا دیے ۔جب لڑائی ڈاکٹرز کے ساتھ تھی اس میں
موجود مریضوں کا کیا قصور تھا ان کے ماسک بھی اتارے اور آپریشن رکوا کر
انہیں موت کی وادی میں دھکیلنے کی سرمناک کوشش کی گئی۔ بھلا ان مریضوں نے
وکلاء کی شان میں کوئی گستاخی کی تھی ۔اپنی بہادری اور اتحاد کا اظہار کرنے
کیلئے صرف ہسپتال کے مجبور اور لاچار مریض ملے تھے جن کو پہلے ہی دُکھوں
اور تکالیف نے زندگی سے بیزار کیا ہوا ہے۔ وکلاء نے اپنے اتحاد اور بہادری
کا اظہار صرف ہسپتال کی املاک اور مریضوں پر ہی نہیں کیا بلکہ انکے لواحقین،
راہگیروں ،میڈیا نمائندگان پر تشدد کرکے بھی کیا ۔معاشرے کے ایسے طبقے سے
اس طرح کے فعل کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی لیکن انہوں نے جو کیا ہے ایسا
پاکستان کی تاریخ شاید پہلی بار ہی ہواہے۔اس طرح کا کام کرتے ہوئے حیوانیت
بھی شرماجائے جسے وکلاء نے بڑے حوصلے اور عزم کے ساتھ کیا ۔انہوں نے اس
ساری توڑ پھوڑ کے بعد اپنی جیت کا جشن بھی منایا اور ہوائی فائرنگ کرتے
ہوئے وکلاء زندہ ہیں وکلاء زندہ ہیں کے فلک شگاف نعرے بھی لگائے لیکن
درحقیقت صرف وکلاء ہی زندہ تھے مگر ان کے ضمیر مردہ ہوچکے تھے ۔نہایت افسوس
ناک بات یہ ہے کہ انسان جذبات اور اشتعال میں بہت کچھ کر گزرتا ہے لیکن بعد
میں اس کو اپنے کیے پر ندامت اور شرمندگی ہوتی ہے لیکن ان وکلاء نے تو
ڈھٹائی کی انتہا ہی کردی ایک ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کی جس کی کوئی مثال
نہیں اور بعد میں ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے ڈاکٹرز کی گرفتاری کا مطالبہ
کردیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بار کے صدر اس واقعہ کی مذمت کرتے اورایسے
ظالموں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ جنہوں قانون شکنی کی ۔مگر
بدقسمتی سے اس دن سے آج تک کثرت سے وکلاء اس بدمعاشی اور دہشت گردی کو
ڈیفینڈ کرتے ہوئے وضاحتیں اور دلائل دے رہے ہیں اورملک بھر کے کئی شہروں
میں وکلاء نے اپنی کمیونٹی کے حق میں احتجاج بھی کیا۔جس سے احساس ہوتا ہے
کہ اس شدت پسندانہ سوچ کے حامل افراد صرف دو چار ہی نہیں ہزاروں میں موجود
ہیں جو ان ظالم وکلاء کے ہم خیال ہیں ۔یہ افسوس ناک امر ہے کہ وکلاء معاشرے
کا ایک پڑھا لکھا اور سمجھدارطبقہ ہونے کے باوجود ظالموں کے ساتھ ہے یہ وقت
اپنی کمیونٹی کو سپورٹ کرنے کا نہیں بلکہ اپنے اندر موجود ظالموں کو علیحدہ
کرنے کا ہے۔یاد رہے اس سارے واقعہ میں صرف وکلاء ہی قصور وار نہیں اس جرم
میں وہ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف بھی شامل ہے جنہوں نے پہل کرتے ہوئے
علاج معالجہ کی غرض سے آئے نہتے وکلاء پر تشدد کیا اور ان کا بعد میں تمسخر
اُڑایاجس سے وکلاء میں اشتعال پھیلا ۔دونوں فریقین نے اپنے فعل سے پڑھے
لکھے جاہل ہونے کا ثبوت دیا اور انتہائی بدتہذیبی اور اخلاقی پستی کا
مظاہرہ کیاجس کی کوئی ان سے امید بھی نہیں کرسکتا تھا۔چند شدت پسند عناصر
کی وجہ سے ان پیشوں سے جڑے دیگر معزز افرادکے سربھی شرم سے جھک گئے ہیں وہ
موقف دینے میں بھی شرم محسوس کررہے ہیں۔ یہ بد تہذیب اپنا گھناؤناکھیل کھیل
چکے ہیں مگرحکومت کی جانب سے کوئی سخت ایکشن نظر نہیں آیا اور کچھ وکلاء کو
ہی گرفتار کیاگیا ہے اور ڈاکٹرز کو حکومتی ہمدردی حاصل ہے لیکن ایسا نہیں
ہونا چاہیے اس واقعہ میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف بھی ذمہ دار ہے ۔
حکومت کواس سانحہ کے تمام مجرموں ڈاکٹرزاور وکلاء کو نشان عبرت بنادینا
چاہیے تاکہ آئندہ ایسا کام کرنے کا کوئی سوچ بھی نہ سکے اگر ایسا نا کیا
گیا اور مٹی پاؤ کی پالیسی اختیار کی گئی تو جلد اس طرح کے اشتعال ،بدتہذیبی
اورقانون شکنی کا ایک سیلاب بہت تیزی سے ملک میں تباہی مچا دے گا جسے
کنٹرول کرنا ناممکن ہوگا۔
|