قادرالکلام شاعر،عظیم صوفی بزرگ، مجاہدِ تحریکِ آزادی،
اکابر علماے ربانیین کے پیر و مرشد، حاجی امداداﷲ مہاجرِ مکی رحمہ اﷲ کی
ذات اہلِ علم و دانش، خصوصاً دینی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ
کی دس تصنیفات یکجا’کلیاتِ امدادیہ‘ کے نام سے بار بار شایع ہوتی رہی ہیں،
جن میں ’ضیاء القلوب‘،’فیصلہ ہفت مسئلہ‘،’ارشادِ مرشد‘منثور اور’مثنوی تحفۃ
العشاق‘،’غذاے روح‘،’گلزارِ معرفت‘،’جہادِ اکبر‘،’نالۂ امدادِ غریب‘
اور’دردِ غم ناک‘منظوم ہیں۔حاجی صاحب نے ایک طرف جہاں علم وعرفان اور رشد
وہدایت کا جہان آباد کیا، وہیں اپنی صوفیانہ شاعری سے مئے محبت کے جام بھی
لٹائے ۔انھیں مکتبِ دیوبند میں شعر و ادب کے باب میں وہی مقام حاصل ہے جو
انسانوں میں حضرت آدمؑ اور اردو زبان و ادب میں ولیؔ دکنی کو۔ پروفیسر
انوارالحسن انور شیرکوٹیکے بقول’حاجی امداد اﷲ صاحب شعرا وعلماے دارالعلوم
دیوبند کے ولیؔیا باوا آدمؔتھے ۔ ان کو اردو اور فارسی دونوں زبانوں کی
شاعری سے شوق و دل چسپی اور ذوق تھا‘۔
نام و نسب اور تاریخِ ولادت
حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی کی ولادت بروز شنبہ، 22 صفر کو1233ھ، مطابق 1817ء
میں قصبہ نانوتہ ضلع سہارنپور میں ہوئی۔ آپ کا نامِ نامی آپ کے والد مرحوم
’حافظ محمد امین‘نے ’امداد حسین‘ رکھاتھا، لیکن حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب
نبیرۂ شاہ عبدالعزیز صاحب نے آپ کو ’امداد اﷲ‘ لقب سے نوازا۔آپ کاتاریخی
نام ’ظفر احمد‘ ہے ۔حاجی صاحب کا سلسلۂ نسب حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے
ملتا ہے ۔
تعلیم و تربیت اور فیضِ عام
حاجی صاحب کی عمر ابھی فقط سات سال تھی کہ والدہ محترمہ انتقال کر گئیں اور
بہ وجہِ شفقت یہ وصیت کی کہ میرے بعد اس بچّے کو کوئی ہاتھ نہ لگائے ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی تعلیم وغیرہ کا کوئی خاص اہتمام نہ کیا جا سکا،البتہ
آپ نے 1258ھ میں خود اپنے شوق سے قرآن مجیدچند دنوں میں حفظ کر لیا۔ سولہ
سال کی عمر میں مولانا مملوک علی صاحب کے ہم راہ دہلی کا سفر کیا اور فارسی
کی مختصر کتابوں کے ساتھ ساتھ صرف و نحو پر عبور حاصل کیا۔ اسی دوران
مولانا رحمت علی تھانوی سے ’تکمیل الایمان‘ اور شیخ عبدالحق دہلوی کی قرات
اخذ فرمائی۔ابھی تک علومِ ظاہری سے فراغت نہ ہوئی تھی کہ آپ کے دل میں
خداطلبی کا ولولہ موجزن ہوا اور آپ فقط اٹھارہ سال کی عمر میں مولانا نصیر
الدین صاحب نقشبندی مجددی دہلوی کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے ۔ان کے انتقال کے
بعد مولانا میاں جی نور محمد جھنجھانوی سے بیعت کی اورہر دو سے خرقۂ خلافت
سے سرفراز ہوئے ۔ اس طرح آپ کی ظاہری تعلیم گو کہ زیادہ نہ ہوئی لیکن آپ کے
باطنی اور لدنّی علوم کے سبب بڑے بڑے علما و صلحا آپ کے مرید و خلیفہ ہوئے
۔ حاجی صاحب کے سلسلے میں ہندستان، پاکستان، بنگلہ دیش ہی نہیں، حجاز، شام،
عراق، ترکی، مصر اور مراقش کے علما اور درویش بھی وابستہ تھے ۔ ہندستان میں
مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا محمد یعقوب
نانوتوی، مولانا ذوالفقار دیوبندی، مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا خلیل
احمد سہارنپوری اور مولانا اشرف علی تھانوی جیسے کبار علما آپ ہی کے ارادت
مند ہیں۔ایک بار کسی نے مولانا تھانوی سے پوچھا کہ حضرت حاجی صاحب کے پاس
ایسا کیا ہے جو علما کے پاس نہیں کہ وہاں جاتے ہیں۔ مولانا موصوف نے جواب
دیا’ہمارے پاس الفاظ ہیں اور وہاں معانی ہیں‘۔ صاحبِ ’گلِ رعنا‘ مولان عبد
الحیی نے اپنی مشہور عربی تصنیف ’نزہۃ الخواطر‘ میں بھی حاجی صاحب کی خدمات
کا اعتراف نہایت احترام کے ساتھ کیا ہے ۔
شعری سرمایہ
حاجی صاحب نے متعدد شعری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ۔ حمد، مناجات،
نعت،منقبت،قصیدہ ،مرثیہ،غزل، مثنوی، مثلث، رباعی اور مخمس تمام اصناف میں
آپ کا کلام موجود ہے ۔بقول مرتبِ’گلزار معرفت‘:’حضرت پیر و مرشد کا کلام
منظوم اس کثرت سے ہے کہ اس کا احصا اور ضبط دشوار ہے ، اس لیے آپ کے اشعار
کی کوئی حتمی تعداد بیان کرنا ہمہ شما کے بس سے باہر ہے ۔۔ ۔ تاہم محققین
نے اس سلسلے میں جو تحقیق پیش کی ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اردو
اشعار کی کل تعداد 5995، فارسی اشعار93 اور مجموعی تعداد 6088 ہے
‘۔[ماہنامہ دارالعلوم]
حاجی صاحب اپنے شعر گوئی کے متعلق فرماتے ہیں
ہے نہ یہ شعر و غزل ہے اپنی مجذوبانہ بڑ
بڑ نہیں یہ مشق کو کرتے ہیں کچھ ارشاد ہم
ڈر ہے کیا فوجِ گنہ سے ، ہے خدابخش اپنا نام
اور تجھ پر رکھتے ہیں اﷲ کی امداد ہم
’گلزار معرفت‘کی ایک غزل میں فرماتے ہیں
ہم نہ شاعر ہیں، نہ ملا ہیں، نہ عالم ہیں ولے
رکھتے ہیں ہر باب میں اﷲ سے امداد ہم
اے خدابخش اس زمین میں لکھ غزل اک اور تو
تا کہ جانیں شعر گوئی میں تجھے استاذ ہم
(۱) حاشیہ مثنوی مولانا روم
حاجی صاحب کو مولانا رومؔ کے کلامِ معرفت سے والہانہ لگاؤ تھا۔ آپ نے مثنوی
منشی عبد الرزاق صاحب جھنجھانوی سے سبقاً پڑھی تھی، اور منشی صاحب مثنوی کے
دفترِ ہفتم کے مصنف یعنی خاتمِ مثنوی حضرت مفتی الٰہی بخش صاحب نشاطؔ
کاندھلوی کے صاحب زادے مولانا ابوالحسن کاندھلوی کے شاگرد تھے ۔حاجی صاحب
نے فارسی زبان میں اس پر حاشیہ لکھا، جو اپنے آپ میں ایک بڑا کارنامہ ہے
۔آپ کی حیات میں اس کے صرف دو حصّے طبع ہو سکے ۔ بعد میں مولانا اشرف علی
تھانوی نے اس میں مزید تشریحات کا اضافہ کرکے مکمل مثنوی کو تقریباً تیس
جلدوں میں بنام’کلیدِ مثنوی‘ شایع کیا۔
(۲) غذائے روح
تعلیم و تلقین کے لیے اس مثنوی میں قصص و حکایات سے مدد لی گئی ہے ۔اول حمد
و نعت اور خلفاے راشدین کی منقبت ہے ، پھر اپنے پیر و مرشد حافظ نور محمد
جھنجھانوی کا ذکرِ خیر کیا ہے ۔بعدہ عنوان کی مناسبت سے غذاے روح کو موضوعِ
سخن بناکر سیر حاصل بحث کی ہے ۔یہ تصنیف 85 صفحات کو محیط ہے ، جس میں
تقریباً 1600اشعار ہیں۔سنِ تحریر اور نامِ تصنیف کو شعر میں اس طرح نظم کیا
ہے
سالِ ہجری بھی ہوا جب ختم یار
یک ہزار دو صد و شصت و چہار
جب ہوئی یہ مثنوی یارو تمام
رکھ دیا اس کا غذاے روح نام
(۳) تحفۃ العشاق
یہ مثنوی عشقِ حقیقی اور معرفت سے لبریز ہے ۔ اس میں عاشقانِ الٰہی کے لیے
ایسے عمدہ مضامین بیان کیے گئے ہیں جن سے خدا کی معرفت کے حصول کا طریق
معلوم ہو۔یہ کتاب 65 صفحات کو محیط ہے ،جس میں شامل اشعار کی تعداد تقریباً
1324 ہے ۔ تاریخِ تصنیف اس طرح موزوں کی ہے
بارہ سو تھے اور اکاسی سالِ ہجر
ہو چکا جب حضرت تحفہ کا ذکر
ہو چکی جب مثنوی تحفہ تمام
تحفۃ العشاق رکھا اس کا نام
(۴) گلزارِ معرفت
یہ حاجی صاحب کے اردو و فارسی کلام کا مجموعہ ہے ، جس کے جامع و مرتب آپ کے
ایک مرید ’میاں نیاز احمد‘ ہیں۔ 33 صفحات کو محیط اس کتاب میں 319 اشعار
زبانِ اردو اور 93اشعار زبانِ فارسی میں ہیں۔اس میں حمد، نعت کے علاوہ بعض
غزلیات اور مدینہ منورہ میں قیام پذیری کے شوق و جذبات پر مبنی اشعار شامل
کیے گئے ہیں۔نمونہ ملاحظہ ہو
ہے بڑا اچھا جو سمجھے آپ کو
اور بالا سب پہ کھینچے آپ کو
مردمِ دیدہ سے سیکھ امدادؔ تو
سب کو دیکھے اور نہ دیکھے آپ کو
(۵) جہاد اکبرمع نالۂ امدادِ غریب
’جہادِ اکبر‘کسی غیر معلوم شخص کی فارسی تصنیف کا منظوم ترجمہ ہے ، جس میں
اصلاحِ نفس کو موضوع بنایا گیا ہے ۔اس کا نام ’جہادِاکبر‘ اس لیے تجویز کیا
گیا کہ حدیث کے مطابق سرحد پر جنگ کے مقابلے میں نفس سے جہاد کرنا اکبر ہے
۔ اس کا سنِ تصنیف 1268ھ ہے ۔اس میں کل 36 صفحات اور 679 اشعار ہیں۔ مزید
12صفحات کو محیط ایک منظوم رسالہ بنام ’نالۂ امدادِ غریب‘ اس کے ساتھ منسلک
ہے ، جس میں ایک رباعی کے بعد، ایک مثنوی، ایک غزل اور پانچ مناجاتیں
ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں
بیاں اب یہ حال اپنا کرتا ہوں میں
کہ جس فکر میں روز مرتا ہوں میں
مجھے آ گیا جو خیال ایک رات
لگا سوچنے اپنے دل میں یہ بات
کہ افسوس غفلت میں جاتی ہے عمر
سدا کوس رحلت بجاتی ہے عمر
مجھے فکر کل کی ہوئی آج یوں
کہ کی دولتِ عمر برباد کیوں
نہ سویا شب اس فکر میں ایک دم
رہا رات بھر اس سے میں چشمِ نم
اسی میں گئی رات ساری گزر
شش و پنج کرتا رہا تا سحر
کہا نفس کو آخرش میں نے رات
کہ کیا ہو گیا تجھ کو اے بد صفات
خبر حال کی تجھ کو اپنے نہیں
کہ آیا تھا یاں کس لیے اے لعیں
بتا تجھ سے کیا حق کو منظور تھا
یہاں آکے کیا کام تو نے کیا
(۶) دردنامۂ غم ناک
دس صفحے کی اس مثنوی میں 175 اشعار ہیں۔ اس میں بھی حسبِ عادت جذبۂ عشقِ
حقیقی کا موثر بیان ہے ۔ابتدائی چند اشعار ملاحظہ ہوں
سنو یارو عجب قصہ ہمارا
بیاں کرتا ہوں میں جو غم کا مارا
سناتا ہوں تمھیں اس کو سراسر
گزرتا ہے جو کچھ اب میری جاں پر
گزرتا ہے جو مجھ پر ان دنوں حال
نہ تھا کچھ اس سے پہلے غم کا جنجال
پڑا سوتا تھا میں خوابِ عدم میں
نہ تھا کچھ مبتلا ہستی کے غم میں
٭٭٭٭
|