شوکت کا تعلق ایک نہایت غریب گھرانے سے تھا- وہ اپنے ماں
باپ کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتا تھا- اس کا باپ چھوٹی موٹی مزدوری کرکے گھر
کا خرچ چلاتا تھا- اس کی آمدنی زیادہ نہیں تھی اس لیے غربت کی وجہ سے شوکت
پڑھ لکھ نہیں سکا- وہ چھوٹا تھا تو دن بھر گھر سے باہر کھیلتا پھرتا- کچھ
بڑا ہوا تو اس کے باپ نے اسے سبزی منڈی میں ایک آڑھتی کے پاس لگوا دیا جہاں
وہ ٹرکوں سے مختلف پھل اور سبزیاں اتار اتار کر انھیں قرینے سے گودام میں
رکھتا- پھر دوسرے ملازموں کے ساتھ مل کر ان پھلوں اور سبزیوں کو دور دراز
علاقوں سے آئے ہوۓ چھوٹے دکانداروں کو فروخت کرتا تھا- اس کام میں بہت محنت
لگتی تھی- یہ مشقت کرنے کو اس کا دل تو نہیں چاہتا تھا مگر باپ کے ڈر سے
کرنا پڑتی تھی-
یہاں کام کرتے ہوۓ اسے برسوں ہوگئے تھے- اب وہ چوبیس سال کا ہوگیا تھا- اس
کے ماں باپ نے فیصلہ کیا کہ اب اس کی شادی کردی جائے- اس کی ماں نے اس کے
لیے ایک اچھی سی لڑکی ڈھونڈی اور شادی کردی-
اس کی بیوی کا نام نیلوفر تھا مگر سب اسے نیلی کہتے تھے- نیلی ایک خوش
اخلاق لڑکی تھی- شادی کے بعد وہ شوکت کے گھر آئی تو ہر ایک سے نہایت خندہ
پیشانی اور اخلاق سے پیش آتی- گھر میں کوئی مہمان آجاتا تو وہ اس کی خاطر
مدارات میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی تھی- محلے میں رہنے والے لوگوں سے بھی اس
کا بہت اچھا سلوک تھا- وہ اپنے ساس سسر کی بھی بہت خدمت کرتی تھی- اس کی
اچھی عادتوں کی وجہ سے سب اسے پسند کرتے تھے- جب ملنے جلنے والے شوکت کی
ماں سے یہ کہتے کہ اس کی بہو بہت اچھی ہے تو وہ بہت خوش ہوتی-
شوکت اس سے شادی کر کے بہت خوش تھا- وہ اسے اتنی اچھی لگتی تھی کہ اس کا دل
کام پر جانے کو بھی نہیں چاہتا تھا- مگر مجبوری یہ تھی کہ باپ بوڑھا ہو کر
گھر بیٹھ گیا تھا اور گھر کو چلانے کے لیے اسے ہر حال میں کام پر جانا پڑتا
تھا-
ان کی شادی کو کئی سال ہوگئے تھے اور ان کے دو بچے بھی ہوگئے تھے- ایک بیٹا
اور ایک بیٹی- ان کے دونوں بچے دوسرے بچوں کی طرح بہت خوب صورت اور بھولے
بھالے تھے- نیلی ان کی دیکھ بھال اور پرورش کا خاص دھیان رکھتی تھی- اس کی
یہ خواہش تھی کہ دونوں بچے خوب پڑھ لکھ جائیں- شوکت بچوں سے پیار تو بہت
کرتا تھا مگر نیلی کی طرح وہ ان کے مستقبل کے بارے میں بالکل بھی نہیں
سوچتا تھا- ایسی باتوں کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جاتا تھا-
ان کے بیٹے کا نام ساجد اور بیٹی کا نام ندا تھا- وہ کچھ بڑے ہوۓ تو نیلی
نے انھیں گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخل کروا دیا- شوکت کو تعلیم کی اہمیت
کا اندازہ ہی نہیں تھا اس لیے اس نے کبھی بچوں کی تعلیم کے بارے میں سوچا
بھی نہ تھا اور نہ اس سلسلے میں نیلی سے کبھی کوئی گفت و شنید کی- اس کے
ذہن میں تو بس یہ ہی ایک بات تھی کہ ساجد بڑا ہو کر کسی محنت مزدوری پر لگ
جائے گا- ندا کا کیا ہے- وہ تو اپنے گھر بار کی ہو ہی جائے گی- اپنی
لاپرواہی، نا سمجھی اور غیر ذمہ داری کی بنا پر ایک طرح سے وہ تعلیم کو
کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا-
مگر نیلی کی یہ سوچیں نہیں تھیں- وہ رہتی تو گاؤں میں تھی جہاں کے لوگ
سیدھے سادھے اور اپنے کام سے کام رکھنے والے ہوتے ہیں، مگر اسے اس بات کا
احساس تھا کہ زندگی گزارنے کے لیے تعلیم بے حد ضروری ہے- اس کا دل اس بات
پر بہت کڑھتا تھا کہ شوکت کو دن بھر کی محنت مشقت کے بعد بہت تھوڑے سے پیسے
ملا کرتے تھے جن سے گھر کا خرچ بھی مشکل سے چلتا تھا- ان کے نئے کپڑے بنے
سالوں گزر جاتے تھے- اس کی اسے ایک وجہ ہی سمجھ آتی تھی کہ ایک تو شوکت نے
تعلیم حاصل نہیں کی اور دوسری وجہ یہ کہ اس نے کوئی ہنر نہیں سیکھا تھا-
تعلیم حاصل نہ کرنا تو ایک مجبوری تھی، مگر کوئی ہنر نہ سیکھنا غیر ذمہ
داری کے زمرے میں آتا تھا-
ان تمام باتوں کے باوجود نیلی بڑی عقلمندی سے گھر چلاتی تھی- اس کے ساس سسر
بوڑھے ہوگئے تھے اور اکثر بیمار رہتے تھے- وہ ان کی دیکھ بھال کرتی اور ان
کی دوا وغیرہ کا دھیان رکھتی- اس نے پورے گھر کے کام سنبھالے ہوۓ تھے- وہ
ساجد اور ندا کی تعلیم پر بھی نظر رکھتی تھی- جس اسکول میں اس کے دونوں بچے
جاتے تھے، وہ بھی اسی اسکول میں آٹھویں جماعت تک پڑھی تھی- اس کی خواہش تو
بہت تھی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے- یہ اسکول صرف آٹھ جماعت تک تھا- اگلی
جماتیں پڑھنے کے لیے اسے دس کوس دور ایک دیہات کے ہائی اسکول میں جانا
پڑتا- اتنی دور جانے کی اجازت اس کے ماں باپ نے نہیں دی- اس وجہ سے وہ آگے
تعلیم حاصل نہ کرسکی-
جس آڑھتی کے پاس شوکت کام کرتا تھا وہ بہت پیسے والا تھا- اس کے بیٹے پڑھ
لکھ گئے تھے اور دبئی میں رہائش پذیر تھے- ان کے مشورے پر اس نے دبئی میں
سبزی اور پھلوں کی ایک بہت بڑی دکان کھول لی اور پاکستان سے بہترین پھل اور
سبزیاں وہاں بھیجنے لگا- شوکت اس کا ایک پرانا قابل اعتماد اور محنتی ملازم
تھا- اس نے ایک اچھی تنخواہ پر اسے دبئی جانے کے لیے آمادہ کرلیا- اس کے
بیٹوں نے وہاں اس کام کو چلانے کے لیے ایک بہترین سیٹ اپ بنا لیا تھا اور
مختلف کاموں کو انجام دینے کے لیے مقامی لوگ رکھ لیے تھے-
شوکت کے دبئی جانے کی خبر سے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی- اس کے ماں
باپ تو بہت ہی خوش تھے- انھیں یہ امید ہوگئی تھی کہ باہر کی کمائی کے آنے
سے ان کے بیٹے کے غربت کے دن ختم ہوجائیں گے- خوش تو نیلی بھی تھی مگر اسے
اس بات کا افسوس بھی ہو رہا تھا کہ شوکت ان لوگوں سے دور چلا جائے گا-
دونوں بچے اس سے بہت مانوس تھے- شوکت کے پردیس جانے سے وہ بھی اداس ہوجاتے-
مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ شوکت چلا گیا- ساجد اور ندا اس کے چلے جانے سے
اداس ہوگئے تھے مگر نیلی نے انھیں یہ کہہ کر تسلی دی کہ ان کا باپ ان کے
بہتر مستقبل کے لیے باہر گیا ہے- وہ چھٹیوں پر گھر آئے گا تو ان کے لیے
ڈھیروں چیزیں لے کر آئے گا-
جانے سے پہلے شوکت نے قریبی شہر کے ایک بینک میں نیلی کا اکاؤنٹ کھلوا دیا
تھا اور اسے اے ٹی ایم کارڈ بھی دلوا دیا تھا- گاؤں کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر
صاحب نے اس کو چیک بک اور آی ٹی ایم کے بارے میں چیدہ چیدہ باتیں سمجھا دی
تھیں-
شوکت ہر ماہ تنخواہ ملنے پر ایک اچھی خاصی رقم گھر بھجوادیا کرتا تھا- اسے
اس بات کا احساس تھا کہ اس کی غربت کے دنوں میں اس کے تمام گھر والوں نے
بڑی تکلیفیں اٹھائی تھیں اور ہنسی خوشی اس کا ساتھ دیا تھا- اب جب اسے دبئی
میں اچھے پیسے ملنے لگے تو وہ یہ ہی کوشش کرتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ پیسے
گھر بھیجے تاکہ اس کے بیوی بچے اور ماں باپ مزے سے زندگی گزاریں-
اس کے کچھ نئے دوست بھی بن گئے تھے- وہ بھی اسے یہ ہی بتاتے تھے کہ اب ان
کے گھر والے ایک آسودہ زندگی گزارتے ہیں- اچھے سے اچھا کھاتے ہیں اور قیمتی
کپڑے پہن کر گھومتے پھرتے ہیں- ان کے گھروں میں بڑی اسکرینوں کے ڈیجیٹل ٹی
وی، بڑے سائز کے فرج، اسپلٹ ایئر کنڈیشن، غرض کہ دنیا بھر کی چیزیں آگئی
ہیں- ان کی باتیں سن سن کر شوکت بھی خوش ہوتا تھا کہ اس کے گھر والے بھی
ایسے ہی مزے سے رہ رہے ہوں گے-
دبئی میں پھلوں اور سبزیوں کا کام بہت بہتر طریقے سے چل نکلا تھا- شوکت کا
مالک ایک نیک اور ایماندار شخص تھا- وہ دبئی میں اپنی دکان کے لیے پاکستان
سے نہایت اعلیٰ درجے کا مال بھجوایا کرتا تھا- اس کو اپنے پاکستان کی عزت
اور اس کا نام بہت عزیز تھا اسی لیے وہ چاہتا تھا کہ اس کے مال میں کوئی
خرابی نہ ہو- اس کی اس اچھی سوچ کی وجہ سے بہت جلد اس کی دکان کا نام مشہور
ہوگیا تھا اور اس کی بھیجی ہوئی اشیا ہاتھوں ہاتوں فروخت ہوجاتی تھیں-
شوکت بھی بہت لگن سے اپنی ڈیوٹی انجام دیتا تھا- اس کا مالک اس پر بہت
بھروسہ کرتا تھا- پہلے سال تو کام کی زیادتی کی وجہ سے شوکت کو چھٹی نہیں
ملی اور وہ چاہنے کے باوجود پاکستان نہ آسکا- دوسرے سال بھی اسے صرف دس دن
کی چھٹی ملی تھی- وہ خوشی خوشی پاکستان آیا-
اس کے ساتھ دو بڑے سوٹ کیس تھے- ان سوٹ کیسوں میں اس کے ماں باپ اور بیوی
بچوں کی چیزیں بھری ہوئی تھیں- اسے یہ سوچ سوچ کر دلی مسرت ہو رہی تھی کہ
ان چیزوں کو دیکھ کر اس کے سب گھر والے خوش ہوجائیں گے-
ایئر پورٹ سے اس نے گھر جانے کے لیے ٹیکسی کی تھی- وہ اپنی گلی میں داخل
ہوا تو یہ دیکھ کر وہ خوش ہوگیا کہ اس کے بیوی بچے دروازے پر ہی کھڑے اس کا
انتظار کر رہے تھے –اس نے ایئر پورٹ سے انھیں اطلاع دے دی تھی کہ وہ تھوڑی
دیر میں گھر پہنچنے والا ہے-
بچوں کو دیکھ کر اسے کچھ حیرت ہوئی- ان کے جسموں پر اسی طرح کے معمولی کپڑے
تھے جیسے وہ اس کی موجودگی میں پہنا کرتے تھے- ان کے پاؤں میں قیمتی جوتے
بھی نہیں تھے- انہوں نے نائلون کی چپلیں پہن رکھی تھیں- بچوں کو اس حالت
میں دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گیا- اس نے دل میں کہا کہ وہ اس بارے میں نیلی
سے ضرور بات کرے گا اور اس سے پوچھے گا کہ جب وہ ہر ماہ اسے ایک معقول رقم
بھیجتا تھا تو اس نے بچوں کو اس حال میں کیوں رکھا ہوا ہے- اس نے انھیں
قیمتی کپڑے اور جوتے کیوں نہیں دلاے-
ٹیکسی اس کے گھر کے دروازے کے آگے رکی- وہ جیسے ہی نیچے اترا، اس کے دونوں
بچے اس سے لپٹ گئے- اس نے ٹیکسی سے اپنا سامان نکال کر ڈرائیور کو پیسے دیے
اور گھر میں داخل ہوا-
اس کے ماں باپ صحن میں چار پایوں پر بیٹھے ہوۓ تھے- اسے اندر آتا دیکھ کر
اس کی ماں نے اسے گلے سے لگا لیا- اس کے باپ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر
دعائیں دیں- شوکت کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اس کے ماں باپ نے بہت
اچھے اور صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوۓ تھے- ان کی صحت بھی اچھی لگ رہی تھی-
اسے اپنے گھر میں بے حد صفائی نظر آئی- نیلی نے پورے گھر میں رنگ کروایا
تھا- جہاں جہاں مرمت کی ضرورت تھی وہ بھی اس نے کروا دی تھی- گھر میں ہر
چیز قرینے اور صاف ستھرے طریقے سے رکھی ہوئی تھی مگر تمام چیزیں وہ ہی تھیں
جو دو سال پہلے وہ چھوڑ کر گیا تھا- نہ تو اسے نیا فرنیچر نظر آیا اور نہ
ہی گھریلو استعمال کی دوسری نئی چیزیں-
شام ہو چکی تھی اور سورج غروب ہونے لگا تھا- نیلی نے شوکت کے آنے کی خوشی
میں اس کی اور بچوں کی پسند کے بہت اچھے اچھے کھانے پکائے تھے- کھانے کے
دوران اس کا باپ اس سے دبئی کے بارے میں باتیں کرتا رہا- اس کی ماں کھانا
کھاتے ہوۓ اسے مسلسل محبّت بھری نظروں سے دیکھے جا رہی تھی اور بہت خوش نظر
آرہی تھی-
کھانے کے بعد شوکت نے سوٹ کیسوں میں سے چیزیں نکال نکال کر سب کو دیں- بچوں
کے لیے وہ بہت سے کپڑے اور کھلونے لایا تھا- ساجد اور ندا کا تو ان چیزوں
کو دیکھ کر خوشی کے مارے برا حال ہوگیا تھا- ان کی خوشی دیکھ کر شوکت اور
نیلی مسکرا رہے تھے- وہ اپنے ماں باپ اور بیوی کے لیے بھی بہت سے کپڑے اور
دوسری چیزیں لایا تھا-
رات کو جب دونوں بچے سو گئے تو شوکت نے نیلی سے کہا- "نیلی- مجھے بہت خوشی
ہے کہ تم نے میری غیر موجودگی میں گھر کا نظام نہایت عمدہ طریقے سے چلایا-
اماں مجھے بتا رہی تھیں کہ تم ان لوگوں کا بہت خیال رکھتی ہو اور ان کی بہت
خدمت کرتی ہو- میں سمجھتا ہوں یہ تمہارا مجھ پر ایک احسان ہے"-
نیلی مسکرا کر بولی- "اس میں احسان والی کوئی بات نہیں- گھر کے بزرگوں کی
خدمت کرنے سے گھر میں بہت برکت ہوتی ہے- ویسے بھی آپ بھی اتنی دور چلے گئے
ہیں- اب سب چیزیں مجھے ہی دیکھنا پڑتی ہیں- ساجد اور ندا تو ابھی چھوٹے
ہیں- لیکن ان کی یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ کے جانے کے بعد دونوں بہن بھائی
نے مجھے ذرا بھی تنگ نہیں کیا- وہ پابندی سے اسکول جاتے ہیں اور کبھی چھٹی
کے لیے ضد نہیں کرتے- آپ ان کی تعلیمی رپورٹیں دیکھیں گے تو خوش ہوجائیں
گے"-
"یہ بھی تمہاری ہمت ہے کہ تم ان کی تعلیم پر اتنی توجہ دیتی ہو- مجھے اب
اندازہ ہوتا ہے کہ میں نے نہ پڑھ لکھ کر کتنی بڑی غلطی کی تھی- مجھے وہاں
بہت محنت کرنا پڑتی ہے- اگر میں بھی تعلیم یافتہ ہوتا تو مزے سے میز کرسی
پر بیٹھ کر کام کرتا"-
"اس میں آپ کا بھی کوئی قصور نہیں ہے- مجھے اماں بتاتی ہیں کہ آپ چھوٹے تھے
تو اس وقت پیسوں کی بہت تنگی تھی"- نیلی نے کہا-
"ہاں یہ تو ہے"- شوکت نے کہا- پھر کچھ دیر خاموش رہ کر بولا- "ایک بات پر
مجھے بہت حیرت ہے- اماں ابّا تو بہت اچھی حالت میں رہ رہے ہیں- میں ابھی ان
کے کمرے میں گیا تھا تو میں نے ان کے صندوق نئے نئے کپڑوں سے بھرے دیکھے-
مگر مجھے تم اور بچے معمولی کپڑوں میں ہی نظر آرہے ہو- ہمارے گھر میں ابھی
تک وہ ہی چھوٹا سے ٹی وی رکھا ہوا ہے جو ہم نے سالوں پہلے سیکنڈ ہینڈ لیا
تھا- گھر میں نہ بڑے بڑے پلنگ نظر آرہے ہیں ، نہ فوم کے گدے اور نہ ہی صوفے
اور واشنگ مشین وغیرہ- حالانکہ میں ہر مہینے تمھارے اکاؤنٹ میں کافی پیسے
بھجواتا ہوں"-
"آپ کے بھیجے ہوۓ پیسوں کو میں دو حصوں میں تقسیم کرلیتی ہوں- پہلے حصے سے
گھر کا خرچ چلاتی ہوں، اماں ابا کی دوائیاں اور ان کے کپڑے لتے بھی ان ہی
پیسوں سے لیتی ہوں- میرا اور بچوں کا کام بھی چل ہی جاتا ہے- کبھی کبھار
کہیں آنے جانے کے لیے میں نے اپنے اور ان کے دو دو بڑے اچھے جوڑے بنوا کر
رکھے ہوۓ ہیں- دوسرے حصے کو میں بینک میں ہی جمع رکھتی ہوں- الله کا شکر ہے
کہآپ کے بھیجے ہوۓ آدھے پیسوں سے ہماری تمام ضرورتیں بہت اچھے طریقے سے
پوری ہوجاتی ہیں- یہ ضروری تھوڑا ہی ہے کہ میاں باہر سے جو کما کر بھیجے،
وہ سب خرچ کر دیا جائے"- نیلی نے مسکرا کر کہا-
"اچھا تو بینک میں رقم اس لیے جمع کر رہی ہو کہ اس پر منافع ملتا رہے"-
شوکت نے مسکرا کر کہا-
"بینک کا منافع سود ہوتا ہے اور سود تو حرام ہے- ہمارے مذہب نے اس سے بچنے
کی سختی سے تاکید کی ہے- میں نے تو ماسٹر صاحب سے مشوره کر کے ایک فارم بھی
بینک میں جمع کروا دیا ہے کہ مجھے جمع شدہ رقم پر منافع نہیں چاہیے"- نیلی
نے بتایا-
"یہ تو تم نے اچھا کیا- سود حرام ہے- مگر تمہاری اس بچت کی عادت پر مجھے
ذرا خوشی نہیں ہوئی ہے- میں پردیس میں گھر سے دور رہ کر بڑی تکلیفیں اٹھا
رہا ہوں- میں تو یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتا تھا کہ میری باہر کی کمائی سے تم
خود بھی اور بچوں کو بھی بہت عیش کروا رہی ہوگی"-
"میں پیسوں کے اس دوسرے حصے کو ہاتھ بھی نہیں لگاتی چاہے مجھے کتنی بھی
تنگی کا سامنا کرنا پڑ جائے- پتہ ہے یہ پیسے میں ساجد اور ندا کی اعلیٰ
تعلیم کے لیے جمع کر رہی ہوں- ہمارے گاؤں کا اسکول آٹھ جماعت تک ہے- کچھ ہی
سال بعد الله کی مہربانی سے یہ دونوں نویں جماعت میں پہنچ جائیں گے- میں
انہیں آگے کی پڑھائی کے لیے شہر میں داخلہ دلواؤں گی- ان کے روز کے آنے
جانے، فیسوں کا خرچہ اور ان کی تعلیم کے دوسرے اخراجات ہم بے فکری سے بینک
میں جمع شدہ پیسوں سے ادا کیا کریں گے- کالجوں اور اس سے آگے کی پڑھائی بہت
مہنگی ہوگئی ہے- میں نے تو سنا ہے کہ ہر چھ ماہ بعد ڈیڑھ دو لاکھ روپے
اکھٹے جمع کروانا پڑتے ہیں"-
اس کی بات سن کر شوکت حیرت زدہ رہ گیا- جو باتیں اس کے سوچنے کی تھیں، وہ
باتیں اس کی بیوی سوچ رہی تھی- اس نے کہا- "نیلی تم نے کمال کردیا ہے- تم
نے واقعی ایک بہت اچھی بات سوچی ہے- اب زمانہ بدل گیا ہے- تعلیم کی روشنی
گھر گھر پھیل رہی ہے- اگر ہم اپنے بچوں کو تعلیم نہ دلوائیں تو یہ ان پر
ظلم ہوگا- وہ زندگی بھر تکلیفیں ہی اٹھاتے رہیں گے- اس کے علاوہ وہ ایک ذمہ
دار شہری بھی نہیں بن سکیں گے"-
"اس قدر احتیاط سے چلنے کے باوجود میں بچوں کے کھانے پینے اور ان کی دوسری
ضروریات کا بہت خیال رکھتی ہوں مگر فضول خرچی بالکل نہیں کرتی- ہمارے بچے
بھی سادگی پسند ہیں- وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کا باپ باہر رہ کر کما رہا ہے
تو وہ خوب عیش کریں- انھیں بھی آپ کی تکلیفوں کا احساس ہوتا ہے- اس روز
ساجد مجھ سے کہہ رہا تھا کہ جب وہ خوب پڑھ لکھ کر بڑا ہوجائے گا اور کسی
اچھی سی جگہ پر نوکری کرنے لگے گا تو آپ سے کہے گا کہ ابّا اب آپ گھر بیٹھ
کر آرام کریں- اب میں کماؤں گا- ندا ڈاکٹر بننا چاہتی ہے- وہ کہہ رہی تھی
کہ ڈاکٹر بن کر وہ غریبوں کا مفت علاج کیا کرے گی"-
تھوڑی دیر بعد نیلی چائے بنانے کے لیے چلی گئی- اس کی باتیں سن کر شوکت کو
بہت اچھا لگا تھا- وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے
کہ لڑکیوں کو تعلیم دلانا فضول ہے- لیکن ان کا یہ خیال کس قدر غلط ہے- نیلی
اگرچہ آٹھ جماعت تک ہی پڑھی ہوئی ہے مگر اس کے ذہن میں اس تعلیم کی وجہ سے
کتنے اچھے اچھے خیالات آتے ہیں-
جب نیلی چائے کی دو پیالیاں لے کر آئی تو شوکت بیٹھا مسکرا رہا تھا- اسے
مسکراتا دیکھ کر نیلی بھی مسکرانے لگی- اس نے چائے کی ایک پیالی اسے دی اور
بولی- "خدا کا شکر ہے- آپ بہت خوش نظر آرہے ہیں"-
"خوش تو میں واقعی بہت ہوں"- شوکت نے کہا- "جو باتیں میرے سوچنے کی تھیں،
تم نے نہ صرف انھیں سوچا بلکہ ان پر عمل بھی کر رہی ہو- مجھ جیسے غیر ذمہ
دار شوہر کی تمھارے جیسی ذمہ دار بیوی ہو تو وہ وہ بھلا خوش کیوں نہ ہوگا"-
(ختم شد)
|