تحریر: طارق جاوید سیال
شاہ زیب نے ایک انتہائی غریب گھر میں آنکھ کھولی، بچپن سے لاابالی طبیعت
اور مزاج رکھتا تھا، پڑھائی میں بہت اچھا، ہمیشہ اول نمبر ہی حاصل کیا، وقت
کی تیز رفتاری میں اس نے نویں جماعت اچھے نمبروں سے پاس کی اور بری صحبت کا
شکار ہوا کسی نے توجہ بھی نہ دی، پورا سال سکول کا منہ تک نہ دیکھا، میٹرک
کے امتحان آئے تو ٹیچر نے داخلہ نہ بھیجا، والد کے ایک خیر خواہ نے بڑی
مشکل سے پرائیویٹ داخلہ بھیجا اور شاہ زیب کو نصیحتیں کیں، لیکن وہ اپنے
مزاج کا غلام تھا، کھیل کود اور دوسری منفی سرگرمیوں میں مصروف رہا،
امتحانات دیے، تعلیم میں اچھا تھا سو آسانی سے پاس ہوگیا، اب اگلہ مرحلہ
مزید تعلیم کا تھا، غربت ابھی تک اس کے گھر پر راج کر رہی تھی، بڑی مشکل سے
کالج میں داخلہ ہوا ابھی پہلے سال میں ہی تھا کہ والد کو ہارٹ اٹیک آگیا،
لیکن اﷲ تعالیٰ کے کرم سے علاج کے بعد جانبر ہوگئے، اور بستر کے ہو کے رہ
گئے، شاہ زیب گھر کا بڑا تھا اس سے دو چھوٹی بہنیں اور ایک بھائی اب اس کی
ذمہ داری تھے، اس نے اپنے کیرئیر کی قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور مزید
تعلیم حاصل کرنے کے خواب کو وہیں دفن کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرنے میں
لگ گیا، پہلے مزدوری کی، پھر چھوٹی موٹی پرائیویٹ نوکریاں کی، ایک سال بعد
بیمار باپ سے دوسرے دل کے دورے نے زندگی کی سانسیں چھین لیں، باپ کے صحت
یاب ہونے کی امید بھی ان کے ساتھ دفن ہوگئی۔
یہاں تک تو قدرت نے شاہ زیب کے ساتھ خوب کھیل کھیلا تھا لیکن اس کے بعد جو
راہ عمل اس نے اپنایا وہ تھوڑا اس کے اپنے مزاج سے بھی ہٹ کر تھا، وہ خود
کو بھول بیٹھا، مسلسل رات دن محنت کرکے خاندان کی کفالت اور ان کی خواہشات
کی تکمیل میں محو ہوگیا، چھ سال کے اندر اس نے دونوں چھوٹی بہنوں کی شادی
کر دی، وہ ابھی بائیس سال کا ہی تھا کہ اماں نے اپنی مرضی سے اس کی بھی
شادی کر دی، وہ سر خم تسلیم والی مثل کے مطابق وہی کچھ کرنے لگا جو اس کے
خاندان کا فیصلہ تھا، خاندانی محبت کے آگے اس نے اپنی ذاتی خواہشات و
محبتوں کا گلہ گھونٹ دیا، جس نے بھی اس سے تھوڑی سی محبت کا دم بھرا تو وہ
اس پر قربان ہوجانے پر تیار ہوجاتا، دوستوں کا طرزِ عمل بھی وہی تھا جو اس
کے خاندان کا تھا کہ ہر مشکل وقت میں شاہزیب کو یاد کرتے، وقت گزرتا رہا
گھر اور دوستوں کی ضروریات اور توقعات بڑھتی گئیں اور ان کو مکمل کرنے میں
رات دن محنت کرنے لگا، اس کی اپنی اولاد نہ ہوئی لیکن وہ پھر بھی خوش تھا
کہ تیس سال کی عمر تک جاتے جاتے وہ پچاس سال کے ایک بوڑھے انسان کی شبیہ بن
گیا، یہ پندرہ سال کا سفر اس کے لیے شاید صدیوں کا تھا، وہ مختلف بیماریوں
کا شکار بھی ہوگیا، اس دوران خود سے بے نیاز اپنے آپ کو خاندان کے لیے وقف
کر دیا تھا، اﷲ اس پر مہربان ہوا اس کے آنگن میں رحمت نازل کی، حیرت انگیز
طور پر اس پچھلے پندرہ سالوں میں اس کی جھولی میں آنے والی اس پہلی خوشی پر
خاندان سمیت کسی دوست نے مبارکباد تک نہ دی جن دوستوں کی شادی کرنے کے ساتھ
ساتھ ان کے بچوں کے لیے تحائف اور مبارک بادیں دی، وہ جن کی محبت میں خود
سے محبت کرنا بھول بیٹھا تھا ان کا یہ رویہ حیران کن تھا۔ اس نے پھر سے
پڑھائی شروع کی کام کے ساتھ ساتھ وہ پڑھتے پڑھتے ڈبل ایم اے کر گیا، انہی
سالوں میں اس کے گھر اﷲ نے بیٹا بھیجا، اس دوران اپنے چھوٹے بھائی کی مرضی
اور خواہش کے مطابق شادی کی، بہت زیادہ خرچ کیا، زندگی کی پینتیس بہاریں
دیکھتے ہی وہ ذہنی اور جسمانی توانائی سے محروم ہونے لگا، پھر اسے چھوٹے
اور معصوم بچوں کی فکر لگی تو دوستوں کے ساتھ ساتھ سب سے پہلے اس کے اپنے
بھائی نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔شاید وہ جان چکا تھا اب بھائی بوڑھا ہو گیا
یا پھر بچوں کی جانب توجہ نے ان کا دل کٹھا کر دیا تھا۔
پینتیس سال کے بوڑھا اب جسمانی اور ذہنی لحاظ سے ساٹھ سال کے قریب جا پہنچا
تھا، اس کے دو چھوٹے بچے ہیں اور ساتھ کوئی بھی نہیں، جن کی محبت میں وہ
اپنے آپ سے محبت کرنا بھلا بیٹھا تھا وہی اسے چھوڑ کر چلے گئے۔ بظاہر یہ
ایک افسانہ سا لگتا ہے لیکن یہی افسانہ ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے، میں
سمجھتا ہوں کہ آپ حالات کے تقاضوں کے ساتھ ضرور چلیں پر خود سے محبت کرنا
نہ چھوڑیں، شاہ زیب کی طرح ہم میں سے بہت سے ایسے لوگ ایسے ہی مقام پر کھڑے
ہیں، جہاں ان کے پاس کوئی نعم البدل نہیں، آپ دوسروں کے ساتھ اپنے آپ سے
بھی شدید محبت کریں، زندگی گزارنے یا زندہ رہنے کا فن ایک شعوری انتخاب
درکار رکھتا ہے، یہ لاشعوری طور پر ادھر ادھر پھرنے کا نام ہر گز نہیں، ہم
مثبت احساسات کے ساتھ اپنے وجود کی پرورش کریں تو سب سے زیادہ مناسب ہے،
کیونکہ یہ زندگی گزارنے کے فن کا مخفی راز ہے، آپ کو زندگی اس لیے عطا کی
گئی ہے کہ اس کو تخلیق کریں، آپ کو خوشی، جشن منانے اور شکر ادا کرنے کے
لیے زندگی عطا کی گئی ہے،جب زندگی مایوس یا ٹھہر جاتی ہے تو تب کون پروا
کرتا ہے، کون تردد کرتا ہے۔۔؟۔
خوش باش رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ پہلے خود سے محبت کرنا تسلیم کریں،
محبت کو شرف قبولیت بخشیں اور اپنے آپ سے محبت کرنے اور زندگی گزارنے کا
ہنر سیکھیں، جسے آپ تبدیل کر سکتے ہیں، تبدیل کریں، اور جسے آپ تبدیل نہیں
کرسکتے اسے ایک مختلف زاویہ سے دیکھیں،اس میں کسی قدر فوائد پنہاں ہوسکتے
ہیں،حتیٰ کہ کامیاب ترین لوگ بھی کمزوریوں کے حامل ہوتے ہیں،میرا یہ مطلب
ہر گز نہیں ہے کہ آپ کو اپنے برے نکات کو پسند کرنا چاہیے، یا خود غرض بن
جائیں بلکہ میں یہ کہتا ہوں آپ اپنے آپ کو بھی پسند کریں، جلد ہی خود کو آپ
پر سکون محسوس کریں گے،یہ اس وقت ممکن ہوگا جب آپ کے اندر ایک معجزہ رونما
ہوتا ہے، آپ کی وضع قطع تبدیل ہوتی ہے، ہر کوئی آپ کی ذہانت کو شرف قبولیت
بخشے گا……انہیں تسلیم کرے گا۔پھر آپ طمانیت سے بھرپور شخص ہوں گے۔ ہمیشہ
یاد رکھیں اور اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ آپ کبھی بھی اس قدر برے نہیں
ہیں جس قدر آپ کبھی کبھار سوچتے ہیں، اپنی طاقتوں کو سراہیں وہی کچھ کریں
جو آپ کو فٹ رکھتا ہے، اگر آپ کوئی کام کرنا نہیں چاہتے……آپ نہ کر دیں۔
اپنی ذات پر وقت اور روپیہ خرچ کرتے وقت اپنے آپ کو قصوروار تصور نہ کریں
ورنہ آپ بھی شاہ زیب کہ طرح مایوسی اور بیماری کی آماجگاہ بن جائیں گے۔شاہ
زیب کے ساتھ جو قسمت نے کھیل کھیلا وہ فطری تھا پر اس نے جو طرز عمل اپنایا
وہ تھوڑا فطرت سے ہٹ کر تھا۔ مختصر یہ کہ ہر وقت اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے
تیار رکھیں اور اپنے آپ سے بھی اتنا پیار کریں اور اہمیت دیں جتنا دوسروں
کو دیتے ہیں۔
|