وہ رات کو گھر واپس آ کر کھانا کھانے کے بعد
اکیلاٹی ۔وی کے سامنے بیٹھ کرایک طرف ٹی۔وی کے ریموٹ سے چینل تبدیل کر رہا
تھا اور دوسری طرف حیران ہو رہا تھا کہ ایسا کونسا تجسس ہے کہ سو سے زائد
چینل ہونے کے باوجود کسی چینل پر بھی اُسے اپنی مرضی کا کوئی پروگرام پسند
نہیں آرہا ہے۔ بلکہ یہ تو روزانہ کا معمول ہے۔صرف میرا ہی یہ حال نہیں جہاں
جاﺅ سب کا ۔۔۔کیا تلاش کرتے ہیں یا کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟اس دوران دن بھر
کی تھکاوٹ سے اُسکو اُنگھ آنے لگی تو وہ اُٹھا اور اپنے کمرے کی اُس میز
کُرسی کی طرف بڑھا جس پر بیٹھ کر وہ تعلیم حاصل کرتے کرتے علم کی تلاش کے
تابع ہونے کا خواہش مند ہو گیا۔ یعنی دماغی مشقت کی بجائے دِل کی طلب۔
پہلے وہ سوچنے لگا کہ کہ زندگی میں رُخ کی دُرستگی کی طرف جو بھی قدم
بڑھانے کی کوشش کی اُس میں مراحل مشکل ہی نظر آئے۔
اُس کو یاد آرہا تھا کہ دین و دُنیا کی تعلیم و تربیت کا آغاز تو کر دیا
گیا تھالیکن دُنیا میں جو جدیدیت کا دور دورہ ہو چکا تھا اُس کی لپٹ میں
آئے بغیر آگے بڑھنا ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے یادوں پر چھائے ہوئے
گہرے بادل چھٹنا چاہے تو آہستہ آہستہ پہلے بچپن کی بازگشت سُنائی دینے
لگی۔یہ کیسی آواز تھی ۔۔کیا الفاظ تھے ۔۔یار!کہیں بھول نہ جاﺅں ۔
لہذا اُس نے فوراً بال پوائنٹ پکڑا اور میز پر پڑے ایک فالتو رجسٹر کے ایک
دو صفحے اُلٹ پُلٹ کر ایک صفحے پر لکھتے ہوئے اپنی بکھری یادوں کواکٹھا
کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ ابھی چند الفاظ لکھے ہی تھے کہ خیالات نے نیا رُخ
اختیار کیا اور خواہش پیدا ہوئی کہ کیوں نہ ایک ڈائری ہی ترتیب دے دی جائے
۔۔یادوں کی ڈائری ۔۔نہیں ۔۔۔میری یاد اشت ۔۔نہیں یہ نام بھی نہیں ۔پھر
دونوں بازو اوپرکی طرف اُٹھا کر انگڑئی لیتے ہوئے کچھ سوچا اور پھر ہاتھ
نیچے کر کے بال پوائنٹ سے چند مزید الفاظ جو ذہن میں تھے صفحے پر لکھے اور
پھر کُر سی سے اُٹھ کر اپنے کمرے کے بستر پر لیٹ گیا او ر کب آنکھ لگی کچھ
خبر نہ ہوئی۔
صبح آنکھ کُھلی تو خیال رات کی طرف گیا ۔میز پر نظر پڑی توبال پوائنٹ اور
رجسٹر ویسے ہی بے ترتیبی سے پڑے ہوئے تھے آنکھیں مالتے ہوئے صفحے پر اپنے
لکھے ہوئے الفاظوں پر نظر پڑی ۔ حیران ہوا کہ یہ کیا سوچ تھی جو چند لمحوں
میں ذہن کو بوجھل کر گئی ۔نہیں یہ بوجھل نہیں بلکہ کوئی راہ دکھا گئی
۔۔اوہو! کہیں میرے ذہن کو تو نہیں اُلجھا گئی ۔
اصل میں وہ ایک جہاں دیدہ شخص تھا جس پر کسی کا بوجھ نہیں تھا۔ اپنے علم و
رُتبے سے اپنی پہچان رکھتا تھا غرور نہیں ۔رشتے دا ر اوردوست احباب جہاں
بھی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے اُن سے کسی دوسرے کیلئے خیر کاکام کروانے
سے نہیں جھجکتا تھا۔وہ زندگی کا مقصد سمجھ گیاتھا کہ کہانیاں نہیں حقیقت
جانواور خیال کرو۔
موبائل کی گھنٹی بجی نام دیکھا تو لال بٹن پر اُنگلی رکھ دی۔یہ بھی ایک
کہانی ہے۔ |